بھارت کی مبینہ آفر

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 23 اکتوبر 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کہا جا رہا ہے کہ حکومت بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ایک بھارتی صحافی پاکستان آیا تھا،اس کے دورہ پاکستان کے دوران بھارت کی یہ خواہش میڈیا میں آئی تو یہ امید نہیں کہ ایسی مثبت خواہش کا اظہار بھارت پاکستان سے کرے، اگرچہ خواہش کسی بھی حوالے سے بھارت نے کی ہے تو پاکستان اس کو ویلکم ہی کرے گا۔ کشمیر اور فلسطین دو ایسے پرانے مسئلے ہیں جن کا حل نہ ہونا ایک انتہائی افسوس کی بات ہے۔

یہی حال فلسطین کا ہے فلسطین اورکشمیر دونوں کا شمار دنیا کے پرانے ترین مسئلوں میں ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ان کے حل نہ ہونے میں بھارت اور فلسطین کا کوئی خاص کردار نہیں بلکہ ان دونوں ہی مسئلوں کے حل نہ ہونے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا اہم کردار ہے۔

بھارت ایک ایسے ملک ’’کشمیر‘‘ پر طاقت کے بل پر قابض رہنا چاہتا ہے جس کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو پسند نہیں کرتے اور بھارت اپنی آٹھ لاکھ فوج کی مدد سے کشمیر پر قابض ہے۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی ملک پر طاقت کے بل پر قبضہ دائمی نہیں ہوتا جلد یا بدیر طاقت کی برتری کو ختم ہونا پڑتا ہے۔

یہی ماضی کا تجربہ ہے یہی حال کا حال ہے، اس حوالے سے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس امر یا خواہش میں صداقت کا پہلو بہت کمزور نظر آتا ہے،  اگر یہ بھی کوئی شوشہ ہی ہے تو افسوس کی بات ہے اس کے یہ خلاف اس میں دو فیصد بھی حقیقت ہے تو یہ خبر انسانوں انسانیت کا بھلا چاہنے والوں کے لیے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بات ہے بلکہ مستقبل کے لیے اسے ایک نوید ہی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان بھارت کے مقابلے میں نسبتاً ایک کمزور ملک ہے مسئلہ کشمیر کے 71 سال تک حل نہ ہونے کی اصل اور بڑی وجہ یہی ہے۔

کوئی بھی انصاف پسند انسان کشمیر کے مسئلے پر بھارت کی حمایت نہیں کرسکتا، البتہ بھارت حقیقی معنوں میں ایک سیکولر ملک ہوتا اور مستقبل میں بھارتی عوام صرف اور صرف انسان بن کر رہنا چاہتے تو پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانیت نواز ملک بھارت کی اس ممکنہ خواہش کی خوب پذیرائی کرتے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کے حکمران طبقے نے بھارت کو ایک کٹر مذہبی ریاست ڈکلیئر کرکے بھارت اور پاکستان کے ’’انسانوں‘‘ کو بہت مایوس کیا ہے۔

یہ کیسی دلچسپ بات ہے کہ بھارت اپنے صحافیوں کے ذریعے مذاکرات کی پیشکش اس وقت کر رہا ہے جب کہ ملک کے کئی شہروں میں پرتشدد احتجاج کی مکمل تیاریاں ہو چکی ہیں اور جو جلسے ہو رہے ہیں، اسے نہ صرف پرتشدد بنانے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے بلکہ یہ پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں کہ 2020 عمران خان کی حکومت کا آخری سال ہوگا۔ یہ مہینہ اکتوبرکا ہے یعنی بقول ہندوستانی سیاسی پنڈت عمران خان کی حکومت اب صرف دو ماہ کی مہمان ہے، یہ عمل ہندوستان کم کر رہا ہے پاکستان کے سیاسی اکابرین زیادہ کر رہے ہیں۔

ہماری سیاست میں جب سے ناسمجھ اور جلد باز سیاسی کردار آئے ہیں تو سیاست یا تو مذاق بن گئی ہے یا اقتدار کی ایسی اندھی لڑائی بن گئی ہے جہاں کسی سیاستدان کے سر میں حصول اقتدار کی جلدی کے علاوہ کوئی دوسرا سودا سمایا ہوا ہی نہیں ہے۔ عمران حکومت کو بدنام کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ پاکستان آٹے کی قلت کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہے اور ہماری صوبائی حکومت بارہ لاکھ ٹن گندم دبائے بیٹھی ہے جس کا مقصد عوام میں بے چینی پیدا کرکے انھیں سڑکوں پر لانا ہے۔

پاکستان کے اس سیاسی منظرنامے میں بھارت کی طرف سے مذاکرات کی خواہش ایک احمقانہ آفر کے علاوہ اور کیا کہلا سکتی ہے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ بھارت اپنے اندرونی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ چال چل رہا ہو۔ آفر کے حوالے سے دو باتوں کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ایک بھارت کا سیکولر ہونا دوسرے مذہبی انتہا پسندی کے اندھے غار سے باہر نکلنا یہ کیسی بدقسمتی یا حالات کی ستم ظریفی ہے کہ ایک زمانے میں جب کہ کسی ملک کا غیر جانبدارانہ ہونا باعث فخر ہوتا تھا۔ بھارت غیر جانب بلاک کا سربراہ تھا اور غیر جانبداری کے سنبل کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا یہ کیسی ٹریجڈی ہے کہ وہی بھارت آج مذہبی انتہا پسندی کا گڑھ بن کر رہ گیا ہے۔

بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کی آفر کی ہے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اگر یہ آفر کسی خود کی خواہش ہے تو اس کا بھلا کیا جواب دیا جاسکتا ہے۔ میں نے اس کالم میں پاکستان کے کچھ سیاسی حالات کا بھی ذکر کیا ہے کہ کم ازکم اس اہم آفر کے بعد جس کا تعلق براہ راست دونوں ملکوں کے روشن مستقبل سے ہے پاکستانی اپوزیشن کو پریشان کن کھیل سے باز آجانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔