ٹرمپ رہے نہ رہے ٹرمپ کارڈ رہے گا

وسعت اللہ خان  ہفتہ 14 نومبر 2020

کیا کسی نے پچھلے دو سو چوالیس برس میں تصور کیا تھا کہ امریکا میں ایک دن وہ وہ سوالات اٹھائے جائیں گے جو عموماً تیسری دنیا کے پسماندہ، نیم جمہوری یا نوزائیدہ جمہوری ممالک میں بھی کم ہی اٹھائے جاتے ہیں۔مثلاً یہی کہ اگر حکمران یا اس کی جماعت نے اپنی ہی حکومت کے تحت منعقد انتخابات میں حزبِ اختلاف کی کامیابی کو دھاندلی قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا ( ایسا تو تیسری دنیا میں بھی نہیں ہوتا )۔

یا امریکی صدر پولنگ سے پہلے ہی اعلان کردے کہ وہ نتائج تب ہی تسلیم کرے گا جب اسے کامیاب قرار دیا جائے اور اگر نتائج برعکس آئے تو انھیں عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔اور پولنگ ختم ہوتے ہی کہے کہ مجھے بذریعہ ڈاک ملنے والے ووٹوں کی درستی پر شک ہے اور ان ووٹوں کو پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد گنتی میں شامل کرنا صریحاً بددیانتی ہے۔گنتی کو فوراً روکا جائے۔( ایسا تو تیسری دنیا میں بھی نہیں ہوتا )۔

کسی نے سوچا تھا کہ امریکا کا وزیرِ خارجہ ہارنے والے صدر کے لیے کہے کہ ابھی یہ طے ہوناباقی ہے کہ وہ ہار گئے ہیں۔بقول وزیرِ خارجہ پومپیو جہاں تک پرامن انتقالِ اقتدار کی بات ہے تو یقیناً صدر ٹرمپ اپنی دوسری مدتِ صدارت مکمل ہونے کے بعد دو ہزار چوبیس میں وائٹ ہاؤس چھوڑ دیں گے۔( ایسا تو تیسری دنیا میں بھی اب نہیں ہوتا )۔

کسی نے سوچا تھا کہ جیتنے والا صدارتی امیدوار یہ شکایت کرے کہ موجودہ صدر کے ماتحت انتقالِ اقتدار کے عمل کو سہل بنانے والے ادارے کو نومنتخب صدر کی عبوری ٹیم سے تعاون کرنے سے روک دیا گیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ جب تک یہ ادارہ تعاون نہیں کرے گا تب تک نو منتخب صدر کو امریکی محکمہ خارجہ و دفاع سمیت کوئی ادارہ حساس معاملات کی بریفنگ نہیں دے سکتا اور نہ ہی بیرونی سربراہوں سے نئے صدر کی رابطہ کاری میں معاونت کر سکتا ہے۔

کسی نے سوچا تھا کہ نومنتخب صدر سے جنوبی کوریا کے صدر اور آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم ازخود رابطہ کر کے مبارک باد دیں اور اس کے بعد موجودہ صدر ٹرمپ کا بھی ان دونوں رہنماؤں کو فون چلا جائے کہ فی الحال معاملات واضح نہیں ہیں لہٰذا آپ نئے شخص سے رابطہ نہ کریں جو خود کو صدارت کا دعوے دار کہہ رہا ہے۔

کبھی کسی نے سوچا تھا کہ نومنتخب صدر کو روائیتی مبارک باد دینے والے ممالک میں چین اور روس شامل نہیں ہوں گے اور وہ نتائج آنے کے دو ہفتے بعد بیان دیں گے کہ پہلے نئے امریکی صدر کے نام کا باضابطہ سرکاری اعلان ہو جائے اس کے بعد ہی وہ مبارک باد کا حق دار ہوگا۔

کسی نے سوچا تھا کہ امریکا میں ایک دن یہ امکان بھی میڈیا پر زیرِبحث آ سکتا کہ اگر صدر نے بیس جنوری تک وائٹ ہاؤس نہ چھوڑا تو ان سے یہ عمارت کیسے چھڑوائی جائے گی ؟ کیا انھیں خود بخود سبکدوش تصور کر کے ڈنڈہ ڈولی کیا جائے گا یا ایوانِ نمایندگان کا اسپیکر یا سینیٹ کا چیئرمین عبوری طور پر صدارتی اختیارات سنبھال کر انتقالِ اقتدار کے عمل کو آگے بڑھائے گا۔

اب تک روایت یہی رہی ہے کہ ہارنے والا صدر جیتنے والے امیدوار کی مشاورت سے بیس جنوری تک اہم معاملات کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔بلکہ اہم معاملات پر فیصلہ نئی انتظامیہ پر چھوڑ دیتا ہے۔مگر پہلی بار حالات اتنے غیر یقینی ہیں کہ ہر شخص سوالیہ نشان ہے کہ آخری دس ہفتے میں کیا مسلح افواج اور دیگر ادارے ایسے غیر یقینی حالات میں صدر یعنی سپریم کمانڈر کا ہر حکم ماننے کے پابند ہیں یا نہیں ؟

یہ خدشات اس لیے بھی بڑھ گئے ہیں کیونکہ صدر ٹرمپ اب بھی اپنی کابینہ اور مشیروں میں رد و بدل کر رہے ہیںمثلاً انھوں نے انتخابات کے ایک ہفتے بعد وزیرِ دفاع مارک ایسپر کو عہدے سے ہٹا کر اپنے ایک اور وفادار کرسٹوفر ملر کا تقرر کیا اور محکمہ دفاع کی تین جونیئر پوزیشنوں پر بھی نئی تقرریاں کی ہیں۔اس کے بعد یہ سوال بھی ہو رہا ہے کہ ٹرمپ آخر کرنا کیا چاہتے ہیں ؟ اگر وہ ایمرجنسی لگانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی انھیں کانگریس سے پیشگی منظوری لینا پڑے گی اور ایسے کسی بھی غیرمعمولی اقدام کی ٹھوس وجوہات کے بارے میں کانگریس کو قائل کرنا ہوگا۔

امریکی مسلح افواج کی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل مارک ملے نے تین روز پہلے ایک عسکری میوزیم کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم دنیا کی دیگر مسلح افواج کے مقابلے میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں۔یعنی ہم کسی بادشاہ ، ملکہ ، طالع آزما ، آمر یا فرد کے نام کا حلف نہیں اٹھاتے بلکہ ملک کے نام کا حلف اٹھاتے ہیں۔بظاہر جنرل ملے نے امریکی معیار کے اعتبار سے کوئی انہونی بات نہیں کی مگر موجودہ ماحول جس میں رسی بھی سانپ نظر آ رہی ہے میڈیا نے پہلی بار کسی امریکی جنرل کی ایک معمول کی تقریر کو غیر معمولی سمجھ کر موضوعِ بحث بنایا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا موقف امریکی جمہوری روایات کے تناظر میں بھلے کتنا ہی غیر منطقی محسوس ہو مگر اسے دیوانے کی بڑ قرار دے کر یکلخت مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ موجودہ صدارتی انتخاب میں سب سے زیادہ تاریخی ووٹنگ ہوئی ہے۔اگر جیتنے والے امیدوار نے ساڑھے سات کروڑ کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے ہیں تو ہارنے والے نے بھی سات کروڑ ووٹ لیے ہیں۔یعنی ہار اور جیت میں صرف پچاس لاکھ ووٹوں کا فرق ہے۔یہ الگ بات کہ دو ہزار سولہ میں ہلری کلنٹن چالیس لاکھ سے زائد ووٹ لینے کے باوجود مطلوبہ دو سو ستر الیکٹورل کالج ووٹ نہ ملنے کے سبب ہار گئی تھیں۔مگر ٹرمپ تو ٹرمپ ہے۔

امریکا میں جتنے بھی ووٹر ہیں ان میں سے چوہتر فیصد گورے ہیں اور ان میں سے بھی پچپن فیصد نے ٹرمپ کو ووٹ دیے ہیں۔ان ووٹروں میں انتہائی مذہبی لوگ ، نسل پرست ، اسلحہ پرست اور مضافاتی علاقوں میں رہنے والے ان دہقانی گوروں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو مادی جدت کے اعتبار سے اکیسویں صدی میں مگر خیالات کے اعتبار سے انیسویں صدی کے امریکا میں رہ رہے ہیں۔ان میں سے بیشتر اپنی زندگی میں اپنی ریاست سے باہر نہیں گئے۔

انھیں باقی دنیا کے بارے میں نہ تو کوئی خاص علم ہے اور نہ جاننے سے دلچسپی ۔مگر ٹرمپ چونکہ انھی کی لفظیات استعمال کرتا ہے اور انھی کی طرح سوچتا ہے لہٰذا پہلی بار انھیں محسوس ہوا کہ ان کا اپنا کوئی آدمی وائٹ ہاؤس میں ہے۔اب اس کے ہوتے کوویڈ میں اگر ڈھائی لاکھ امریکی شہری مر گئے تو اللہ کی مرضی۔کوویڈ کی وجہ سے اگر معیشت بحران کے دہانے پر ہے تو اس کا ذمے دار ٹرمپ کیسے ہو گیا۔کوئی بھی صدر ہوتا تو یہی ہوتا۔اور یہ کہ ٹرمپ نے غیر گوروں کو ان کی اوقات یاد دلائی ہے۔بھلا ہم ایسے شخص کا ساتھ کیوں نہ دیں۔

انیسویں صدی میں شمالی اور جنوبی ریاستوں کی خانہ جنگی کے بعد امریکا پہلی بار اوپر سے نیچے تک نسلی و نظریاتی اعتبار سے اس طرح تقسیم ہوا ہے۔فرق بس یہ ہے کہ فی الحال کسی فریق نے ہتھیار نہیں اٹھائے۔ حالانکہ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ مسلح اگر کسی ملک کے شہری ہیں تو وہ امریکا ہے۔

آپ کی طرح میں بھی سوچتا ہوں کہ کیا امریکی انتخابی عمل پر لکھنا بیگانی شادی میں عبداللہ کی دیوانگی جیسا نہیں ؟ ہمارے اپنے جمہوری و انتخابی مسائل کیا کم ہیں لکھنے کے لیے ؟

بات تو ٹھیک ہے لیکن کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ ہم لکھاری چین اور روس کے سیاسی و حکومتی نظام پر کیوں زیادہ نہیں لکھتے ؟ کیونکہ سبھوں کو معلوم ہے کہ ان دونوں سپرپاورز کے نظام میں ہر چار برس بعد کوئی اہم تبدیلی نہیں آتی اور پالیسی کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ امریکا ایک جانب تو دنیا کی سب سے اہم عسکری و اقتصادی قوت ہے اور یہ قوت باقی دنیا پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔لہٰذا عالمی اسٹاک ایکسچینج میں امریکی سیاست و قوت و پالیسی کے شیئرز میں مسلسل اتار چڑھاؤ پر نگاہ رکھنا باقی دنیا کی ضرورت ہے۔

ٹرمپ تو خیر چلا جائے گا مگر ٹرمپ کی سیاسی وراثت چھوڑی ایک مدت تک امریکا کو اپنی لپیٹ میں رکھے گی۔ٹرمپ ازم ہارا نہیں بلکہ چار سال کے لیے چند لاکھ ووٹوں کے فرق سے پسپا ہوا ہے۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔