خبردار ! اپنا علاج خود کرنا خطرناک ہوسکتا ہے!

حکیم نیاز احمد ڈیال  جمعرات 26 نومبر 2020
’’لا علمی ایک نعمت ہے‘‘ جیسی دولت بے بہا کھو کر ’’آگہی موت ہے‘‘ جیسے ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

’’لا علمی ایک نعمت ہے‘‘ جیسی دولت بے بہا کھو کر ’’آگہی موت ہے‘‘ جیسے ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

رواج اور رجحان بدلتے رہتے ہیں، رجحانات اور معاشرتی عادات کی یہی تبدیلی کسی بھی معاشرے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا میں ماحولیاتی ردو بدل سمیت رجحانات وعادات میں اس قدر تغیر و تبدل رو نما ہوئے ہیں کہ 30 یا40  سال قبل وفات پا جانے والے کسی فرد کو اگر دنیا میں آنے کا موقع ملے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ڈر کر ہی بھاگ جائے گا اور وہ ماننے کو ہر گز تیار نہ ہوگا کہ یہ وہی دنیا ہے جسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔

چار سے آٹھ انچ کے موبائل میں زندگی کے ہر شعبہ ہر امورسے متعلقہ ہر کام اور دنیا جہان کی تمام تر سرگرمیاں سمٹ چکی ہیں، لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کی سیر آپ گھر بیٹھے کر رہے ہیں،آج ہم ترقی کے ارتقاء اور سائنسی ایجادات وسہولیات سے مزین پر آسائش زندگی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ سائنسی ارتقاء کی قیمت ادا کرنے پر مجبور بھی ہیں۔

’’لا علمی ایک نعمت ہے‘‘ جیسی دولت بے بہا کھو کر ’’آگہی موت ہے‘‘ جیسے ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔قبل از وقت معلومات تک رسائی نے ٹینشن، ڈپریشن، سٹریس اور انگزائیٹی جیسے مسائل پیدا کرکے انسانی زندگی موت سے بھی بد تر بناکر رکھ دی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پورے بدن کے تمام امراض کے لیے ایک ہی طبیب دستیاب وسائل سے علاج کی سہولت مہیا کرتا تھا ، دوچار دن دوا کھانے سے مریض کی صحت بحال ہوجاتی تھی اور لوگ بغیر کسی ذہنی دبائو اور اعصابی تنائو کے اچھی صحت اور طویل عمر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

فی زمانہ وقت کی سائنسی کروٹ نے ، جدید طبی سہولیات اور سائنسی ادویات کی دریافتوں نے جہاں انسان کو جدید ارتقاء سے روشناس کروایا ہے  وہیں نت نئے اور ناقابل علاج امراض کی افزائش بھی روز فزوں ہے۔ یہی نہیں بلکہ کسی بھی مرض کا کوئی مریض مکمل طور پر صحت کی لذت سے آشنا نہیں ہوپارہا۔ ’’طبی ماہرین‘‘ کی شبانہ روز عرق ریزیوں کے باوجودمبینہ طورپرامراض قابو میں آنے کی بجائے افزو ں تر ہو رہے ہیں۔ موذی اور مہلک امراض کی شرح افزائش میں آئے روز اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

ایک معاصر میں شائع رپورٹ کے مطابق قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 30 سے40 فیصد تک اموات کا سبب دل کا دورہ اور دوسرے امراض قلب بن رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 30 سال تک کی عمر کے جوان بھی امراض قلب کے سبب ہسپتالوں میں لائے جا رہے ہیں۔ منسٹری آف ہیلتھ پاکستان اور  ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مشترکہ کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی شرح 22  فیصد سے بڑھ کر 26.3 فیصد ہوگئی ہے۔ ان میں سے 19.2 فیصد افراد اپنے مرض سے واقف جبکہ 7.1 فیصد اپنی بیماری سے لا علم ہیں۔

پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں کم وبیش 400 افراد روزانہ فالج کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔نوجوانوں بالخصوص خواتین میں فالج کے مرض کا اضافہ بڑی تیزی کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے اور سالانہ دو فیصدی شرح مرض بڑھ رہی ہے۔گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں 41 فیصد تک افراد میں ہیپاٹائٹس بی اور سی پایا گیاہے اور دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کے مرض کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر ہے۔ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں تپ دق کے مرض کی شرح سر فہرست ہے۔

اسی طرح یونیسیف کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں نوزائیدہ 22 بچوں میں سے ایک بچہ پیدائش کے پہلے مہینے ہی موت کے منہ چلا جاتا ہے۔ ذہنی امراض کے حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں 22 فیصد سے60 فیصد تک ڈپریشن میں مبتلا افراد پائے جاتے ہیں۔پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر چوتھے گھر میں ذہنی مریض پایا جاتا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ذہنی امراض کے شکار مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد دوگناہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تھیلیسیمیا اور ایڈز کے پھیلائو میں بھی روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔

مذکورہ بالا اعدادو شمار کی رو سے روز بروز مختلف موذی اور مہلک امراض کی شرح میں اضافہ تشویشناک حد تک پریشان کن بنتا جا رہا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پربڑے بڑے کارپوریٹ اور جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ہسپتالوں ،میڈیکل سائنس کی ایجادات وتشخیصی آلات کی دریافتوں کے ہوتے ہوئے اور جدید طبی ماہرین و امراض کے سپیشلسٹ کی ہمہ وقتی خدمات کے باوجود بیماریوں کا ناقابل علاج ہوجانا ایک سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔

طبی ماہرین کے نزدیک امراض کی افزائش اور پھیلائو کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ سیلف میڈیکیشن یا ٹوٹکے بازی اور سنی سنائی باتوں پر عمل کرنا بھی ہے۔ سیلف میڈیکیشن کا یہ طرز عمل صرف جڑی بوٹیوں یا گھریلو ٹوٹکوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اب تو جدید ادویات اور قدرتی ادویات کے اشتہارات بھی بالواسطہ طور پر لوگوں میں سیلف میڈیکیشن کا رجحان پیدا کرنے کاسبب بن رہے ہیں۔ بظاہر انسانی ہمدردی اور خیر خواہی کا یہ عمل در حقیقت ایک انسان دشمن فعل ہے جو عام آدمی کے جسمانی مسائل کو مزید بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔

گھریلو ٹوٹکوں سے لے کر درد گردہ اور بواسیر کی عام اور بہ سہولت ملنے والی ادویات کے سوچے سمجھے اوردوا کی تاثیر کو جانے بغیر استعمال کرنے تک، قومی میڈیا پر دکھائے جانے والے جدید اور قدیم ادویات کے پرکشش اور پر اثر دعووں والے اشتہارات سے لے کرسوشل میڈیا پر نام نہاد معالجین کے شفائی اعلانات اور وعدوں تک ، یہ تمام سرگرمیاں صحت کے منافی اور علاج معالجہ کے اصولوں سے متصادم ہیں۔ قانونی طور پر اس انداز میں ادویات کے فوائد اور خواص کی تشہیر جرم اور ممنوع قرار دی گئی ہے۔

ڈیڑھ دو دہائیاں قبل پاکستان میں اندرون ملک سفر کرنے والے دیواروں پر لگے اشتہارات پڑھ پڑھ کر، منزل پر پہنچنے تک اپنے اندر کئی بیماریاں دریافت کرچکے ہوتے تھے، فی زمانہ اینڈرائیڈ پر سوشل میڈیاکا استعمال کرنے والوںکی صورت حال بھی سابقہ اشتہاری اثرات سے کچھ مختلف نہیں ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر بے شمار معالجین مردوں کو مریض ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور عجیب و غریب منطقی فلسفے جھاڑتے عام پائے جاتے ہیں۔ اس سے بڑا احمقانہ ، جاہلانہ اورغیر اخلاقی طرز عمل کیا ہوسکتا ہے کہ وہ انسانی نفسیاتی کمزوری کو ٹارگٹ بناتے ہوئے یہ نام نہاد معالجین مردوں کی اکثریت کو بزعم خود جنسی مریض ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ حالانکہ جنسی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی راکٹ سائنس ہرگز مطلوب نہیں ہے بلکہ بنیادی میٹابولزم کو متحرک کرنے سے ہی دوسرے بدنی امراض کی طرز پر ہی جنسی امراض سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ہماری اپنی اطباء برادری سے دست بستہ گزارش ہے کہ اسلاف واکابرین طب کی ناموس اور شعبہ طب کے وقار کو داغدار ہونے سے بچانے کی جتنی آج ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ خدارا ! ہوش کے ناخن لیں۔ایک زمانہ تھا جب طبیب کا نام اور وجود سراپا اخلاص، ہمدردی،خیر خواہی اور دانش ودانائی سمجھا جاتا تھا، ایک آج کا طبیب ہے جسے مبینہ طور ہم اپنا وجود،کردار اور دانائی منوانے کے لیے میڈیا پر مشتہر ہونا پڑ رہا ہے۔ طب میں جدید سائنسی اور تحقیقی اضافہ جات ہی طبیب کے وقار اور شعبہ طب کے معیار کو بحال کر سکتے ہیں۔

آج پوری دنیا ایک بار پھر طب اور طبیب کے فلاحی اور انسان دوست کردار کی متقاضی ہورہی ہے۔دنیا بھر میںکیمیکلز سے تیار شدہ جدید ادویات کے مبینہ سائیڈ ایفیکٹس کے پیش نظر متبادل ادویات کے نام پر طب قدیم کا استعمال فروغ پا رہا ہے۔علم دوست اور شعبہ طب سے مخلصانہ وابستہ اطباء کرام کو طب کے معیاراور طبیب کے وقار کی بحالی میں قرار واقعی کردار نبھانا چاہیے۔

حکومتی سطح پر قوانین پر عمل در آمد کروانے ،اتائیت کی روک تھام اور ادویات کے معیار کو مانیٹرکے لیے قائم ادارے، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور محکمہ صحت کی موجودگی میں اس طرح کے خلاف قوانین اور صحت دشمن سر گرمیوں کا قومی میڈیا پر مشتہر ہوناقابل غور وفکر ہے۔

سیلف میڈیکشن کے حوالے سے جہاں قومی اداروں کو اپنا کردار بخوبی نبھانے کی ضرورت ہے وہیں ایسے تمام معالجین جن کے دعووں اور وعدوں سے عام آدمی متاثر ہوکر ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں،انہیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وزارت صحت اور وزارت اطلاعات و نشریات کو چاہیے کو عوام الناس کو حفظان صحت کے اصولوں سے روشناس کروانے کے لیے مین اسٹریم میڈیا پر متوازن، متناسب غذا کے انتخاب و استعمال اور شعور صحت آگہی کے پروگرام باقاعدگی سے نشر کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔