بائیولوجک انجکشن سورائسز کا جدید طریقہ علاج، عوام کو آگاہی دینا ہوگی!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  بدھ 25 نومبر 2020
 نووارٹس فارما اور ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’سورائسز کی بیماری اور طریقہ علاج‘‘ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

 نووارٹس فارما اور ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’سورائسز کی بیماری اور طریقہ علاج‘‘ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

نووارٹس فارما اور ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’سورائسز کی بیماری اور طریقہ علاج‘‘ کے حوالے سے لاہور کے مقامی ہوٹل میں آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرین امراض جلد کو مدعو کیا گیا تاکہ اس اہم بیماری کے بارے میں عوام الناس کو آگاہی دی جاسکے۔

سورائسز کے علاج کی بات کریں تو بائیولوجک انجکشن ، سورائسز کا جدید طریقہ علاج ہے جو خوش قسمتی سے پاکستان میں بھی موجود ہے۔ یہ جلد کے ساتھ ساتھ سورائسز کی جوڑوں و دیگر پیچیدگیوں میں بھی کارگر ثابت ہوتا ہے اور انتہائی موثر طریقہ علاج ہے۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ بائیولوجک انجکشن دوران حمل بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

نئے شادی شدہ افراد بھی اسے استعمال کرسکتے ہیں، اس سے فرٹیلٹی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ علاج مہنگا ہے لہٰذا حکومت سے گزارش ہے کہ عام آدمی تک اس کی رسائی ممکن بنائے۔ سیمینار میں سورائسز کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حسین

(سربراہ شعبہ امراض جلد میو ہسپتال لاہور)

سورائسز دنیا میں عام پائی جانے والی بیماری ہے۔ عالمی سطح پر اس سے 2 فیصد آبادی متاثر ہے۔ یہ بیماری شمالی یورپ اور امریکا میں زیادہ پائی جاتی ہے جبکہ مشرقی ایشیاء اور مغربی افریقہ کے ممالک میں اس کے مریضوں کی تعداد کم ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو مرد و وعورت دونوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔

یہ ایک سوزش ہے جو بنیادی طور پر جلد پر ظاہر ہوتی ہے مگر یہ جسم کے اندرونی نظام کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری میں جسم کے مختلف حصوں پر سرخ رنگ کے دھبے پڑ جاتے ہیں، مچھلی کی طرح جلد پر سفید چھلکا بن جاتا ہے اور ناخن بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مرض اندرونی نظام، دل، دماغ، گردے و دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس مرض میں شوگر، کولیسٹرول، بلڈ پریشر میں اضافہ اور جوڑوں کا درد بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ ہو تو پیچیدگیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

س: بعض ممالک میں یہ بیماری زیادہ ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟

ج: اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ شمالی یورپ کے ممالک میں اس مرض کی شرح 11 فیصد اور بعض جگہ 5 فیصد ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جہاں سورج کی روشنی کم ہے وہاں اس مر ض کی شرح زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ والدین سے بچوں میں منتقلی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسی طرح خوراک کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ جن علاقوں میں قدرتی خوراک کی جگہ پروٹین ڈائٹ کا رجحان ہے وہاں بھی یہ مرض زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شراب، سگریٹ نوشی و دیگر منشیات کی وجہ سے بھی اس مرض میں اضافہ ہوتا ہے۔جن علاقوں میں سورائسز کی شرح کم ہے وہاں لوگ پودوں سے حاصل ہونے والی خوراک کھاتے ہیں، وہاں گوشت کا استعمال بھی کم ہے۔

س:کیا سورائسز موروثی بیماری ہے؟

ج: جی ہاں! یہ موروثی بیماری ہے ۔سورائسز کے شکار والدین سے بچوں میں منتقلی کے امکانات 10 فیصد ہیں مگر یہ واضح ہونا چاہیے کہ سورائسز کے لاحق ہونے کی وجہ صرف موروثی نہیں ہے بلکہ انفیکشن، گلے کی خرابی، ایچ آئی وی و دیگر بے شمار ایسی وجوہات ہیں جن سے سورائسز ہوسکتا ہے۔

س:سورائسز کا طریقہ علاج کیا ہے؟

ج:سورائسز کے علاج کے مختلف طریقے ہیں اور مرض کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ علاج کے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ مریض کو شوگر، کولیسٹرول و دیگر امراض تو نہیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 40 فیصد مریضوں میں جلدی مرض سے پہلے یا بعد میں جوڑوں کا مرض ضرور ہوتا ہے۔

بسااوقات مریض ایک سے زیادہ ادویات لے رہا ہوتا ہے لہٰذا اسے ایسی ادویات دی جاتی ہیں جو کسی دوسرے مرض کو متاثر نہ کریں۔ مریض کا ہاتھ اس کے جسم کا ایک فیصد حصہ ہوتا ہے لہٰذا اگر جلد کا 10 فیصد سے کم حصہ متاثر ہوتو مرض ہلکا ہے لیکن اگر اس سے زیادہ ہو تو اسے درمیانے سے سنگین درجے کا مرض سمجھا جائے گا۔ ایسے مریض کیلئے سسٹیمک ٹریٹمنٹ استعمال کیا جائے گا۔ اگر مرض ہلکا ہے تو لگانے کی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلے سٹیرائیڈز استعمال کرتے ہیں جو دو دھاری تلوار کی طرح کام کرتے ہیں۔

یہ موثر بھی ہیں اور ان کی کوئی بو بھی نہیں ہوتی۔انہیں سر، چہرے، ہاتھ، پاؤں و دیگر حصوں پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سٹیرائیڈز کے نقصانات بھی ہوتے ہیں، یہ جلد کو پتلا کر دیتے ہیں اور جذب ہوکر اندرونی اعضاء کو متاثر کرسکتے ہیں لہٰذا یہ سکن سپیشلسٹ کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ کب کونسا سٹیرائیڈ استعمال کرانا ہے اور کتنے عرصے کیلئے کرانا ہے۔

سٹیرائیڈز کے علاوہ وٹامن ڈی، یوریا و دیگر ادویات بھی موجود ہیں جو مرض کی نوعیت کے مطابق استعمال کرائی جاتی ہیں۔ اگر مرض شدید ہورہا ہے، جلد کے ساتھ جوڑ بھی متاثر ہورہے ہیں تو DMARDS استعمال کرائے جاتے ہیں۔ ’’فوٹو تھراپی‘‘ بھی سورائسز کا طریقہ علاج ہے۔ یہ شعاعوں سے علاج ہے جس میں الٹراوائلٹ اے اور بی دونوں استعمال ہوسکتی ہیں۔ آج کل اسے ہم نیروبینڈ یو وی بی تھراپی کہتے ہیں۔سورائسز کا جدید طریقہ علاج بائیولوجکس ہے جو خوش قسمتی سے پاکستان میں بھی موجود ہے۔ یہ جلد اور جوڑ، دونوں کے علاج کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے اور یہ موثر بھی ہے۔دنیا میں جو جدید علاج موجود ہیں ان میں سے زیادہ تر پاکستان میں ہیں جبکہ دیگر بھی جلد آجائیں گے۔

س: مریض کی زندگی پر سورائسز کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟

ج: بلڈ پریشر یا شوگر نظر نہیں آتا مگر جلدی امراض نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سورائسزکا مریض جسم پر نظر آنے والے دھبوں کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے ، لوگ اس سے ملنا جلنا کم کر دیتے ہیں، وہ تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے اور بعض مریض خودکشی کی جانب بھی راغب ہوجاتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ ان کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے انہیںآگاہی دینا ہوگی۔

س:عالمی ادارہ صحت کی سورائسز کے حوالے سے کیا ہدایات ہیں؟

ج:پاکستان، عالمی ادارہ صحت کا رکن ہے لہٰذا اس کے فیصلے ہم پر لاگو ہوتے ہیں۔ 2014ء میں عالمی ادارہ صحت نے ایک قرارداد منظور کی جس میں فوکس ’’نان کمیونی کیبل ڈیزیز ‘‘ پر تھا ان میں ذیابیطس، ہائپر ٹینشن، ہارٹ اٹیک، جوڑوں کا درد و دیگر شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے سورائسز کو جسم (جلد)کو بگاڑنے اور معذور کرنے والا موذی مرض قرار دیا اور اس پر گلوبل ایکشن پلان بنا کر اہداف بھی طے کیے۔عالمی ادارہ صحت کے پروٹوکول کے مطابق سورائسز کی جلد تشخیص، معالج و علاج تک رسائی اور مریض کو نفسیاتی مسائل سے نکالنا ضروری ہے۔

اس مرض کی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے بروقت تشخیص اور علاج تک رسائی انتہائی اہم ہے۔ یہ ایسا مرض ہے جو مریض کے معیار زندگی کو متاثر کرتا ہے لہٰذا اس کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے تمام رکن ممالک کو میڈیا، سوشل میڈیا ، سول سوسائٹی ودیگرسٹیک ہولڈرز کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دینی چاہیے۔ عام آدمی اور مریضوں کویہ بتایا جائے کہ یہ قابل علاج مرض ہے۔ اگر وقت پر ادویات لی جائیں تو شوگر و بلڈ پریشر کے مریضوں کی طرح وہ بھی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔

س:حکومت سورائسز کے مریضوں کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟

ج:صحت کے حوالے سے حکومتی اقدامات قابل تحسین ہیں۔ ایم بی بی ایس کے تعلیمی نصاب میں امراض جلد کے مضامین شامل ہیںاور ٹیچنگ ہسپتالوں میں امراض جلد کا الگ شعبہ بھی موجود ہے۔ بڑے شہروں کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں ماہر امراض جلد بھی موجود ہوتے ہیں۔

ہماری 60سے 70 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے پرائمری اور سیکنڈری ہسپتالوں کے لیے بھی ڈسٹرکٹ سپیشلسٹ کی سہولت دے رکھی ہے۔ایسے ڈاکٹرز جو رورل ہیلتھ سینٹرز، بیسک ہیلتھ یونٹس یا ایسے ہسپتالوں میںجہاں ماہر امراض جلد نہیں، انہیں ریفرشر کورسز کروانے چاہئیں تاکہ مرض کی جلد اور بروقت تشخیص ہوسکے۔ حکومت کا ہیلتھ کارڈ منصوبہ بہترین ہے، اس سے مریض جلدی امراض کا علاج بھی بروقت کرواسکیں گے۔ زکوٰۃ اور بیت المال کا نظام بھی موجود ہے، حکومت اس کے ذریعے بھی مستحق مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔

س:کیا سورائسز کے مریضوں کی امداد کیلئے کوئی این جی او یا فلاحی ادارہ موجود ہے؟

ج:سورائسز کے حوالے سے فی الحال ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل چند دوستوں کی جانب سے سورائسز فاؤنڈیشن بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اس میں پیشرفت نہ ہوسکی۔ میرے نزدیک یہ انتہائی اہم ہے کہ سورائسز کے مریضوں کیلئے سپورٹ گروپ بنایا جائے تاکہ مریضوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع مل سکے۔ گروپ تشکیل دینے سے یہ آگاہی دینے میں بھی مدد ملے گی کہ یہ اچھوت کی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ مریض بھی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ ماہرین امراض جلد کی ایک ایسوسی ایشن موجود ہے جس کے 700 سے زائد رجسٹرڈ ممبرز ہیں اور ان مزید اضافہ ہورہا ہے۔

س:سوارئسز کی آگاہی کیلئے حکومت، غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟

ج: عالمی ادارہ صحت ہر سال 29 اکتوبر کو سورائسز کا عالمی دن مناتا ہے تاکہ اس مرض کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دی جائے۔ میڈیا و سوشل میڈیا بھی اس مرض کی آگاہی کے حوالے سے اہم ہے۔ سوشل میڈیا گروپس اور پیجز پر مریضوں کے انٹرویو، ان کی تصاویر، آگاہی کے پیغامات اور ماہرین امراض جلد کے بارے میں معلومات دی جاسکتی ہیں۔ حکومت، غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کو اس میں آگے آنا ہوگا اور لوگوں کو بڑے پیمانے پر اس مرض کے بارے میں آگاہی دینا ہوگی۔

س: پاکستان میں اس مرض کی کیا صورتحال ہے؟

ج: ہمارے ہاں ہسپتالوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر مختلف تحقیقات ہوئی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 40 فیصد بچوں میں والدین سے سورائسز کی منتقلی ہوئی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آبادی کے لحاظ سے ڈیٹا موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ممکن نہیں تاہم ہمارے ہاں اس کے مریضوں کی تعداد کم ہے اور محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار میں سے 10 افراد سورائسز کی کسی نہ کسی شکل سے متاثر ہوتے ہیں۔یہ ہمارامطالبہ ہے کہ سورائسز کے مریضوں کی الگ رجسٹری ہونی چاہیے اور آبادی کے لحاظ سے ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے ۔ اس حوالے سے کام بھی ہورہا ہے، امید ہے جلد اس میں پیشرفت ہوگی۔

س:سورائسز کے مریضوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج:سورائسز قابل علاج مرض ہے اور اس کے مریض نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ اب ایسا علاج بھی موجود ہے جس سے مریض کی پوری جلد کو کلیئر کیا جاسکتا ہے۔ سورائسز کے مریض بھی اسی طرح ہی مفید شہری ہیں جس طرح عام لوگ ہیں لہٰذا دلبرداشتہ نہ ہوں اور زندگی کو اچھے طریقے سے گزارنے کی کوشش کریں۔

پروفیسر انیلہ اصغر

(سربراہ شعبہ امراض جلد لاہور جنرل ہسپتال)

س:سورائسز جسم کے کن حصوں کو متاثر کرتاہے؟

ج:سورائسز میں جسم کے مختلف حصوں میں سرخ رنگ کے دھبے پڑتے ہیں اور بعض ایسے حصے ہیں جو زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ سر، بازو، گھٹنے، ٹخنے اور کمر پر سرخ دھبوں کے نمودار ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ ناخن میں چھوٹے چھوٹے سوراخ بنتے ہیں پھر ناخن خراب ہوتے ہیں اور اترنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس بیماری سے جوڑ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ پہلے ہاتھ اور پاؤں کے چھوٹے جوڑوں میں سوجن ہوتی ہے جس کے بعد یہ بیماری بڑے جوڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ جب یہ صورتحال ہوجائے تو پھر اس بیماری کا ہنگامی طور پر علاج کرنا چاہیے کیونکہ اب یہ بیماری صرف جلد تک نہیں رہی بلکہ جوڑوں میں پہنچ چکی ہے جو مریض کا لائف سٹائل خراب کر دے گی اور خدانخواستہ اسے معذور بھی بنا سکتی ہے۔ اس مرض کے علاج کیلئے ایسی ادویات بھی موجود ہیں جو مریض کو معذوری سے بچا سکتی ہیں۔

س:جوڑوں کے علاوہ سورائسز سے جسم کے مزید کونسے حصے متاثر ہوتے ہیں؟

ج:آغاز میں اس بیماری کو صرف جلدی بیماری سمجھا جاتا تھا مگر آہستہ آہستہ تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ یہ صرف جلدی بیماری نہیں ہے بلکہ ہمارے جسمانی اعضاء کو بھی متاثر کرتی ہے۔ سورائسز کے مریضوں میں دل کے امراض، شوگر، کولیسٹرول میں اضافہ، دماغ، بازو اور ٹانگوں کی شریانیں متاثر ہوسکتی ہیں لہٰذا اس مرض کا بروقت علاج انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ اس مرض کی علامات ظاہر ہونے پر فوری ماہر امراض جلد سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ابتداء میں ہی اس مرض کی تشخیص اور علاج ہوجائے تو بے شمار پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔

س:کیا یہ بیماری ایک خاص عمر کے لوگوں میں ہوتی ہے؟

ج:یہ بیماری مردوخواتین اور بچوں میں ہوسکتی ہے۔ تحقیقات کے مطابق عمر کے دو گروپ ایسے ہیں جن میں اس بیماری کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ ایک گروپ نوجوانوں میں 16 سے 22 برس کی عمر جبکہ دوسرا بڑے لوگوں میں 40 سے 50 برس کی عمر ہے۔ بچوں میں کونجینیٹل سورائسز ہے جو پیدائش کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کے اثرات شدید ہوتے ہیں۔

س:سورائسز کی کونسی علامات ظاہر ہونے پر ماہر امراض جلد سے رجوع کرنا چاہیے؟

ج:ـجب بھی جلد پر سرخ دھبے نمودار ہوں اور جوڑوں میں درد ہو تو ماہر امراض جلد سے رجوع کرنا چاہیے۔ لوگ عمومی طور پر جنرل فزیشن کے پاس جاتے ہیں اور ہمارے ہاں ریفرل سسٹم نہیں ہے جس کی وجہ سے بے شمار لوگ ماہر امراض جلد تک پہنچ نہیں پاتے اور مرض پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ جو مریض براہ راست ہمارے پاس آتے ہیں ان میں جلد تشخیص ہوجاتی ہے، بروقت علاج ہوتا ہے اوروہ بے شمار مسائل سے بچ جاتے ہیں۔

س:کیاجوڑوں کے درد کی صورت میں ماہر امراض جلد کے پاس بھی جانا چاہیے؟

ج:ایسے بے شمار مریض سامنے آئے جو جوڑوں کے درد کی وجہ سے ہڈیوں کے ڈاکٹرز کے پاس کئی برس تک زیر علاج  رہے ، ان میں سورائسز کی تشخیص نہیں ہوسکی مگر جب جلد پر سرخ دھبے ظاہر ہوئے تو انہیں ماہر امراض جلد کے پاس بھیجا گیا جس کے بعد معلوم ہوا کہ سورائسز کی وجہ سے ہی ان کے جوڑ متاثر ہوئے مگر بروقت تشخیص نہ ہونے سے مرض پیچیدہ ہوگیا۔  اس بیماری کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ 15 سے 20 فیصد ایسے مریض ہوتے ہیں جن میں جوڑوں کی سورائسز ہوتی ہے اور جلد پر کوئی دھبہ نمودار نہیں ہوتا۔

س:سورائسز کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

ج:سوارئسز کی تشخیص بہت آسان ہے۔ سکن سپیشلسٹ تو آنکھ سے دیکھ کر ہی اس مرض کو جان لیتے ہیں کیونکہ جسم کے مخصوص جگہوں پر اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ بعض جلدی بیماریاں ایسی ہیں جو سورائسز سے ملتی جلتی ہیں لہٰذا اگر شک ہو تو سکن بائیوپسی کی جاتی ہے جس سے سورائسز کی تشخیص ہوجاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ عام لیبارٹریوں میں دستیاب ہے جو سرجن یا سکن سپیشلسٹ کرتا ہے ۔ یہ ٹیسٹ سستا بھی ہے اور مہنگا بھی۔ ہمارے کہنے پر بعض لیبارٹریاں مستحق افراد کو یہ ٹیسٹ سستا کر دیتی ہیں۔

س:کیا ماہرین نفسیات کو اس مرض کے حوالے سے آن بورڈ لیا جانا چاہیے؟

ج: سورائسز مریض کی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور اس کے لائف سٹائل کو متاثر کرتی ہے۔ احساس کمتری کے باعث مریض نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں، ہم ان مریضوں کی ابتدائی کونسلنگ کرتے ہیں اور انہیں ماہرین نفسیات کے پاس بھی بھیجتے ہیں جو ان کو نفسیاتی دباؤ سے نکلنے میں مدد کرتے ہیں۔ دنیا میں سورائسز کے مریضوں کے سپورٹ گروپ موجود ہیں، یہاں بھی ایسے گروپ تشکیل دینے چاہئیں تاکہ ماہرین نفسیات کے ساتھ کونسلنگ سیشن کے ساتھ ساتھ مریض ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھیں ، ہمت پکڑیں اور زندگی کو بہتر انداز میں گزارنا سیکھیں۔

س:سورائسز کا طریقہ علاج کیا ہے؟

ج: سورائسز کا ایک طریقہ علاج فوٹو تھراپی ہے مگر ان سے صحیح معنوں میں فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ سوائے بڑے ہسپتالوں کے، چھوٹے ہسپتالوں اور دور دراز علاقوں کے ہسپتالوں میں فوٹو تھراپی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ یہ ٹریٹمنٹ 6 ماہ یا ایک سال تک چلتا ہے لہٰذا دور دراز علاقوں کے مریضوں کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ بڑے شہروں میں اس طرح کے طویل علاج کیلئے جائیں ۔ اگر ان کے علاقے میں یہ سہولت دے دی جائے تو اس مرض کے موثر اور بروقت علاج میں مدد ملے گی۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مریض ایک طریقہ علاج تک محدود نہیں رہتا، عطائیوں کی وجہ سے لوگوں کا درست علاج نہیں ہورہا ، حکومت کو ان کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

س:سورائسز کے مریضوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج:اگر کسی کو یہ بیماری لاحق ہوجاتی ہے تو اسے دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کا علاج موجود ہے۔ اگر مریض ماہر امراض جلد کے پاس جاتے ہیں اور درست علاج کرواتے ہیں تو نہ صرف پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں بلکہ نارمل زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔

ڈاکٹر کہکشاں طاہر

(ایسوسی ایٹ پروفیسر

شعبہ امراض جلد لاہور جنرل ہسپتال )

س:کیا جنرل فزیشن کو سورائسز کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے؟

ج:جلدی امراض کے حوالے سے لوگوں کو زیادہ آگاہی نہیں ہے۔ جنرل پریکٹیشنرز بھی سورائسز جیسی بیماریوں سے لاعلم ہیں یا انتہائی کم آگاہی رکھتے ہیں لہٰذا عالمی ادارہ صحت کا یہ ایجنڈا ہے کہ انہیں آگاہی دی جائے تاکہ وہ مریض میں اس کی درست تشخیص کرکے ماہر امراض جلد کو ریفر کرسکیں۔لوگوں کو سالہا سال سے جلد یا جوڑوں کی بیماری ہوتی ہے، جلد پر سرخ دھبے بھی ہوتے ہیں مگر جنرل فزیشنز اس کی تشخیص نہیں کر پاتے اور جب یہ مریض ہمارے پاس آتے ہیں تو مرض پیچیدہ اور علاج مشکل ہوچکا ہوتا ہے لہٰذا اگر ابتداء میں ہی اس کی تشخیص ہوجائے تو مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

س:سورائسز کی شدید شکل کیا ہے؟

ج:سورائسز کی ابتداء میں جسم کے مختلف حصوں پر سرخ دھبے ظاہر ہوتے ہیں لیکن اگر یہ مرض شدت اختیار کر جائے تو پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ پورے جسم پر سرخ دھبوں کے ساتھ ساتھ سفید چھلکے بن جاتے ہیں اور اس کے علاوہ اندرونی اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جوڑوں کا درد اس میں سب سے زیادہ ہے۔ 40 فیصد مریضوں کو جوڑوں کا درد ہوتا ہے۔ دل، دماغ، جگر، گردے، شوگر، بلڈ پریشر و دیگر مسائل ہوسکتے ہیں اور بسا اوقات مریض کو انتہائی نگہداشت میں بھی رکھنا پڑتا ہے۔

س: اس بیماری سے مریض کا لائف سٹائل کس طرح متاثر ہوتا ہے؟

ج: لائف سٹائل کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ سورائسز سے مریض کے لائف سٹائل پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ مریض کے لائف سٹائل سے سورائسز پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔ اگر مریض کو معمولی سورائسز ہے تو ہوسکتا ہے وہ اسے سنجیدہ نہ لے لیکن اگر سرخ نشانات جن پر مچھلی کی طرح کے چھلکے بھی ہیں ،وہ جسم کے نظر آنے والے حصوں پر ہیں تو اس حالت میں مریض کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔لوگ ان سے ملنا جلنا بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو ڈپریشن، تناؤ، تنہائی و دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض مریض دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلیتے ہیں، ایسے مریضوں کو کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ مریض کے لائف سٹائل کی وجہ سے سورائسز میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ شراب، تمباکو نوشی، گوشت اور پراسیسڈ فوڈ کا زیادہ استعمال کرنے والوں میں سورائسز بڑھ سکتا ہے، اس حوالے سے احتیاط کرنی چاہیے۔

س:کیا سورائسز اچھوت کی بیماری ہے؟

ج: یہ تاثر بالکل غلط ہے۔سورائسز اچھوت کی بیماری نہیں ہے اور نہ ہی یہ مریض کو چھونے، گلے ملنے یا ساتھ بیٹھنے سے کسی دوسرے کو منتقل ہوتی ہے ۔ لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ سورائسز کے مریضوں کی زندگی آسان بنائی جاسکے اور انہیں تنہائی و ڈپریشن جیسے مسائل سے بچایا جاسکے۔

س:کیا بیوٹی کریم لگانے سے سورائسز ہوسکتا ہے؟

ج: قوت مدافعت کے نظام میں خرابی کی وجہ سے جسم پر سرخ دھبے آتے ہیں ، بیوٹی کریم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ متاثرہ جلد پر کریم لگانے سے مرض خراب ہوسکتا ہے ۔

س:کیا ماہرین امراض جلد بھی سورائسز کے مریضوں کی کونسلنگ کرسکتے ہیں؟

ج:ہماری مینجمنٹ کی ابتداء ہی کونسلنگ سے ہوتی ہے۔ جب کوئی مریض ہمارے پاس آتا ہے تو اسے تشویش ہوتی ہے کہ اس کے جسم پر ایسی چیز ہے جو بدنما ہے یا پھر اس کے اردگرد لوگوں نے اس طرف توجہ دلائی ہوتی ہے۔ ہم پہلے مریض کی کونسلنگ کرتے ہیں، اسے بتاتے ہیں کہ یہ مرض کیا ہے اور اس سے کس طرح سے نمٹنا ہے۔ مریض کو بتایا جاتا ہے کہ یہ مرض قابل علاج ہے ، اسے جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکتا مگر اس پر قابو پایا جاسکتا ہے جس کیلئے جدید طریقہ علاج موجود ہے۔ کونسلنگ صرف مرض یا نفسیاتی دباؤ تک محدود نہیں ہوتی بلکہ مریض کو طریقہ علاج اور ادویات کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے، ادویات کا استعمال بھی باہم رضا مندی سے کرایا جاتا ہے اور مریض کو ان کے فوائد و نقصانات کے بارے میں بھی مکمل آگاہ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر طاہر کمال

( اسسٹنٹ پروفیسر

شعبہ امراض جلد لاہور جنرل ہسپتال )

سورائسز کی مختلف اقسام ہیں اور اسی کے پیش نظر اس کا طریقہ علاج بھی مختلف ہوتا ہے۔ علاج کے وقت مرض کی قسم، نوعیت اور دورانیہ دیکھا جاتا ہے اور اسی لحاظ سے علاج کیا جاتا ہے۔ اگر مرض کو 1 سے 2 برس کا عرصہ ہوا ہے تو نارمل طریقہ علاج ہے لیکن اگر مرض پیچیدہ ہوگیا ہے اور اس نے جسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کیا ہے تو پھر طریقہ علاج بھی اسی لحاظ سے ہوتا ہے۔

س:سورائسز جسم کے کونسے حصوں کو متاثر کرتا ہے؟

ج:سورائسز کے حوالے سے دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اگر لمبے عرصے کیلئے سورائسز ہو تو یہ جوڑوں کو خراب کرتا ہے جس سے معیار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر مرض پیچیدہ ہوجائے جس میں پس والے دانے بن جائیں یا پورا جسم سرخ ہوجائے توایسی حالت میں بخار کنٹرول کرنے کا نظام ناکارہ ہوجاتا ہے اور دل بھی متاثر ہوتا ہے۔ جسے 50 برس کی عمر میں سورائسز ہوا ہے، یہ ممکن ہے کہ اسے اور بھی بیماریاں ہوں، اگر ایسے مریض میں سورائسز پیچیدہ ہوجائے، پورا جسم سرخ ہو جائے تو پھر سب سے زیادہ توجہ دل پر دینے کی ضرورت ہے کیونکہ مریض کا دل کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔ یور ک ایسڈ کے بڑھنے سے بھی بے شمار مسائل ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوڑوں کا دردو مختلف اعضاء کی خرابی جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔

س:کیا کورونا وائرس کے سورائسز پر اثرات ہوتے ہیں؟

ج:امریکن اکیڈمی فار ڈرماٹولوجی نے عالمی ادارہ صحت کی قرارداد کی روشنی میں یہ ہدایت جاری کی ہے کہ جب تک مریض میں کورونا کی تشخیص نہ ہو، اس کا علاج جاری رکھا جائے اور کسی بھی طور اسے روکا نہ جائے۔ کورونا وائرس کی وباء میں بھی اس بات کو اہمیت دی گئی کہ علاج جاری رکھا جائے تاکہ سورائسز کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔اس میں سورائسز کا ایڈوانس ٹریٹمنٹ ، ادویات اور جوڑوں کے درد کا علاج بھی شامل ہے۔

س:کیا اس مرض پر موسم کے اثرات ہوتے ہیں؟

ج:سورائسز کے حوالے سے مختلف تحقیقات موجود ہیں تاہم موسم کے اثرات کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہے۔ تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ سرد موسم والے ممالک میں یہ بیماری زیادہ ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف گرم موسم والے بعض ممالک میں بھی اس مرض میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سورائسز کے لاحق ہونے کی مختلف وجوہات ہیں۔ اس میں موروثیت انتہائی اہم ہے جس کے بعد ماحول و دیگر محرکات آتے ہیں۔

س:اس مرض کا روایتی طریقہ علاج کیا ہے؟

ج:اگر مرض ابتدائی مراحل میں ہے اور جسم کے چند حصوں تک محدود ہے تو لگانے والی ادویات دی جاتی ہیں۔ اگر لوشن لگانے سے مرض قابو میں ہے اور مریض کی لائف کوالٹی متاثر نہیں ہورہی تو پھر یہی ٹریٹمنٹ جاری رکھا جائے گا اور ایڈوانس ٹریٹمنٹ نہیں دیا جائے گا لیکن اگر مرض بڑھ رہا ہے تو کھانے کی مختلف ادویات دی جاتی ہیں، مخصوص ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں تاکہ مرض کی نوعیت کے مطابق علاج کیا جاسکے۔

س:DMARDS کیا ہے اور کتنا موثر ہے؟

ج:اگر بیماری کے سسٹیمک سائڈ افیکٹس آرہے ہیں تو وہ ادویات دی جاتی ہیں جو ان پیچیدگیوں کو روکتی بھی ہے اور بہتر بھی کرتی ہے۔ اس میں نئی و پرانی ادویات دی جاتی ہیں اور ٹیسٹ کرکے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان ادویات کے سائڈ افیکٹس تو نہیں آرہے۔ ان کی روشنی میں ادویات کی خوراک کا تعین کیا جاتا ہے۔

س:سورائسز کے خاتمے کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟

ج:سورائسز، شوگر، بلڈ پریشر کی طرح ایک ایسی بیماری ہے جس سے مکمل چھٹکارہ ممکن نہیں البتہ اسے کنٹرول ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے جدید طریقہ علاج اور موثر ادویات موجود ہیں۔ سورائسز مریض کی زندگی میں ساتھ ساتھ چلتا ہے تاہم علاج کے ذریعے اسے پیچیدہ ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں سٹیرائیڈز کے حوالے سے ڈر موجود ہے۔ سورائسز میں سوائے کچھ اوپر کی ادویات کے لگانے میں، سٹیرائیڈ استعمال نہیں ہوتا۔ یہ محدود طریقے سے استعمال ہوتا ہے۔ بے شمار ادویات میں ہم سٹیرائیڈز کے بجائے متبادل پر جا رہے ہیں اور ڈرماٹولوجی سے اس کا استعمال خاصا کم ہوگیا ہے۔

س:سورائسز کے مریضوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج:ایکسپریس میڈیا گروپ اور نووارٹس فارما کے زیر اہتمام یہ سیمینار انتہائی اہم ہے۔ اس سے یقینا لوگوں کو آگاہی ملے گی۔ اس طرح کے پروگرام انتہائی اہم ہیں۔سورائسز کے حوالے سے ڈاکٹرز میں آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی ریفر کرنے کا نظام موجو دہے، ان مسائل کی وجہ سے مریض عمر بھر غلط فہمی کا شکار رہتا ہے اور اس مرض سے متاثر ہوتا رہتا ہے لہٰذا ڈاکٹرز اور عوام کو آگاہی دینا ہوگی۔ میرا پیغام ہے کہ جنرل فزیشنز، ماہرین امراض جلد کے پاس مریضوں کو ریفر کریں۔ مریض کو بھی چاہیے کہ جلدی امراض کیلئے سکن سپیشلسٹ سے رجوع کرے تاکہ پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔