ریڈیو پاکستان! حسین ماضی، حالِ دگرگوں، غیر یقینی مستقبل

سہیل یوسف  ہفتہ 24 اکتوبر 2020
ریڈیو پاکستان کے سیکڑوں کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کردیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

ریڈیو پاکستان کے سیکڑوں کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کردیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

ریڈیو پاکستان وہ ادارہ ہے جس نے اس ملک میں فنونِ لطیفہ کی پرورش کی۔ جس نے فنکاروں، گلوکاروں، شاعروں، ادیبوں اور موسیقاروں کی تربیت کرکے اس ملک میں نابغۂ روزگار فنکار پیدا کیے۔ آج اس ادارے کا پرسانِ حال نہ حکومت ہے اور نہ ہی متعلقہ وزارت۔ ادارے کی بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ ادارے کو اُن شعبوں سے متعلق لوگوں سے ہی محروم کیا جانے لگا ہے جن کے بغیر اس ادارے کا وجود ہی بے کار ہوجائے گا۔

حال ہی میں ریڈیو پاکستان میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے اسٹاف سے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ انہیں مرحلہ وار ادارے سے فارغ کردیا جائے۔ جس کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے اور معلومات کے مطابق سیکڑوں کنٹریکٹ ملازمین کو بغیر یہ دیکھے نوکری سے نکال دیا گیا کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کا وہ سنہرا دور ریڈیو کےلیے دیا جس میں انسان پہاڑوں کو کاٹ کر سونا نکالنے کی ہمت و عزم سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان نکالے جانے والے افراد میں موسیقی کے شعبے سے متعلق اور دفتری کاموں سے متعلق ایسے افراد ہیں جنہوں نے ادارے اور اس کے افسران کی اٹھارہ، بیس سال خدمت کی۔ اُن کی خدمت کا صلہ اُنہیں نوکری سے جبری برطرفی کی صورت میں ملا۔ جبکہ ان ملازمین کی تنخواہوں پر نظر دوڑائی جائے تو وہ ریڈیو کے ”کرسی توڑ“ افسران کو ملنے والی میڈیکل کی سہولت کے ساتھ، چائے پانی، مہمان نوازی اور ٹیلیفون بل کی مراعات سے بھی کم ہے۔ اس کا تمام ریکارڈ ریڈیو ہی کےدفاتر سے باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

کنٹرولر، ڈپٹی کنٹرولر، پروگرام منیجروں اور پروڈیوسروں کے حالات یہ ہیں کہ اُنہیںِ جدید دور کے تقاضوں کا ادراک تک نہیں ہے اور نہ جدید خطوط پر اس کےلیے کوئی کچھ کرنے کا سوچتا ہے۔ مرثیہ، سوز و سلام، ملی نغمے اور گیت بھی وہ نشر کیے جاتے ہیں جنہیں پسند کرنے والے بھی ناپید ہوچکے ہیں۔ پروڈیوسرز قومی و مذہبی اہم ترین مواقع پر پرانے پروگراموں کو اُس دن کی مناسبت سے ”نشر مکرر“ کرکے اپنی پروڈکشن کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ کنٹریکٹ پر ڈیوٹی افسرز تعینات کیے جاتے ہیں جن کا مشاہیرہ اتنا قلیل ہے کہ اُن کے آنے جانے کا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا۔

ریڈیو پاکستان کے ایک ڈیوٹی افسر کے مطابق ”ریڈیو پاکستان کا عروج ہم نے دیکھا ہے تو زوال میں ساتھ چھوڑنا کم ظرفی ہوگی۔“ اور اس سوال پر کہ اس زوال کا سبب کیا سمجھتے ہیں؟ تو فرماتے ہیں ”میاں یہ ادارہ فنکاروں کا ہے، یہاں سے منسلک فنکاروں کے حالات یہ تھے کہ اُنہیں یہاں کے علاوہ کہیں اور کام کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا، جو یہاں سے منسلک ہوا، یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ بسا اوقات تو ڈھولک، طبلے اور ہارمونیم بجانے والوں کو کئی کئی دن گھر جانے کی فرصت بھی نہیں ملتی تھی۔ شاعر، نثر نگار، ترجمہ کار تو ایک طرف اپنے کام کے ماہر تھے، اس زمانے میں پروڈیوسرز کا حال یہ تھا کہ موسیقی کے رموز سے شاعری کے عروض، صداکاری کے زیر وبم سے لے کر خطاطی اور مصوری تک کے فنون کا درک رکھتے تھے۔ اب بھی پاکستان کے نامور صداکار اس بات کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ اُن کو لفظوں کی ادائیگی اور درست تلفظ کا یہ ہنر ریڈیو پاکستان ہی سے سیکھنے کو ملا۔ اس دور میں معمولی تعلیم اور اچھے تجربے کی بنیاد پر ریڈیو میں نوکری مل جاتی تھی، یہی دور ریڈیو کے عروج کا تھا۔

پھر ریڈیو میں فنونِ لطیفہ سے بے بہرہ لوگوں کی بھرتیاں تعلیمی اسناد کی بنیاد پر ہونے لگیں، افسران اپنے گریڈوں اور پے اسکیل پر متعین کیے جانے لگے۔ جنہیں صرف تنخواہوں کے حساب کتاب اور بڑھنے گھٹنے کی فکر رہتی ہے۔ یہ تنخواہ اُنہیں کن کاموں کے عیوض مل رہی ہے، اس بات کو اُنہوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ یہیں سے ریڈیو پاکستان کے زوال کا سفر شروع ہوا۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ وزیرِ اطلاعات و نشریات شبلی فراز کے والد معروف شاعر ”احمد فراز“ بھی ریڈیو پاکستان میں ”کنٹریکٹ“ پر لکھنے پڑھنے کے کاموں سےوابستہ رہے لیکن آج کنٹریکٹ پر کام کرنے والوں کو برطرف کرنے کی کارروائی جاری ہے۔ معروف فنکار طلعت حسین سے ریڈیو کے متعلق اُن کے جذبات پوچھے گئے تو کہا ”ہمارے لیے تو ریڈیو اس اسکول کے جیسا ہے جس میں ہم نے الف بے پڑھنا سیکھی، لیکن اب حالات سن کر اور موقع ملنے پر وہاں جاکر جو کچھ دیکھتے ہیں، اس پر افسوس ہوتا ہے۔“

افسران کے گھروں کے ٹیلیفون بل، مہمان نوازی کا الاؤنس، پٹرول، دواؤں کا خرچ سبھی کچھ پر بھرپور انداز سے ماضی میں ہاتھ صاف کیے گئے۔ افسران جعلی میڈیکل بل بھرنا اپنا حق سمجھتے رہے اور ادارہ مرنے لگا۔ من پسند افراد کو گھر بیٹھے تنخواہیں دینے کا چلن بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اب بھی ریڈیو میں ملازمین کی فلاح و بہبود کےلیے قائم کی جانے والی یونین کے کئی افراد بالخصوص بڑے اسٹیشنوں پر گھر بیٹھے تنخواہیں اور دیگر مراعات لے رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسری جانب کنٹریکٹ ملازمین کےلیے یہ حکم نامہ جاری کیا گیا کہ ان کی تنخواہوں کو 160 گھنٹوں پر تقسیم کرکے آدھے گھنٹے کے پیسے بھی کاٹ لیے جائیں۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ اناؤنسرز، ڈیوٹی افسر اور مختلف شعبوں کے سیکڑوں لوگوں کے پیسے کئی ماہ سے ادا ہی نہیں کیے گئے، جس کے باعث ریڈیو پاکستان کی بیرونی سروس (External Service) سے نشر ہونے والی گجراتی سروس میں گجراتی خبریں نشر کرنا بند کردی گئی ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ خبروں کو گجراتی زبان میں ترجمہ کرنے والے Casual Artist کے طور پر بلائے جاتے ہیں اور اب افسروں کی چھری کے نیچے ریڈیو کا ایسا ہی عملہ ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہی Casual Artist ریڈیو پاکستان کے اصل مزدور ہیں۔

آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں بھی ریڈیو کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اس کی اہمیت کا ادراک ہے، اسی لیے وہ ممالک ریڈیو کو اپنا قومی ادارہ بناکر چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر چاہے وہ بی بی سی لندن ہو، یا ڈوئچے ویلے، وائس آف امریکا ہو یا وائس آف ملائیشیا یا پھر آل انڈیا ریڈیو۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ وزرا تک کی جانب سے ریڈیو پاکستان کےلیے سب سے پہلے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ریڈیو اب بھی کوئی سنتا ہے کیا؟ ارے بھئی اب ریڈیو کا زمانہ تھوڑی ہے؟ کوئی نہیں سمجھتا ہے کہ ریڈیو قومی اثاثہ ہے، قومی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کراتا ہے۔ ستمبر 65 کی جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان نے جو کردار ادا کیا، تاریخ اس کی گواہ ہے۔ کاش اربابِ اختیار اس بات کا ادراک کرسکیں کہ قومی اثاثوں کی حفاظت کی جاتی ہے، ان کو سنبھالنا ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے نہ کہ انہیں کباڑ خانے میں تبدیل کرکے بیچا نہیں جاتا ہے۔

کسی بھی ملک میں ریڈیو ایمرجنسی کے حالات میں اہم ترین ادارہ ثابت ہوتا ہے۔ 2005 کے زلزلے میں ریڈیو کا کردار پوری قوم کے سامنے ہے۔ ایکسٹرنل سروس کی اہمیت کیا ہے، اس کو جاننے کےلیے امریکی ادارے وائس آف امریکا کا جائزہ ہی لے لیا جائے تو کافی ہوگا۔ یا پھر جرمنی کا ڈوئچے ویلے اور اس کا ایکسٹرنل سروسز میں فعال و متحرک شعبہ ہی دیکھا جاسکتا ہے۔

ایک کنٹریکٹ ملازم نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے دنوں میں جب ادارے کا زیادہ تر عملہ اپنے گھر میں لاک ڈاؤن کی احتیاطی چھٹیاں مناتے ہوئے اپنی تنخواہیں بینکوں میں حاصل کررہا تھا، اس وقت بھی ریڈیو کے کنٹریکٹ ملازمین نہ صرف دفتر میں حاضری کے پابند رہے بلکہ ذخیزہ اندوزوں کی مہنگائی اور معاشی حالات سے مجبور ہوکر قرض لے کر وبائی حالات کا مقابلہ بھی کرتے رہے اور اب یہ قرضے جاں سوزی پر اکساتے محسوس ہورہے ہیں۔ تنخواہوں میں اس قدر تاخیر کی وجہ یہی محسوس ہوتی ہے کہ افسران کنٹریکٹ ملازمین کو بوجھ مانتے ہیں اور ازخود نوکری چھوڑ جانے پر مجبور کررہے ہیں۔ تنخواہوں کے چیک اسلام آباد سے جاری کیے جانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جسے کلیئرنگ میں بھیجنے کے بعد 10 دن کا کم از کم انتظار ہوتا ہے اور کلیئرنگ کی فیس کی مد میں 500 روپے مزید کنٹریکٹ ملازمین ہی کو اٹھانے پڑتے ہیں۔ جبکہ تنخواہوں کی ادائیگی کا یہ سلسلہ براہِ راست اکاؤنٹ میں منتقلی سے انتہائی آسان بنایا جاسکتا ہے، جس طرح دیگر ملازمین کی تنخواہوں کےلیے رائج ہے۔

ٹیکنیکل مسائل کے ضمن میں چھوٹے بڑے سبھی اسٹیشن اپنی ضرورتیں صدر دفتر اسلام آباد میں بیٹھے کنٹرولرز اور ڈائریکٹروں کو لکھ لکھ کر بھیجتے ہیں اور صدر دفتر کا پیسے نہ ہونے کا ”ردھالی بین“ جاری رہتا ہے۔ لیکن کراچی کی حالیہ بارشوں میں جب ریڈیو کی بلڈنگ میں ایک ایسا ٹیکنیکل قسم کا ایمرجنسی معاملہ سر پر آ پڑا جس سے قریبی آبادی کو خطرہ لاحق ہوا تو ڈائریکٹر جنرل سمیت صدر دفتر کے کئی عہدیدار ’’ہل کر“ نہیں ”دہل کر“ رہ گئے۔ لیکن اسی خطرے کی آگاہی کی بارشوں سے قبل جتنی بھی کوششیں کی گئیں، اس پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی کسی نے اس میں دلچسپی ظاہر کی۔ اس کے علاوہ چھوٹے بڑے ہر اسٹیشن میں مسائل کا انبار ہے، جنہیں صدر دفتر، اسلام آباد کی توجہ کی ضرورت ہے۔ لیکن وہی افسران مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جنہیں نوکری صرف تنخواہ کے لیے پیاری ہے۔ پنشنرز کے ساتھ ہونے والی کرپشن کی خبر بھی زیادہ پرانی نہیں۔ ایسی نہ جانے کتنی ہی بے ضابطگیاں ہیں جن کے باعث یہ قومی ادارہ ”وینٹی لیٹر“ پر آچکا ہے۔

ریڈیو پاکستان کے زوال کے ذمے دار افسران نہ تو ادارے کےلیے کوئی کام کررہے ہیں اور نہ ہی ادارے کےلیے کام کرنے والے ان کنٹریکٹ ملازمین کےلیے جن کی وجہ سے اُن کی افسری قائم ہے۔ یاد رکھیے! ریڈیو پاکستان کی اصل ضرورت یہی فنکار، شاعر، ادیب، نثرنگار، گلوکار ہیں اور انہی کی محنت کے باعث ریڈیو کے اعلیٰ عہدیداروں کے گھر چل رہے ہیں۔ اگر افسران نے ان کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں بے روزگار کیا تو خود اس کے مکافاتِ عمل سے نہیں بچ سکیں گے۔ اربابِ اختیار کو کنٹریکٹ ملازمین کے نکالے جانے اور ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کے ضمن میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ خاکم بدہن امکانات یہی ہیں کہ قومی ورثے اور اثاثے کا حامل یہ ادارہ ختم ہوجائے گا۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سہیل یوسف

سہیل یوسف

سہیل یوسف سائنسی صحافی اور کئی کتابوں کے مترجم ہیں۔ وہ ویڈیو، سلائیڈ شو میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس وقت ایک اشاعتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔