مصطفٰے جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام بعد از خدا بزرگ توئی ﷺ

ثریا طارق عباسی  جمعـء 30 اکتوبر 2020
مغرب کی نام نہاد تہذیب میر حجازؐ کے اخلاق و کردار کی بلندیوں کی گرد کو بھی نہیں پاسکتی۔  فوٹو: فائل

مغرب کی نام نہاد تہذیب میر حجازؐ کے اخلاق و کردار کی بلندیوں کی گرد کو بھی نہیں پاسکتی۔ فوٹو: فائل

واَحسنْ منکَ لم ترَ قطُّ عِینیِ

وَاجمَل مِنکَ لَم تَلِدِ النّسَاء ُ

خلقتَ مُبرء ً مِن کُلّ عِیبٍ

کأنکَ قد خُلقتَ ما تشاء ُ

آپؐ سے حسین تر کوئی دیکھا نہیں گیا

آپؐ سا جمیل بھی کسی ماں نے نہیں جنا

آپؐ کو ہر عیب سے بَری پیدا کیا گیا

گویا آپؐ کو آپ کی چاہت کے مطابق تخلیق کیا گیا

(شرح دیوان حسان بن ثابتؓ بعد الرحمن البرقوقی)

عرب کے بلند پایہ فصیح و بلیغ شاعر اور جلیل القدر صحابی حضرت حسّان بن ثابتؓ نے یہ شعر جس ہستی کی شان ِ اقدس میں کہا ہے وہ انبیا و رسلؑ کی کاہ کشاں کا سب سے چمکتا روشن ستارہ ہیں۔ وہ مبارک ہستی جو وجۂ کائنات اور جانِ کائنات ہیں اور ان کے آنے کی خوش خبری ستّر ماؤں سے زیادہ مہربان رب اپنی روشن کتاب میں ان خوش کن الفاظ میں دیتا ہے۔

مفہوم: ’’بے شک! تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول (ﷺ) جن پر تمہارا مشقّت میں پڑنا گراں ہے، تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مومنین پر کمال مہربان، پھر بھی اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دے کافی ہے مجھ کو اﷲ، کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہی مالک ہے عرش عظیم کا۔‘‘ (سورۃ التوبہ)

یوں تو ہر پیغمبر اعلیٰ اوصاف، پاکیزگی و تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ ہوتا ہے۔ بیشتر انبیائؑ سے کوئی ایک وصف خاص منسوب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت یوسف ؑ کا حُسن، حضرت داؤد ؑ کا لحن، حضرت آدم و نوح ؑ کی قامت، حضرت سلیمان ؑ کی عظیم الشان سلطنت، حضرت موسیٰ ؑ رب تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تو کلیم اﷲ کہلائے اور حضرت ابراہیم ؑ اپنے حلم و بُرد باری اور تقویٰ کی وجہ سے خلیل اﷲ قرار پائے۔ لیکن دنیائے انسانیت کی تاریخ میں جو ہستی اعلیٰ اقدار و اوصاف سے مزیّن ظاہری اور باطنی حُسن کا حسین امتزاج کہلائی، وہ ہمارے رسول اقدس ﷺ کی ذات مبارک ہے۔ جن کے ظاہری حُسن کے بارے میں جلیل القدر صحابہؓ یوں روایت کرتے ہیں۔

حضرت انس بن مالکؓ: ’’رسول اﷲ ﷺ کا رنگ مبارک سفید روشن تھا اور آپؐ کے چہرۂ اقدس پر پسینے کی بوندیں یوں معلوم ہوتی تھیں گویا موتی جڑ دیے گئے ہوں، جب آپؐ چلتے تو عاجزی اور تیز رفتاری سے قدمِ مبارک اٹھاتے، میں نے کسی قسم کا کوئی ریشم ایسا نہیں چُھوا جو آپؐ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو، میں نے دنیا میں ایسی کوئی خوش بُو نہیں سونگھی، جو آپؐ کی خوش بُو سے زیادہ عمدہ اور اثرانگیز ہو۔‘‘ (مسند احمد)

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا: آپؐ کی تعریف کرنے والے کہہ دیا کرتے تھے: ’’حسن و جمال کا ایسا نمونہ نہ ہم نے پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں کبھی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد)

یہ عظیم المرتبت جماعتِ اصحابؓ جو شعری ذوق، فصاحت و بلاغت اور بلند کرداری میں کمال رکھتی تھی، اپنے آپ کو اس نہج پر دیکھتی کہ حضورؐ کے ظاہری جمال کو سراہنے کے لیے کاملیت سے نیچے کوئی حرف نہیں۔ کیوں کہ حضور سرور کائناتؐ کا ہر نقشِ خوب صورتی و کمال کی معراج پر ہے۔ اسی لیے تو حسان بن ثابتؓ آپؐ کے لیے ہر عیب سے بَری، حسین تر کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

رب العزت نے اپنے حبیبؐ کو ظاہری و باطنی جمال کی معراج پر رکھا ہے۔ اسی لیے تو سیرت رسولؐ کو سر بہ سر قرآن اور اسوۂ حسنہ سے تعبیر کیا گیا اور فرمایا: ’’اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کردیا۔‘‘

سیرت طیّبہؐ، پیروی کے لیے ہر لحاظ سے مکمل نمونہ ہے۔ حیاتِ نبویؐ انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو کے لیے تابندہ مثال ہے۔ اس بات کا اعتراف اغیار نے بھی کیا۔ آج کی نام نہاد مہذّب دنیا جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علم بردار کہتی ہے، مگر آج بھی کئی قطعے ایسے ہیں جہاں کئی شعبہ ہائے زندگی میں نسلی، لسانی، گروہی اور صنعتی تفاوت کی بناء پر عدم مساوات جاری ہے۔

ہمارے نبی ﷺ کے دین کو دنیا ’’اسلام‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ اسلام وہ دین نہیں، جس میں عورت میراث، کاروبار، ذاتی جائیداد، نان و نفقے سے محروم ہو، جہاں عورت کو جبراً مرے ہوئے شوہر کے ساتھ زندہ جلا ڈالا جائے یا بیوہ کے بال مونڈھ کر ساری عمر زندہ لاش کی طرح جینے پر مجبور کردیا جائے اور ہر قدم، خوشی و غم کے مواقع پر اسے منحوس قرار دیا جائے۔ یہ اسلام ہے امن و آشتی کا پرچارک، رحمتوں و برکتوں والے کا دین، جو خود چار بیٹیوں کا والد گرامی۔ آج سے دو، تین سو سال پہلے کا مغربی مفکّر عورت کو انسانی وجود ماننے پر تیار ہی نہیں تھا۔ جب کہ ہمارے نبی ﷺ چودہ سو سال پہلے پورے رسان سے عورت کو رحمت قرار دیتے ہیں، وہ اپنی بیٹیوں کی ہر خوشی اور غم میں شریک، ان کو پروان چڑھانے والے، ان کے وصال پر نم ناک ہوجانے والے۔

مغرب کی نام نہاد تہذیب میر حجازؐ کے اخلاق و کردار کی بلندیوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی، کیوں کہ فکر و عمل کے مکمل جوہر کا یہ اسوۂ حسنہ الہامی و روحانی طاقت کا مظہر ہے۔ دنیا میں کوئی بشر ایسا نہیں، جو بہ یک وقت ایک مذہبی راہ نما، داعی، مدبّر، حکم ران، سپاہ سالار، دلیر، شجاع، فیاض اور صادق و امین ہو، فصیح البیان خطیب ایسا کہ جس پر فنِ خطابت نازاں، بہ یک وقت بوریا نشین، عرشوں کا مہمان اور قاب قوسین او ادنیٰ کا صاحب اسرار ہو۔

جس کی ہر ایک ادا کو خالق خود اپنے کلام میں یوں بیان کرے کہ دل اس کی حُب میں بے قرار ہوجائے۔ کوئی مذہبی داعی ایسا نہیں جس نے خلفائے راشدینؓ جیسے عالی مقام و باوصف حکم ران یکے بعد دیگرے وقت کی لڑی میں پروئے ہوں۔ کوئی ایک حکم ران بھی ایسا نہیں، جس نے اپنی حیات میں سوا لاکھ کے قریب ایسے پُرتاثیر سفارت کار تیار کیے ہوں کہ وہ جہاں بھی جائیں اس کے پیغام کی ضُو سے بحر و بر اُجالیں۔

تاریخ کا چہرہ عاری ہے، ایسے سپہ سالار کے نام سے، جس کے سپاہی دین کے احیاء کی خاطر سورماؤں سے لڑ پڑیں اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیں۔ دین محمدیؐ ہی وہ واحد دین ہے، جس میں پیغمبر اسلامؐ کے سرخ و سفید رنگت والے عالی نسب قریشی صحابہؓ حبشہ سے آنے والے صحابی حضرت بلالؓ کو ’’یاسیّدی‘‘ (اے میرے آقا!) کہہ کر پکارتے ہیں۔ جزاء و غنیمت میں بلالؓ و عمرؓ برابر کا حصہ پاتے ہیں۔ حالاں کہ ایک عالی نسب گل رنگ، آزاد، قرابت دار، جب کہ دوسرا حبشہ سے آنے والا غلام، ہاں اگر کوئی بڑھنا چاہتا ہے تو کوئی مادی معیار نہیں، محض تقویٰ کی بنیاد پر۔ یہ وہ دین نہیں جس میں برہمن، کھشتری اور شودر کے لیے جداگانہ نظام حیات ہو اور شودر برہمن کی غلاظت ہاتھوں سے اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔

دنیا میں سماجی فلاح و بہبود کے کام کرنے والے بہت لوگ ہیں، مگر سب کسی نہ کسی صورت میں اس کا خراج وصول کرتے ہیں۔ وہ واحد ایسی ہستی جو انسانی فلاح و بہبود کا پیغام دیتے ہوئے طائف میں پتھر سہے اور پھر دعا گو ہو، جس کی گردن پر حرم میں چادر کسَی جائے اور وہ بددعا نہ دے، ظلم و ستم کیا جائے، سوشل بائیکاٹ کیا جائے مگر اس کے پایۂ استقلال میں جنبش تک نہ ہو۔ وہ عالی مرتبتؐ اپنے غلاموں کے ساتھ مل کر کاموں میں حصہ لیں۔ عالم نزع میں ہر انسان کو اپنے ہی نفس کا خیال ہوتا ہے مگر وہ اس وقت بھی انسانی حقوق و اقدار کا درس دیتے ہیں کہ اپنے زیردست سے اچھا سلوک کرنا۔

رسول کریمؐ کا دیا ہوا خطبہ حجۃ الوداع، دنیائے حقوق انسانی کا اعلیٰ اور جامع ترین منشور مانا جاتا ہے۔ رب تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نبیؐ مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ اس فرمان باری تعالیٰ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے بدن کے ہر ذرّے، ہمارے لہو کی ہر بوند، ہماری حیات کے ہر لمحے اور ہماری آتی جاتی ہر سانس پر ہم سے زیادہ ہمارے نبیؐ کا حق ہے۔ اس حق کا اصل حق تو ہم ادا کرنے سے قاصر ہیں مگر اتنا تو کرسکتے ہیں کہ جب ہمارے رسول ﷺ کے متعلق ہرزہ سرائیاں ہوں، ان کی شان میں ہجوگوئی کی جائے تو مسلمان اپنی گفتار، کردار و قلمی جہاد کے ذریعے باطل کی اٹھائی ہوئی ان ہرزہ سرائی کی لہروں کو ان کے اصل کی جانب دھکیل دیں۔ مجرمانہ خاموشی سادھ کر باطل کے ہاتھ مضبوط نہ کریں کہ یہی وہ ہستی محترم ﷺ ہیں کہ جن کے وصال کے بعد حسان بن ثابتؓ یہ رقت آمیز اشعار پڑھتے ہیں۔

کنت السواد لناظری

فعمی علیک الناظر

من شاء بعدک فلیمت

فعلیک کنت حاذر

’’اے پیغمبرؐ! آپؐ میری آنکھ کے لیے پُتلی کا درجہ رکھتے تھے، آپؐ کے پردہ فرمانے سے میری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں۔ آپؐ کے وصال کے بعد ہمیں بھی دنیا سے رخصت ہوجانا چاہیے کیوں کہ آپؐ کے بعد اب زندگی بے کار ہے۔ (دیوان حسّان بن ثابتؓ)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔