کورونا کی دوسری لہرکا خدشہ

ایڈیٹوریل  جمعـء 23 اکتوبر 2020
ملک میں کورونا وائرس کی تازہ ترین صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تویہ خطرے کی حدوں کو چھورہی ہے۔ فوٹو: فائل

ملک میں کورونا وائرس کی تازہ ترین صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تویہ خطرے کی حدوں کو چھورہی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں تقریباً اڑھائی ماہ بعدکورونا وائرس سے ایک دن میں سب سے زیادہ 19 ہلاکتیں سامنے آنے کے بعد صورتحال ایک بار پھر سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی کل تعداد سوا 3 لاکھ اور ہلاکتیں ساڑھے چھ ہزار تک جا پہنچی ہیں۔

یہ سب اعدادوشمار اس امرکی واضح نشاندہی کررہے ہیں کہ کورونا وائرس کی دوسری لہرآرہی ہے، جب کہ دوسری جانب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کہا ہے کہ ایس او پیز پر عدم عمل درآمد پر سخت پابندیاں دوبارہ لگ سکتی ہیں، سروسز بند کرنے پر مجبور ہوںگے۔ یہ انتباہ اس بات کا عندیہ ہے کہ ملک کو دوبارہ لاک ڈاؤن جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،کیونکہ اس وقت مریضوں میں اضافے کی شرح 2.58 تک جا پہنچی ہے،جو گزشتہ دوماہ کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔

وفاقی وزیر اسد عمرکے زیرصدارت ہونے والے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکے اجلاس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے ازسرنوکڑے اقدامات کا اشارہ دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ملک میں کوروناصورتحال کی مکمل مانیٹرنگ جاری ہے، ایس او پیزعملدرآمد میں بہتری نہ ہونے پرمشکل فیصلوں کے سوا چوائس نہیں۔ یہ درست ہے کہ پوری دنیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہرآ چکی ہے اور کئی ممالک دوبارہ لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں،گیارہ لاکھ افراد تو اس وائرس کے ہاتھوں اپنی جان گنوابیٹھے ہیں۔

یہ پاکستان کی خوش قسمتی کہیے کہ ابھی تک کورونا وائرس کی وجہ سے اموات کی شرح انتہائی کم ہے، لیکن اس کے باوجود احتیاط کا دامن ہم نے چھوڑ دیا ہے، جس کے باعث نئے سرے سے وائرس فعال ہورہا ہے اورکیسزکی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی پابندیاں اٹھ جانے کے بعد ہم نے خود ساختہ طور پر یہ تصورکرلیا ہے کہ جیسے کورونا وائرس کا ملک سے خاتمہ ہوگیا ہے یا دسری جانب ہم عالمی اداروں اور ڈبلیو ایچ او کی موثر کارکردگی اور عالمی توصیف سے بے جا خود اعتمادی کا شکار ہوگئے تو وائرس کی لہر کا خدشہ منفی صورتحال کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

اسد عمر کا انتباہ ایک ویک اپ کال ہے، حکام صحت عوام کو اپنی طرف سے یہ بتا دیں کہ ابھی کورونا نے شکست تسلیم نہیں کی، دنیا ابھی تک اس عفریت کی یرغمالی ہے لہذا احتیاط کی اشد ضرورت ہے، غالباً اسی منفی سوچ کے تحت  ہم نے بحیثیت قوم ہر وہ کام کیا، جو وائرس کے کم بیک کا سبب بنا۔ نہ جانے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک وائرس سے لڑرہے ہیں جس کی ویکسین تک تاحال تیارنہیں ہوئی ہے، پبلک مقامات پر ہجوم لگانے اور سماجی، سیاسی، مذہبی اجتماعات کی کثرت نے کورونا وائرس کو دوبارہ ابھرنے کا بھرپور اورسنہرا موقعہ فراہم کردیا ہے۔یہ صورتحال ختم ہونی چاہیے، ہر شخص ماسک لگائے، سماجی فاصلہ کی پابندی کا خیال رکھے اور سینیٹائزرز کا استعمال سرکاری سطح پر مارکیٹوں، شاپنگ مالز، دفاتر، سبزی منڈیوں، مسافر گاڑیوں  اور اسکول و مدرسوں میں  جاری رہے۔

موجودہ صورتحال کے تناظر میں ملین ڈالرسوال یہ ہے کہ آیا ہمارا ملک دوبارہ لاک ڈاؤن کا متحمل ہوسکتا ہے،کیونکہ ایک ایسا ملک جس کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔ آبادی کا مزید ایک تہائی حصہ نچلے یا لوئر مڈل کلاس میں شامل ہے۔ مجموعی طور پر لگ بھگ چھیاسٹھ فیصد آبادی خط غربت کے نیچے جاچکی ہے۔ دوسری جانب ملکی معیشت بھی ہچکولے کھارہی ہے اور ایک حالیہ سروے کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں پاکستان میں بیروزگاری کی شرح اٹھائیس فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

امکان ہے کہ آیندہ مالی سال میں بیروز گار افراد کی تعداد 6.64 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ ایسے خدشات بھی ہیں کہ طویل المدتی لاک ڈاؤن فارمل سیکٹر میں تیس فیصد افرادی قوت کی بیروز گاری کا باعث بن سکتا ہے، جس سے نجی سیکٹرکو 190 بلین روپے کا نقصان ہو گا۔ یہ وہ حقائق ہیں، جن پر ہمارے شہ دماغوںکو سوچنا ہو گا، کیا ایک بار پھر لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن، یا کوئی بھی اور صورت ہی اس مسئلے کا حل ہو گی، کیونکہ کورونا وائرس سے جہاں ہمارا معاشی وسماجی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے، وہیں وبا کے باعث پاکستانی اقتصادیات میں پندرہ بلین ڈالرکی گراوٹ آئی ہے، جب کہ رواں سال کی چوتھی (جاری) سہ ماہی میں مجموعی قومی پیداوار دس فیصد تک گھٹ سکتی ہے۔ سال رواں میں اقتصادی نموکی شرح صفر یا منفی دو فیصد تک رہنے کے امکانات ہیں۔ ہم نے جوگزشتہ چھ ماہ کورونا وائرس کی شدت کے حوالے سے برداشت کیے ہیں، اس کے آفٹرشاکس تاحال ملکی معیشت پرمحسوس کیے جاسکتے ہیں۔

شعبہ صحت کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں ہر 963 افرادکے لیے ایک ڈاکٹر ہے جب کہ ہر 1,608 افراد کے لیے اوسطاً اسپتال کا ایک بستر میسر ہے۔ ملک کو دو لاکھ ڈاکٹرز اور چودہ لاکھ نرسوں کی کمی کا پہلے ہی سامنا تھا۔ ایسی نازک صورتحال میں کورونا وائرس میںمبتلا مریضوں پر جوکچھ بیتی ،اس دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری تمام حکومتوں کے نزدیک شعبہ صحت قابل توجہ یا ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے۔ پاکستانی نظام صحت کا وبا سے پہلے بھی برا حال تھا اور اس کے بعد صورتحال میں کسی بھی قسم کی بہتری نہیں آئی ہے۔

یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً بیالیس ملین بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ چالیس ملین افراد کو پہلے ہی کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کا سامنا تھا، جس میں وبا کی وجہ سے قریب ڈھائی ملین افراد کا اضافہ ہوچکا ہے۔

ہم اس نکتے پربھی غورکرلیتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے، انھیں بلاشبہ سراہا گیا، وزیراعظم عمران خان کی سوچ وفکر اورسنجیدگی نے بھی اس وبا کی روک تھام میں نمایاںکردار ادا کیا ہے، جس کا ہمیں عالمی سطح پرکریڈٹ بھی دیا گیا ہے۔

ساری باتیں صائب سہی لیکن ایک بار پھرسوالات نے ذہن میں جنم لینا شروع کر دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں لاک ڈاؤن سے زراعت بھی متاثر ہوگی جب کہ ٹرانسپورٹ، مزدوروں اور خام مال تیارکرنے والوں کا کیا بنے گا؟ یاسیت کو چھوڑکر امیدکی بات کی جائے تو موجودہ دنوں میں فنانشل مارکیٹوں میں دوبارہ استحکام دکھائی دے رہا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی معیشت مشکلات کا شکار ہے، بیروز گاری بڑھ رہی ہے اورکئی سیکٹرز بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستانی ایکسپورٹس میں ٹیکسٹائل مصنوعات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن وبا کے بعد کے دور میں ایسی مصنوعات کی طلب کم ہونے سے ایکسپورٹس پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستانی روپے  کی قدر پر بھی کمی ہوئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوئے ہیں۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ کورونا کی وبا کو پاکستانی حکومت شروع ہی سے نظر اندازکررہی ہے اور اس کی شدت کوکم بتا رہی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کی وجہ ملکی اقتصادیات کو پٹری سے اترنے سے بچانا ہو سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال کو مزید ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو فنانشل مارکیٹوں میں استحکام کا مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لوگ شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے قرضے اور وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے باعث سرمایہ کار طویل المدتی بنیادوں پر پیسہ لگانے سے گزیرکررہے ہیں۔ یہاں پر حکومت اور اس کے معاشی ماہرین کا کڑا امتحان ہے کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔

ہم اگر عالمی میڈیا کی زینت بننے والی خبروں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ اعدادوشمار ہماری بند آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ دنیا بھر میں فعال کیسز 94 لاکھ تک پہنچ گئے جب کہ مجموعی اموات 11 لاکھ 35 ہزار ہیں۔ امریکا میں گزشتہ روز 900 اور بھارت میں 700 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی لہر جاری ہے، ریکارڈ 21 ہزار 331 کیسز سامنے آگئے جب کہ 241 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چیک جمہوریہ میں ایک دن میں ریکارڈ 11 ہزار مریض سامنے آگئے۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ماسک کی پابندی کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

اقوام عالم کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے تمام تر وسائل اسلحے کے انبار لگانے اور جنگیں لڑنے پر خرچ کر دیے ہیں، انسانیت کی بقا کے لیے اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے، انسانی صحت ترجیحات کی فہرست میں آخری درجے پر ہے، انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے اور ہم بارود کے پہاڑکھڑے کرکے نہ جانے خود کوکیا سمجھ رہے ہیں۔ ایک جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے گیارہ لاکھ باسی موت کے منہ میں چلیے جائیں اور وبا کے خاتمے کی ویکسین تک تیار نہ ہوسکے، نوع انسانیت کا اس سے بڑا اورکوئی المیہ نہیں ہوسکتا۔اقوام عالم کو اپنی سوچ وفکرکو ازسر نو انسانی بنیادوں پر تعمیرکرنا پڑے گا، ورنہ سب کچھ تباہ وبرباد ہوجائے گا۔

ملک میں کورونا وائرس کی تازہ ترین صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تویہ خطرے کی حدوں کو چھورہی ہے، آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ حالات اسی طرح رہے تو خطرہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جہاں ہمیں کاروبار زندگی بندکرنا پڑے گا، وہاں سماجی زندگی پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔حرف آخر عوام نے احتیاط کا دامن نہ تھاما تو آنے والے دن کورونا وائرس کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں، وبا دوبارہ سر اٹھارہی ہے، اس وقت انتہائی احتیا ط کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔