ہم شرمندہ ہیں!

اکرام سہگل  ہفتہ 24 اکتوبر 2020

مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدرنے بابائے قوم قائد اعظم کے مزار کی جس طرح بے ادبی کی اور وہ اس پرخاموش رہیں، اس واقعے نے ہر پاکستانی کے دل میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ لیکن نوازشریف کے وفاداروں نے اس کی مذمت میں ایک لفظ بھی کہنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

مزار کے اندر جاکر سیاسی نعرے بازی کرنے پر اگلی ہی صبح کیپٹن صفدر کو سندھ پولیس نے مختصر وقت کے لیے گرفتار کیا۔ لیکن قانونی کارروائی مکمل نہیں کی گئی۔ ایسے واقعات دوررس نتائج پیدا کرتے ہیں۔

کور کمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل ہمایوں عزیز کی شروع کردہ تحقیقات میں ذمے داروں کا تعین ہوجائے گا۔ علی الصباح چار بجے جو کچھ ہوا اس کے لیے آئی جی پولیس کے ساتھ پوری ہمدردی ہے، ان کے تحفظات جائز ہیں۔

اس بات کا تعین ہونا چاہیے کہ کس نے حدود سے تجاوز کیا؟ ایسے قبیح اقدام کے احکامات دینے والے کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن کی میں دل سے قدر کرتاہوں، وہ ایک غیر معمولی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افسر ہیں۔

خیر، آئی جی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر ان کی جانب سے چھٹی کی درخواست کے بعد سندھ پولیس کے افسران کی جانب سے بھی چھٹی کی درخواستوں کو تانتا بندھ گیا۔صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ پولیس افسران کا ایک ساتھ اس طرح چھٹی کی درخواست دینا اپنی ذمے داریوں سے روگردانی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے ایک ایسی مثال قائم ہوئی ہے جس کے مستقبل میں اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

عرصے بعد سندھ پولیس کی قیادت اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ چھٹی کی درخواستیں دینے والے کم و بیش سبھی افسران اچھی شہرت رکھتے ہیں لیکن یہ طرز عمل ناقابلِ برداشت ہے۔

ن لیگ کے کارکنوں نے جو کچھ کیا وہ بانی پاکستان کی ذات کے ساتھ ان اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے جن کی بنیاد پر وہ اس ریاست کے شہریوں کو ایک مہذب فرد بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم نے نہ صرف لندن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ قانون کی حکمرانی کے اصول کو اپنی شخصیت کا جزو بنایا۔ حفظ مراتب ، ادب آداب اور باوقار طرز عمل آخری دن تک ان کی شخصیت کا خاصہ رہے۔

کراچی میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے 1947میں اپنے پہلے خطاب میں قائد نے کہا تھا کہ ہر شعبے میں قانون کا یکساں نفاذ اور نظم و ضبط ترقی کی پہلی شرط ہے۔ انھیں اس بات پر فخر تھا کہ کسی جنگ و جدل کے بغیر اخلاقی قوت سے اور قلم کی طاقت سے وہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں فتح مند ہوئے۔

انھوں نے قوم کو خبردار کردیا تھا کہ ’’اس عظیم کامیابی کو ضایع نہ ہونے دیجیے ، تاریخ میں ایسی کام یابی کی نظیر نہیں ملتی۔‘‘ انھوں نے کہا تھا کہ حکومت کی پہلی ذمے داری قانون کا نفاذ ہے تاکہ ریاست شہریوں کے جان و مال اور مذہبی آزادی کا تحفظ یقینی بناسکے۔‘‘ اپنی اسی تقریر میں قائد نے چور بازاری کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ کرپشن اور کسی بھی قسم کی مالی فریب دہی کے خلاف احتساب کے لیے سب سے پہلی آواز بھی بابائے قوم ہی کی تھی۔

پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ گورنر جیلانی کے سہارے اور جنرل ضیاالحق کی مدد سے نواز شریف سیاست میں داخل ہوئے اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے ان کا ابتدائی سیاسی کریئر بنایا۔ یہ ایک معما دکھائی دیتا ہے کہ اس کے باوجود نواز شریف  فوج کے خلاف دل میں اتنا زہر کیوں رکھتے ہیں۔  عدلیہ کے ساتھ بھی ان کا رویہ یہی رہا ہے،کسے یاد نہیں کہ نومبر1997میں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی رکوانے کے لیے یہ جماعت کس طرح سپریم کورٹ کی عمارت پر چڑھ دوڑی تھی۔

جنرل راحیل شریف کے دور میں نواز شریف حکومت کی صفوں میں شامل بعض عناصر نے فوج کو بدنام کرنے کے لیے ایک کہانی گڑھی۔ مریم نے سیکڑوں سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی ماہرین کو سرکاری خرچ پر پراپیگنڈا  پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ جنرل راحیل شریف باوقار اور وضع دار انسان تھے، انھیں ہدف بنانے کی کوشش کی گئی۔ وزیر اعظم کو شرمندگی سے بچانے کے لیے مریم کو نظر انداز کردیا۔

نواز شریف کے چند وفاداروں کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا۔ آج چھ سال بعد اس کے نتائج سامنے ہیں۔ نواز شریف اب لندن میں بیٹھ کر مودی کی زبان بول رہے ہیں۔ ’’اقتدار کے کھیل‘‘ میں قوم کو وضع داری کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ جب ملک کی سالمیت پر بھارت کی ہائبرڈ جنگ جاری ہے، ماضی کی غلطیاں دہرانے کی گنجائش نہیں۔

شریف خاندان اپنی بے پناہ دولت اور لندن میں جائیدادیں بچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہا ہے۔ اپنے خلاف تفتیش اور قانونی کارروائی کا رُخ بدلنے کے لیے نواز لیگ کے وفادار جانتے بوجھتے استعمال ہورہے ہیں اس لیے انھیں بری الذمہ قرارنہیں دیا جاسکتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ شریف خاندان اور پی ڈی ایم کے مقاصد یکسر الگ الگ ہیں۔

اسی لیے انھوں نے نواز شریف کو کراچی میں ہونے والے جلسے سے تقریر نہیں کرنے دی۔ فوج اور عدلیہ کے خلاف زہر اگل کر سزا یافتہ نواز شریف لندن میں سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی دوسری جماعتوں کے بعض جائز مطالبات و تحفظات ہیں لیکن مزار قائد پر صفدر کی ہلڑ بازی سے، جس نے سندھ پولیس میں بغاوت کو ہوا دی، انھیں بھی زچ پہنچی ہے۔

میں 2016 میں اس حوالے سے ’’ آرمی چیف، فیکٹری مینجر نہیں‘‘اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ  شریف خاندان بلا چوں چرا اپنی ہر بات نہ ماننے والوں کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ اہم ترین عہدوں کے لیے ایسے پسندیدہ افراد کا انتخاب کرتے ہیں جو ’’فیکٹری منیجر ‘‘ کی طرح ان کی اطاعت گزاری کرے۔ آرمی چیف کے حوالے سے اپنے گہرے احساس کم تری کے باعث شریف خاندان اس عہدے کے لیے تقرری کرتے ہوئے کبھی ملکی مفاد کو پیش نظر نہیں رکھتا۔‘‘

ہم میں سے بہت سے لوگ ریاست کے ساتھ اپنی وابستگی کا احساس نہیں رکھتے۔ جدید ریاست میں شہری ہونا کیا مفہوم ہے ہم نے اس کا ادراک نہیں کیا۔ فرد اپنی ذمے داری نہ نبھائے تو ملک ترقی نہیں کرتے۔ ہر شہری کو ریاستی اداروں، سیاسی نظام دوسرے کی رائے کے لیے وسعت کا فہم ہونا چاہیے۔ مہذب رویے کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے قول و فعل سے دوسرا محفوظ رہے۔

دوسرے کے جان و مال، آبرو کو گزند پہنچانے اور برسرعام دنگا فساد کرنے جیسے رویے قابل برداشت نہیں۔ لیکن تحمل کسی کے لیے بدتمیزی کا جواز فراہم نہیں کرتا۔ دین ہماری بنیادی معاشرتی قدر ہے اور اس میں بدزبانی اور بدتہذیبی کی کوئی گنجائش نہیں۔ سیرت کا سبق یہ ہے کہ بدسلوکی کرنے والوں سے بھی حسن سلوک کیا جائے۔

پاکستان جنت نہیں، حکومتوں نے ریاستی اداروں کو کمزور کیا ہے۔ بلاشبہ موجودہ حکومت بھی غلطیوں سے پاک نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ تمام تر خامیوں کے ساتھ عمران خان نے اصلاح کا عمل شروع کیا ہے۔ یہ کوششیں اسی وقت کام یاب ہوسکتی ہیں جب انھیں عوام کی حمایت حاصل ہو اور وہ سیاست میں تہذیب و بردباری کا مظاہرہ کریں۔

کراچی میں جو کچھ ہوا اس کے کچھ پہلوؤں پر بہر حال سوالیہ نشان ہیں۔ صفدر اس قدر احمق نہیں کہ اس نے بغیرکسی مقصد کے مزار قائد میں یہ ماحول پیدا کیا۔ ممکن ہے کہ جس طرح زرداری نے اپنے لیے ایک سیاسی کردار حاصل کیا وہ بھی اپنی جماعت میں کوئی سیاسی جگہ بنانا چاہتا ہو۔ ممکن ہے کہ نواز شریف کی مفروری کے حوالے سے لندن میں اشتہارات کی اشاعت سے توجہ ہٹانا اس کا مقصد ہو۔

صفدر کی گرفتاری اور سندھ پولیس کی قیادت میں ’حکم عدولی‘ کے حوالے سے سندھ حکومت کا کردار کیا ہے؟ کیا پیپلز پارٹی دہرا کھیل کھیل رہی ہے؟ اور اسی لیے مریم کے کردار کو محدود رکھنے کے لیے پی ڈی ایم کے جلسے سے قبل بلاول ہاؤس کے اجلاس میں انھیں شریک نہیں کیا اور دوسری جانب صفدر کی گرفتاری کی مذمت کی؟ اور اب وفاقی حکومت اور فوج کو بدنام کرنے کے لیے سندھ پولیس کو استعمال کررہی ہے؟

سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کے ’’احتجاج‘‘ سے قبل سب کچھ مدہم پڑرہا تھا۔ اس لیے چھٹی کی درخواستوں کا یہ سلسلہ پولیس یا سندھ حکومت میں سے کسی کے بھی ایما پر شروع ہوا ہو تاہم اس واقعے کے بعد ہمیں غیرمعمولی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بابائے قوم کے مزار پر صفدر نے جو کچھ کیا اور اس پر قانون بے حرکت رہا، اس سے بانی پاکستان کی روح کو ضرور تکلیف پہنچی ہوگی۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔