پاکستانی بچوں پر منڈلاتے جہل کے سائے

ڈاکٹر نوید آئی سید  ہفتہ 14 نومبر 2020
پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچے اس وقت تعلیم گاہوں سے دور ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچے اس وقت تعلیم گاہوں سے دور ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں اس وقت بھی کروڑوں بچے جہالت کی تاریک وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ ان معصوم پھولوں نے کبھی قلم کا لمس محسوس نہیں کیا۔ کتابوں کے روشن حروف پر کبھی ان کی نظر نہیں پڑی۔ دوسری جانب من حیث القوم ہماری بے حسی کہ ہم خاموش تماشائی بنے اس مستقبل کو دیکھ رہے ہیں جو علم و شعور سے عاری ہوگا۔

لیکن کیا ان بچوں تک علم کی روشنی پہنچائی جاسکتی ہے؟ اور اگر ہاں۔ تو یہ کیونکر ممکن ہے؟

اس ضمن میں 15 اگست 2020 کو ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان یہ تھا:

22.8 million forgotten Souls- Illiteracy replaced by e-literacy

یعنی کم ازکم دو کروڑ اٹھائیس لاکھ سے زائد نظر انداز شدہ بچوں میں ناخواندگی کو کس طرح ای خواندگی سے دور کیا جاسکتا ہے۔ اکیسویں صدی کی اس ترقی کے باوجود ہمارے ملک میں بچوں کی بہت بڑی تعداد اسکولوں سے باہر ہے اور کانفرنس میں اسی دیرینہ مسئلے کے حل پر ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے۔

کانفرنس میں پوری دنیا سے ماہرین اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسکولوں سے دور پاکستانی بچوں کی صدا بنے۔ اس ضمن میں ایک مضبوط حکمتِ عملی، باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تجاویز پیش کی گئیں تاکہ پاکستان کا کوئی بچہ علم سے محروم نہ رہے۔

اس مضمون میں ایک خوشحال اور تعلیم یافتہ پاکستان کے لیے منعقدہ ایک بھرپور مباحثے کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔ اگرچہ اس سال اگست میں ہم نے یومِ آزادی کا بھرپور جشن منایا اور بہتر مستقبل کے گیت گائے لیکن ہم یہ بھول گئے کہ اب بھی کروڑوں ننھی جانیں ناخواندگی کی زنجیروں میں قید کسی اندھیرے میں گم ہیں۔ یہ زمینی حقائق پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے میں حائل ہیں۔

آزادی اور خودمختاری بے شک خوشی اور مسرت کے لمحات میں ہیں لیکن کیا ایک ایٹمی قوت پاکستان میں ہم اس وقت خوشی مناسکتے ہیں جب دس برس کی عمر تک کے ہر دس میں سے سات پاکستانی بچے لکھنے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ سال 2019 میں پیش کردہ ہیومن کیپٹل پروجیکٹ کی رپورٹ میں پاکستانی بچوں کو تدریسی غربت کی نچلی ترین 25 فیصد سطح پر رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دس برس کی عمر تک کے صرف 25 فیصد بچے ہی کچھ لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں۔

2014 میں یوکے ایڈ کے تحت کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم “الف اعلان” نے ایک سروے کے بعد پاکستانی تعلیمی معیار اور رسائی کی درست ترین صورتحال بیان کی تھی۔

الف اعلان کی تحقیق ملک میں خواندگی کی انتہائی مخدوش صورت کو ظاہر کرتی ہے۔ وطنِ عزیز میں 2 کروڑ 28 لاکھ بچے تعلیم جیسے اس بنیادی انسانی حق سے محروم ہیں جو انہیں ملک کے آئین کا آرٹیکل 25 اے فراہم کرتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر (6 تا 16 برس) کے بچوں کی 40 فیصد تعداد جہالت اور ناخواندگی کے تاریک سائے تلے زندگی گزاررہی ہے۔ اب اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے 2018 کے اعدادوشمار بھی دیکھ لیجئے جو کہتے ہیں کہ ملک میں 5 سے 9 برس کی عمر کے 60 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور یہ شرح 24.7 فیصد ہے۔ اس میں بچوں اور بچیوں کا گہرا فرق ہے یعنی 36 لاکھ لڑکیاں (31 فیصد) اور 23 لاکھ لڑکے (18 فیصد) کبھی بھی پرائمری اسکول کے لیے رجسٹر بھی نہیں ہوئے۔

تاہم 2018 کے بعد کی صورتحال کوئی نہیں جانتا، کیونکہ اس ضمن میں کوئی ڈیٹا جمع یا سروے ہی نہیں کیا گیا۔ بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ہر بچے کی تعلیم اور اس تک رسائی جیسے اہم مسئلے کو شدید نظرانداز کیا گیا ہے۔ این ول اسٹیسٹکس آف ایجوکیشن ( اے ایس ای آر) 2019 نے 155 دیہی اور 22 شہری اضلاع میں ایک تفصیلی سروے کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ دیہات میں 17 فیصد اور اور شہروں کے 6 فیصد بچے انتہائی بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ یہ تمام حقائق پاکستان میں بنیادی خواندگی کی انتہائی ہولناک صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہوئے ہمیں پاکستان میں اس اہم مسئلے کا ادراک کرنا ہوگا جو ہرروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔

ہمارے مستقبل کا احوال نوشتہ دیوار ہے اور اب اس پر کسی بحث کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ ہم بنیادی تعلیم کے اہداف حاصل کرنے میں کتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہاں! ہم کروڑوں بچوں کو علم کی روشنی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ ہم اسے بہتر بنانے کے لیے نہ کچھ کررہے ہیں اور نہ ہی کچھ سوچ رہے ہیں۔ پھر ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ کہیں یہ تعداد بڑھ کر دو کروڑ 80 لاکھ ناخواندہ بچوں تک نہ پہنچ جائے۔

اب اس سارے خرابے میں کورونا وبا سے پہلے اور بعد کی کیفیت بھی شامل کرلیجئے تو بد سے بدتر کا ہی قیاس کیا جاتا ہے۔ پھول جیسے نازک اور فرشتوں جیسے معصوم یہ بچے آپ کے اور ہمارے دیہات، شہر اور محلے میں موجود ہیں۔ یہ چوراہوں پر بھیک مانگ رہے ہیں اور کاروں کے شیشے صاف کررہے ہیں۔ یہ کسی دکان پر چھوٹے ہیں تو کسی گھر میں جھاڑو لگارہے ہیں۔ ان کے دکھ اَن دیکھے اور ان کی صدائیں بے سماعت ہوکر رہ گئی ہیں۔ اب دل سوز معاملہ یہ ہے کہ ان معصوم بچوں کو کسی بھی طرح کی تعلیم فراہم نہیں کی جارہی۔

ہم جانتے ہی نہیں کہ ناخواندگی کا سرطان کس طرح پوری قوم کی جڑوں میں سرائیت کرکے اسے خاموشی سے، دھیرے دھیرے کمزور کررہا ہے۔  ہم سب یہی کہتے رہے ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ فوری طور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کی زبوں حالی نہ صرف ہماری عالمی حیثیت کو ٹھیس پہنچارہی ہے بلکہ مستقبل کے معلمین، محققین، اختراعاتی اذہان اور علمی معیشت کے ماہرین سازی کی صلاحیت بھی سلب ہوکر رہ گئی ہے۔

حکومتی حلقوں اور سرکاری اداروں کی جانب سے چیختی خاموشی ہے، تاہم غیرسرکاری تنظیموں نے خود آگے بڑھ کر اپنی بساط بھر کوششیں کی ہیں تاکہ تعلیمی بحران کا کوئی قابلِ عمل حل برآمد ہوسکے۔ ان اقدامات کو سراہا جانا ضروری ہے جن میں ALIGHT کی جانب سے سال 2015 میں دس لاکھ بچوں کو اسکول بھیجنے کا ہدف رکھا گیا اور تین برس میں 78 فیصد کامیابی ہوئی۔ ان بچوں کو انفرادی اور اجتماعی کوششوں سے روایتی اور غیرروایتی تعلیم کی جانب راغب کیا گیا۔ دی سٹیزن فاؤنڈیشن ( ٹی سی ایف) کی کوششوں سے اس وقت پاکستان بھر کے 1650 اسکولوں میں 266,000 بچے زیرِتعلیم ہیں۔

لیکن ان ساری کاوشوں نے مجموعی طور پر ناخواندگی کی تاریکی کو کم نہیں کیا۔ اگرچہ بعض غیرمنعفت بخش ادارے انفرادی یا حکومتی سرپرستی میں کام کررہے ہیں لیکن ایسے ان کی کارکردگی پر مبنی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کارکردگی اور تعلیمی اثرات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ان تمام کوششوں کو ایک واحد پلیٹ فارم پر لایا جائے جو ایسے اداروں کی کارکردگی اور حقیقی اثرات کا نچلی سطح تک جائزہ لے سکے۔ بہت ضروری ہے کہ تمام وسائل کو یا تو یکجا کیا جائے یا پھر ایک رخ پر مرکوز کیا جائے تاکہ اس سے ہرممکن حد تک نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ تمام انفرادی کوششوں کو ایک ہی مقصد کی جانب موڑا جائے اور اسے کارکردگی کے اشاریوں اور اہداف کے حصول سے ناپا جائے۔

کووڈ 19 اور ڈیجیٹل دنیا

کووڈ 19 کی وبا نے پوری دنیا کو فاصلاتی روابط اور ڈیجیٹل دور کی جانب دھکیل دیا ہے۔ اس طرح تعلیم سمیت ہر شعبے کا ڈیجیٹل حل نکالا جارہا ہے۔ حال ہی میں نیشنل ایجوکیشن چیلنج 2020 کے تحت بعد از وبا، پاکستان میں 100 فیصد خواندگی کے لیے تجاویز اور اسٹارٹ اپ کی دعوت دی گئی تھی۔ اس ضمن میں مختلف شعبوں کے لیے  سیکڑوں تجاویز اور طریقہ کار پیش کیے گئے جن کا صرف ایک مقصد تھا کہ کسی طرح 100 فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کیا جائے۔ اس ضمن میں تعلیم آباد، ہلہ گلہ اور نیٹو لرننگ جیسے اسٹارٹ اپ آئیڈیاز کو نیشنل ایجوکیشن کی جانب سے حتمی طور پر منتخب کیا گیا۔ تینوں اداروں کے پیشِ نظر مقامی زبانوں میں نصاب کی تیاری اور تدریس کا ہدف ہے۔ یہ تمام ڈیجیٹل حل کم از کم بنیادی تعلیم تک رسائی فراہم کرتے ہیں اور ان میں مزید وسعت کی گنجائش بھی ہے۔

بنیادی خواندگی کے اہداف میں مدد دینے والے یہ ڈیجیٹل حل مزید وسعت اور مکمل طور پر سرگرم ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تاہم جو طریقہ کار بجلی، انٹرنیٹ، اسکولوں کی چار دیواری اور موبائل فون سے محروم بچوں کو کسی طرح پڑھا سکے، وہی بہترین اور آئیڈیل حل کہلائے گا۔

لیکن یہاں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں، مثلاً اسکولوں سے دور اتنے سارے بچوں کےلیے یہ ڈیجیٹل طریقے کس طرح بہت موثر، قابلِ عمل اور بڑے پیمانے پر لاگو کیے جاسکتے ہیں؟ لیکن علم کے بنیادی حق اور آف لائن کی صورت میں دنیا سے کٹے ہوئے ان بچوں کو ڈیجیٹل ذرائع سے پڑھانے کے ان طریقوں کے معیارات کیسے طے کیے جائیں؟

دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہی مسائل پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے ان رکاوٹوں کو عبور کیا جس سے تمام مسائل کے باوجود خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کو دیکھیں تو دوردراز علاقوں میں انفرااسٹرکچر کی شدید قلت ہے۔ نہ وہاں بجلی ہے، نہ انٹرنیٹ اور نہ کوئی استاد موجود ہے۔ پھر یہ بچے عمر کے مختلف ماہ و سال سے تعلق رکھتے ہیں لیکن خواندگی میں صفر ہیں۔ ہمارے پاس ایک اور ملکی مطالعہ موجود ہے جس میں انتہائی دورافتادہ علاقوں میں اسکولوں سے دور بچوں میں ایک ڈیجیٹل تعلیمی ماڈل کے ذریعے خواندگی بڑھائی گئی۔ ایک آف لائن میں ماحول شمسی توانائی کے ذریعے تعلیم کی فراہمی اور اس کا تجزیہ کیا گیا، جو اس ماڈل میں شامل اجزا کی محض ایک جھلک ہے۔ واضح رہے کہ یہ جیتی جاگتی مثال ہے کوئی خواب نہیں، کیونکہ میرپورخاص، فاٹا، خضدار، صادق آباد اور دیگر بہت سے علاقوں میں اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تنظیم کا نام Teach a Kid – Make Individual Life یعنی TAKMIL ہے۔ اس کا مقصد تعلیم سے دور ہر پاکستانی بچے کو خواندگی سے سرفراز کرنا ہے۔ ایسے بچے جو بجلی اور انٹرنیٹ سےدور ہیں اور اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔

کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ہر بچے کو تعلیم نہیں دی جاسکتی؟ کیا ہم اس کی ذمے داری حکومت یا چند این جی اوز پر ڈال کر خود بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟ کیا پاکستان کا مستقبل ازخود بیٹھے بٹھائے بہتر ہوسکتا ہے؟ پوری قوم کو کوشش کرنا ہوگی کہ کوئی بچہ بڑا ہوکر ٹیکس گزار بنے نہ کہ ملک پر بوجھ ثابت ہو؟ جب سمندر میں تلاطم آتا ہے تو سارے ہاتھ مل کر چپوؤں کو چلاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف چھوٹی بڑی ہر طرح کی کوششوں کو ایک جگہ پر لاکر اسے ایک بڑے مقصد پر جمع کرنا ہوگا اور اس وقت بچوں کو علم سے روشناس کرانا ہی سب سے بڑا جہاد ہے۔ ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ ایک بھی بچہ اس ہدف سے باہر نہ رہ پائے۔

پوری قوم کو ’’ناخواندگی کے خاتمے کے لیے مشترکہ محاذ‘‘ کھولنا ہوگا تاکہ حکومت، سرکاری و غیرسرکاری تنظیموں، چھوٹے بڑے اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر اس عظیم مقصد کے حصول کی راہ پر ڈالا جاسکے۔ ملک کے لاکھوں اور کروڑوں بچوں کے مستقبل کو روشن کرنا انہیں اندھیرے اور ظلمت سےبچانے سے بڑھ کر کوئی اور مشن کیا ہوسکتا ہے۔ اگر ہم یکجا ہوں تو چند برسوں میں انقلاب آسکتا ہے اور ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ پھر ہر بچہ ناخواندگی کےاندھیروں سے باہر ہوگا اور وہ اپنی روشن آنکھوں سے اپنے بہتر مستقبل کو دیکھ سکے گا۔

(بلاگ کی تیاری میں تکمیل فاؤنڈیشن کی زینب خان اور تکمیل فاؤنڈیشن کے روحِ رواں ڈاکٹر شاہد قمر کی مدد بھی شامل ہے۔)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔