ٹرمپ کہ بائیڈن۔ہماری بلا سے

وسعت اللہ خان  منگل 3 نومبر 2020

آج کون جیت رہا ہے ؟ اس سوال پر دنیا بھر میں لگ بھگ دو ارب ڈالر کی شرطیں لگ چکی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں اگلے چار برس کا ممکنہ امریکا بھی سامنے آ جائے گا۔ امریکی پالیسیاں رولر کوسٹر پر ہی سوار رہیں گی یا پھر ان میں قبل از ٹرمپ استحکام واپس آ جائے گا؟ اگر ٹرمپ کو شکست ہوتی ہے تو برازیل ، برطانیہ ، ہنگری اور بھارت جیسے ممالک میں برسرِاقتدار دائیں بازو کی پاپولسٹ حکومتوں کا قالین بھی وقتِ مقررہ پر لپٹ جائے گا یا اور پھیل جائے گا ؟

ٹرمپ رہا تو ہمیں معلوم ہے کہ مشرقِ وسطی میں زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا مگر بائیڈن آگیا تو کیا اسرائیل اور امریکا کے تعلقات اسی سرد مہری کی کگار پہنچ جائیں گے جیسے آخری ڈیموکریٹ صدر بارک اوباما کے آٹھ سالہ دور میں تھے ؟ بائیڈن فلسطینیوں کا گلا گھونٹنے والی ٹرمپ کی ڈیل آف دی سنچری کا کیا کریں گے ؟ کیا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پھر کوئی نیا امن فارمولا سامنے آئے گا؟اسرائیل پر نئی یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے گا ؟  کیا فلسطینی اتھارٹی کے لیے معطل ہونے والی امریکی امداد پھر سے جاری ہو جائے گی ؟ البتہ ایک رعائیت شائد ضرور ملے گی۔یعنی اسرائیل مزید فلسطینی علاقے ضم کرنے کی اعلان کردہ پالیسی پر کم ازکم اگلے چار برس عمل نہیں کر پائے گا۔

کیا بائیڈن اپنے اس انتخابی وعدے کو پورا کرے گا کہ سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں کی علاقائی پالیسی کی اندھا دھند حمائت سے ہاتھ کھینچ لیا جائے گا ، یمن کی چار برس سے جاری بے مقصد جنگ کے خاتمے کے لیے خلیجی ریاستوں پر دباؤ بڑھایا جائے گا ۔

ایران اور بین الاقوامی برادری کے درمیان جوہری پھیلاؤ کو لگام دینے کا جو سمجھوتہ دو ہزار پندرہ میں ہوا تھا اور جس سے ٹرمپ نے یکطرفہ علیحدگی اختیار کر کے اقتصادی ناکہ بندی کا شکنجہ اور کس دیا۔بائیڈن کیا اسی  سابقہ معاہدے کا پھر سے حصہ بن جائیں گے یا چند نئی شرائط پوری ہونے پر ہی ایران کا اقتصادی گھیراؤ ڈھیلا کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔

اور دو ہزار پندرہ میں ہی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے عالمی درجہِ حرارت میں کم ازکم دو ڈگری سنٹی گریڈ کم کرنے کے سمجھوتے میں امریکی دستخط پھر سے بحال ہو جائیں گے ؟ امریکا اقوامِ متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کا روکا ہوا چندہ بھی بحال کر دے گا؟ اگلے چند ماہ میں دنیا ان سوالوں کا مثبت جواب جاننے کے لیے بے کل رہے گی۔

ٹرمپ نے یورپی اتحادیوں کو یہ کہہ کر خفا کیا کہ امریکا اپنے پیسے سے ان کی لامحدود چوکیداری نہیں کر سکتا۔یورپ کو اگر ناٹو کی چھتری چاہیے تو اسے خرچہ بھی خود اٹھانا پڑے گا۔کچھ اسی طرح کا بل جنوبی کوریا اور جاپان کو بھی تھما دیا گیا۔امریکا کے دو ہمسائیوں میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ ہونے والا آزاد تجارت کا سمجھوتہ مفلوج ہو گیا۔میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنا دی گئی ، تارکینِ وطن کو ان کے بچوں سے علیحدہ کر دیا گیا۔

تیسری دنیا کے ممالک کو غلاظت و جرائم کا اڈہ قرار دے کر وہاں سے آنے والے تارکینِ وطن کے لیے دروازے بند کر دیے گئے۔بالخصوص مسلمان ممالک کے تارکینِ وطن سے ’’ خصوصی حسنِ سلوک‘‘ کیا گیا۔بائیڈن اس تھالی میں بکھرا ہوا گند کتنا صاف کر پائیں گے ؟اور اس کے ردِ عمل میں سفید فام نسل پرستوں کو کیسے مطمئن کر پائیں گے ؟ دنیا یہ سب کچھ اگلے چار برس دلچسپی سے دیکھے گی۔

ٹرمپ دور میں چین امریکا اقتصادی مسابقت بڑھتے بڑھتے طاقت کے استعمال کی کھلم کھلا دھمکیوں  کے دہانے تک جا پہنچی ۔وائٹ ہاؤس کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ امریکا کو ہر دور میں کم ازکم ایک بڑا دشمن درکار ہوتا ہے تاکہ اس سے نمٹنے کی آڑ میں وہ  اقتصادی و سیاسی پھیلاؤ کا ایجنڈہ آگے بڑھا سکے۔

انیسویں صدی میں اسپین امریکا کا اسٹرٹیجک دشمن قرار پایا۔اس کے بعد اگلے چالیس برس کے لیے امریکا کمبل کی بکل مار کر سو گیا۔پہلی عالمی جنگ کے آخری دنوں میں امریکا انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو گیا۔البتہ دوسری عالمی جنگ میں پرل ہاربر پر پڑنے والے جاپانی بموں نے سوتے ہوئے امریکا کو ہڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا۔وہ دن اور آج کا دن امریکا نہ خود سویا نہ کسی اور کو سونے دیا۔

ہٹلر کے خاتمے کے بعد کوئی بڑا دشمن نہ رہا تو کیمونزم کو بقائی دشمن کے طور پر ایجاد کر لیا گیا۔اور کیمونزم کو اپنی بالادستی سے دھمکانے کے لیے ادھ موئے جاپان پر ایٹم بم مار کر بین الاقوامی گلی میں ایک ناقابلِ تسخیر بدمعاش کی آمد کا اعلان کیا گیا۔سرد جنگ کی آڑ میں وسائل کی اپنی شرائط پر لوٹ کھسوٹ کی خاطر تیسری دنیا میں آمریتوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اور اس کارِ خیر میں کیا ریپبلیکن کیا ڈیموکریٹ ہر انتظامیہ نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔

سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد امید ہو چلی کہ اب شائد دنیا رقابتوں سے آزاد امن کا گہوارہ بن جائے۔نیو ورلڈ آرڈر میں صرف ایک سپرپاور کے وجود کا اعلان کیا گیا۔فرانسس فوکو یاما جیسے علما نے تاریخ کی وفات کا اعلان کردیا۔سیموئیل ہنٹنگڈن نے تہذیبوں کے تصادم میں مغربی تہذیب کی فتح کا اعلان کر دیا۔مگر پھر کم بخت اسلامی انتہاپسندی نے بگل بجا دیا اور نائن الیون نے بلی کے بھاگوں چھینکا توڑ دیا۔

دھشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے نے نئے اقتصادی و اسٹرٹیجک مواقع کے لیے راستہ کھول دیا اور اگلے پندرہ برس دھشت گردی کے خاتمے کے نام پر نئی اور پرانی تمام دشمنیوں کا کھاتا نمٹایا گیا۔ ممالک تتر بتر ہوگئے ، لاشیں بچھ گئیں اور شطرنج کے نئے اصول اور نئے پیادے متعارف ہو گئے۔ لوگ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اس آپا دھاپی سے تو سرد جنگ کی منظم کشیدگی کا زمانہ ہی غنیمت تھا۔

القاعدہ اور ہمنواؤں کی کمر بظاہر ٹوٹنے کے بعد پھر امید بندھی کہ اب کوئی بڑا دشمن نہیں لہٰذا ہر مسئلے اور ہر ملک کو کیل سمجھ کر اس کا علاج ہتھوڑے سے کرنے کی امریکی روش کو لگام مل جائے گی۔

مگر کہاں صاحب۔سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں۔اب چین نیا دشمن ہے۔اسے اقتصادی طور پر نیچا دکھانا تو فی الحال ناممکن ہے۔ البتہ اس ابھرتے ہوئے ہاتھی کے پیروں میں چہار جانب سے اسی طرح بیڑیاں ڈال کے ہانکا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد کے چالیس برس میں طفیلیوں کی مدد سے سوویت یونین کا ہانکا کیا گیا۔ یعنی اگلی نصف صدی کے لیے امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو ایک نئی منافع بخش مصروفیت میسر آ گئی ہے۔

مگر ضروری تو نہیں کہ اکسیویں صدی کی بدلی ہوئی دنیا میں بھی دشمنی سے نمنٹنے والے باپ دادا کے آزمودہ نسخے ہی کام کر پائیں۔وقت بھی تو جلاب بن کر بڑی بڑی سلطنتیں ٹھکانے لگا دیتا ہے۔یونانی، رومن ، عرب ، روسی زار ، عثمانی۔کیسے کیسے نام تھے جو تاریخ کے اوراق تک محدود ہو گئے۔

تو کیا بائیڈن انتظامیہ میں اتنی فراست ہو گی کہ وہ چین کے ساتھ امریکا کی اقتصادی و سیاسی مسابقت کو مکمل سرد جنگ اور تسلط کی لڑائی میں بدلنے سے پہلے پہلے روک لے۔حسد کی جگہ رشک لے لے اور مبارزت مسابقت کے لیے جگہ خالی کر دے ؟

کل کے بعد ہمارے برصغیر پر کیا نئے اثرات پڑیں گے ؟ ہمیں خود کو موجودہ ابتری میں رکھنے کے لیے کسی بیرونی سپرپاور کی ضرورت نہیں۔ہم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر خود کو کنوئیں میں قید رکھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ٹرمپ جائے کہ بائیڈن آئے۔ہماری بلا سے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔