ہمارے حضورﷺ

سعید پرویز  بدھ 4 نومبر 2020

پورے عالم میں رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن ولادت منایا جا رہا ہے۔ وہ ہستی کہ جس کے لیے کائنات بنائی گئی۔ ایک وقت تھا کہ اللہ اور اس کے فرشتے تھے جو دن رات اللہ کی تسبیح پڑھتے تھے، سجدے کرتے تھے۔ پھر اللہ نے اپنے محبوب کے لیے آدمؑ کو تخلیق کیا اور آدمؑ کی پشت میں نورِ نبوت رکھ دیا۔

یہی نورِنبوت پشت در پشت آدمؑ سے شیث علیہ السلام سے چلتا ہوا، حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ کی نسل پاک سے ہاشم، عبدالمطلب اور حضرت عبداللہؓ تک پہنچا اور بالآخر یہی نور بی بی آمنہ کے گلشن میں بہار بن کر آگیا۔ بی بی آمنہ کا گھر نور سے بھرگیا۔ حضرت محمدؐ کی ولادت سے دو عالم میں اجالے پھیل گئے۔

نبی آخرالزماں کی پوری زندگی معجزات سے بھری پڑی ہے، مگر اللہ کے محبوب نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہیں چاہا۔ دو جہاں کے بادشاہ نے اپنے عمل سے دلوں کو فتح کیا۔ طائف کا واقعہ ہی حضورؐ کے اسوہ کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ آپ کا عمل ہی تھا کہ آپؐ کے بدترین دشمن بھی آپؐ کو صادق اور امین کہتے تھے۔

اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے تھے۔ آپؐ کے صحابہ آپ کے جاں نثار بھوکے پیٹ پر پتھر باندھے جنگ خندق میں برسر پیکار نظر آتے ہیں، جہاں صحابہؓ کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا تھا، وہاں نبی آخرالزماں کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ غور فرمائیں حضورؐ اشارہ کرتے تو عرش سے فرشتے کیا کچھ کھانے کو نہ لے آتے مگر مسئلہ یہ تھا کہ مصلح اپنے عمل سے دوسروں کو بتاتا ہے، سکھاتا ہے کہ مشکل مقام آئیں تو کیسے گزرنا ہے۔ حضورؐ نے گرے ہوؤں کو اٹھایا، نہ صرف اٹھایا بلکہ معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا کر دیے۔

آپ کے ہر عمل سے انسانیت بلند ہوئی تھی۔ حضرت انسؓ سے حضورؐ نے کہا ’’اے انس! کیا میں تمہیں شریعت کا خلاصہ بتاؤں؟‘‘ حضرت انسؓ نے کہا ’’حضور! ارشاد فرمائیں۔‘‘ تو حضورؐ نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے اور انگشت شہادت سے اپنی زبان پکڑی اور بولے ’’اس زبان کو قابو میں رکھنا‘‘ حضورؐ نے زندگی میں کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی، ہمیشہ میٹھا میٹھا بولے، ہر انسان کی عزت کی، ہر ایک سے احترام کے ساتھ پیش آئے۔

حضورؐ نے اپنے صحابہ سے کہا جو ساری امت کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے عظیم سبق ہے۔ آپ نے فرمایا ’’صلح و آشتی کے ساتھ رہو، جو آپس میں ناراض ہیں وہ ناراضگی ختم کر کے ایک دوسرے کے گلے لگ جائیں۔‘‘ اپنے اس عمل کی بہترین مثال حضورؐ نے فتح مکہ کے موقع پر پیش کی۔ آپؐ نے اپنے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا ، حضور نے دنیا میں رہنے والوں کو یہ درس دینا تھا کہ ’’معاف کرو، درگزر کرو اسی میں بھلائی ہے۔‘‘ اگر ہم ایسا کریں تو دنیا کے سارے جھگڑے ختم نہ ہو جائیں۔ ایک قصہ شامل مضمون کر رہا ہوں جو موضوع چل رہا ہے۔ یہاں اس کا بیان بہت اچھا رہے گا۔

جنگ احد میں حضورؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا تھا، جب یہ خبر یمن کے قبیلہ قرن میں پہنچی کہ جنگ احد میں حضورؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا ہے تو قبیلہ قرن کے اویس نے ایک ایک کرکے اپنے سارے دانت توڑ ڈالے کہ نامعلوم حضورؐ کا کون سا دانت ٹوٹا ہے۔

عاشق رسول اویس قرنی ؓ نے حضور کی خدمت میں آنا چاہا، مگر حضورؐ نے انھیں منع کرتے ہوئے کہا کہ ’’اپنی بیمار ماں کی خدمت کرو۔‘‘ حضورؐ کا وصال ہو گیا، جاتے ہوئے حضورؐ نے اپنے صحابہؓ سے کہا ’’یمن سے اویس قرنی آئے تو ان سے امت کے لیے دعا کروانا‘‘ خلیفہ اول حضرت ابو بکرؓ کے دور خلافت میں حج کے موقع پر ہر سال اعلان کیا جاتا کہ ’’یمن سے اویس کرنی آئے ہیں۔‘‘ اویس قرنی نہیں آئے اور خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کا دور آگیا، مختصر یہ کہ ایک سال حج کا ایسا آیا اور اعلان ہوا ’’یمن کے حاجی کھڑے ہو جائیں‘‘ یمن کے حاجی کھڑے ہوگئے۔

اعلان ہوا ’’قبیلہ قرن کے حاجی کھڑے رہیں، باقی بیٹھ جائیں‘‘ اب قبیلہ قرن کے حاجی کھڑے تھے، اعلان ہوا اویس قرنی آئے ہیں تو وہ کھڑے رہیں، باقی بیٹھ جائیں‘‘ سب بیٹھ گئے، مگر ایک شخص کھڑا رہا گیا، خلیفۃ المسلمین حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’کیا آپ اویس ہیں؟‘‘ اس شخص نے جواب دیا ’’میں اویس کا چچا ہوں اور اویس اونٹ چرانے میدان عرفات گیا ہوا ہے‘‘ یہ سننا تھا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے عرفات کی طرف دوڑ لگا دی۔

عرفات پہنچے تو دیکھا ایک شخص کھجور کے درختوں کے سائے میں نماز پڑھ رہا تھا، اس شخص نے سلام پھیرا، حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا ’’آپ اویس ہیں؟‘‘ اس شخص نے ہاں کہا اور ان سے پوچھا ’’آپ کون ہیں؟‘‘ حضرت علیؓ بولے ’’یہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ ہیں اور میں علیؓ ہوں‘‘ یہ سنتے ہی اویس قرنی اٹھ کر ادب سے کھڑے ہوگئے، دونوں صحابہؓ نے انھیں بٹھایا، خود بھی بیٹھ گئے اور اویس قرنی سے دعا کی درخواست کی۔ حضرت اویس قرنی بولے ’’اتنے جید صحابہ کے ہوتے میں کیا دعا کروں؟‘‘ دونوں اصحاب نے بتایا کہ حضورؐ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے یہ کہہ کر گئے تھے کہ ’’اویس قرنی آئے تو ان سے امت کے لیے دعا کروانا۔‘‘

یہ ہے عمل صالح کا انعام کہ حضورؐ نے حضرت اویس قرنی کو اتنے اعلیٰ مقام پر فائز کردیا۔ اس دعا کے ساتھ اجازت کہ ہم آج کے امتی بھی ساری رنجشیں بھلا کر ایک ہو جائیں۔( آمین۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔