گلگت بلتستان انتخابات اور اپوزیشن کا بے سود احتجاج

ضیا الرحمٰن ضیا  جمعـء 20 نومبر 2020
گلگت بلتستان میں ہارنے والی سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔ (فوٹو: فائل)

گلگت بلتستان میں ہارنے والی سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔ (فوٹو: فائل)

گلگت بلتستان کے انتخابات میں کامیابی کےلیے تمام سیاسی جماعتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ تمام جماعتوں نے بڑے بڑے جلسے کیے اور قائدین نے عوام کے سامنے پرجوش خطاب کرکے ووٹ سمیٹنے کی کوشش کی۔ لیکن ہونا تو وہی تھا جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ ہر شخص جانتا تھا کہ جیتنا اسی نے ہے جو پہلے جیتتا رہا ہے، یعنی وہی جماعت جس کی وفاق میں حکومت ہے۔ گزشتہ دو تجربات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس جماعت کی وفاق میں حکمرانی ہے گلگت بلتستان اسی کا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا واقعی انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے اور حکمران جماعت ریاستی مشینری کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہے اور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے؟

انتخابات میں تحریک انصاف نے کامیاب ہونا ہی تھا اور وہ کامیاب ہوگئی، لیکن اسے اسی طرح کامیابی ملی جیسے 2018 کے انتخابات میں ملی تھی۔ یعنی اتنی ہی کامیابی ملی کہ باقی جماعتوں سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں مگر وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اسے مزید نشستیں درکار ہیں۔ اب ان نشستوں کےلیے ظاہر ہے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانا ضروری ہے یا کسی دوسری جماعت سے اتحاد کرنا پڑے گا اور مخلوط سی حکومت بن جائے گی۔ پھر تحریک انصاف کےلیے وہی بلیک میلنگ کا ایک سلسلہ چل نکلے گا۔ اس کے علاوہ شکست کھانے والی جماعتوں نے وہی دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیا ہے۔

کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز میں انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوتی اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق لاڈلے یا طاقت والے انتخابی نتائج اپنے حق میں کروا لیتے ہیں۔ لہٰذا ہارنے والی سیاسی جماعتوں کو شور مچانے کے بجائے وہ وقت یاد کرنا چاہیے جب وہ مرکز میں برسر اقتدار تھے اور وہ بھی اسی طرح بلکہ زیادہ نشستوں کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اور پھر کارکردگی وہی دکھائی تھی جو وفاق میں دکھاتے رہے ہیں یعنی کچھ بھی نہیں۔ اب جبکہ تحریک انصاف دیگر جماعتوں کی نسبت کچھ زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور حکومت بنانے کی پوزیشن کے قریب ہی ہے تو دیگر جماعتوں کو صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اس کی حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے اور اپنے اپنے حلقوں میں اپنی بہترین کارکردگی دکھانی چاہیے، تاکہ آئندہ انتخابات میں ناکامی کی رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور انتخابات میں دھاندلی کا رونا رونے کی نوبت نہ آئے۔

ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا دھرنا جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مریم نواز کے درمیان ٹیلیفونک بات چیت بھی ہوچکی ہے، جس میں انہوں نے ملاقات کرنے پر اتفاق کیا ہے اور وہ مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے پر بھی اتفاق کرچکے ہیں۔ حالانکہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جتنا بھی رو پیٹ لیں، انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہونا۔ ان کے تمام تر احتجاج بے سود ہیں۔ یہ ایڑی چوٹی کا زور لگالیں، انہیں گلگت بلتستان کی حکومت نہیں مل سکتی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی اسی طرح جیسے تیسے تحریک انصاف نے حکومت قائم کر ہی لی اور سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کا شور مچایا، احتجاج کیے، سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنے، ٹوٹے اور پھر بنے، بڑے بڑے جلسے کیے، حکومت کو دھمکیاں دیں۔ اسمبلی کے باہر شیر بنے پھرتے تھے لیکن اسمبلی کے اندر ٹھس ہوجاتے تھے۔ اسی طرح اپوزیشن کی یہ تحریک ڈھائی سال سے چل رہی ہے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا۔ نہ ہی یہ اپنا کوئی مطالبہ منوا سکے ہیں بلکہ حکومت کو جب کسی بل کے منظور کرانے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ انہیں ڈرا دھمکا کر منظور کرالیتی ہے۔ لیکن یہ سب مل کر بھی اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکے۔

اب ایک بار پھر گلگت بلتستان میں 2018 کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانے کےلیے کوششیں کررہی ہے۔ جبکہ شکست کھانے والی سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور مچا کر دھرنے اور احتجاج کا اعلان کررہی ہیں، جن کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو پکی ہے کہ انہیں ان انتخابات میں کچھ حاصل نہیں ہوگا اور ان کے احتجاج اور دھرنے بے سود رہیں گے۔ وہ اس کا تجربہ بھی کرچکے ہیں اور عوام بھی جان چکے ہیں کہ جنہوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی وہی حکومت بناتے ہیں، کوئی دوسری جماعت دباؤ ڈال کر انتخابی نتائج تبدیل نہیں کرسکتی۔

لہٰذا تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے نتائج کو قبول کریں اور اپنا اور عوام کا وقت ضائع کیے بغیر آئندہ انتخابات کی تیاری کریں۔ میں یہ نہیں جانتا کہ انتخابات شفاف ہوئے ہیں اور کسی قسم کی کوئی دھاندلی وغیرہ نہیں ہوئی لیکن دھاندلی کا شور مچانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ فائدہ صرف آپ کی کارکردگی کا ہے۔ پورے ملک میں جن حلقوں میں آپ نے کامیابی حاصل کر رکھی ہے، ان میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیے۔ انتخابات کا انتظار کیے بغیر عوام کے پاس جائیے اور ان سے ملیے۔ ان کے مسائل سنیں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کیجئے۔ یوں آپ پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور آئندہ انتخابات میں آپ کی کامیابی یقینی ہوگی۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔