ورکنگ وومن سے سماجی رویہ بدل رہا ہے، معاوضے میں امتیاز برتا جاتا ہے، ایکسپریس فورم

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  اتوار 20 دسمبر 2020
ملکی ورک فورس میں خواتین کاتناسب کم، دوران ڈیوٹی مسائل کا سامنا ہوتا ہے،نازیہ باقر، نفیس طاہرہ،بشریٰ خالق کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ملکی ورک فورس میں خواتین کاتناسب کم، دوران ڈیوٹی مسائل کا سامنا ہوتا ہے،نازیہ باقر، نفیس طاہرہ،بشریٰ خالق کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور: ملازمت پیشہ خواتین ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں،ملکی ورک فورس میں خواتین کی شرح 23 سے 28 فیصد ہے لیکن پاکستان باقی جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔

خواتین کی ملازمت کے حوالے سے سماجی رویے میں تبدیلی آرہی ہے لیکن پھر بھی خواتین کو اپنے کام کا معاوضہ مردوں کے مقابلے میں کم ملتا ہے۔ غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو رجسٹر کرکے سوشل سیفٹی نیٹ میں لانا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ’’ورکنگ وومن ڈے‘‘ کے حوالے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

صوبائی وزیر برائے ویمن ڈویلپمنٹ پنجاب بیگم آشفہ ریاض فتیانہ نے کہا کہ تحریک انصاف کو خواتین کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا لہٰذا ان کی فلاح و بہود و ترقی ہماری ترجیحات میں شامل ہے، وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس پر بھرپور کام کر رہے ہیں۔دوسرے شہروں میں رہائش بڑا مسئلہ ’’ورکنگ ویمن ہاسٹلز اتھارٹی‘‘ سمیت خواتین کے حوالے سے 70 سے زائد قوانین منظور ہوچکے ہیں۔اس وقت پنجاب میں 16 ورکنگ ویمن ہاسٹلز ہیں جن میں سے 4 لاہور، 2 راولپنڈی جبکہ باقی مختلف اضلاع میں ہیں۔مجھے اس وزارت کا قلمدان سنبھالے ہوئے سوا دو سال ہوچکے ہیں، اس دوران ہم نے خواتین کو بااختیار اور مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں تحفظ فراہم کرنے کیلیے بے شمار کام کیا ہے، خواتین کی مکمل رہنمائی کے لیے ہماری ٹول فری ہیلپ لائن 1043 موجود ہے جہاں 24گھنٹے وکلاء ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ہوم بیسڈ ورکز کا قانون منظور ہوچکا ہے جبکہ ڈومیسٹک ورکرز کے قانون پر کام جاری ہے۔خواتین کو زیادہ سے زیادہ معاشی دھارے میں لانے کے لیے خواتین کو ساز گار ماحول اور تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔سماجی رویوں میں تبدیلی عوام کی سوچ بدلنے سے ہی پیدا ہوسکتی ہے۔

انسپکٹر ٹریفک پولیس لاہور نازیہ باقر نے کہا کہ بطور خاتون جب ہم سڑکوں پر ڈیوٹی کر رہی ہوتی ہیں تو اکثر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے نمٹنا مشکل لگتا ہے مگر یہ یونیفارم ہمیں ہمت دیتی ہے۔خواتین کو ملازمت کیلیے گھر کی سپورٹ ضروری ہے، اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں ماضی کی نسبت شعور آیا ہے، میں اپنے شوہر کی سپورٹ کی وجہ سے ہی اسی شعبے میں ہوں،ہمارے وارڈنز کی زیادہ تعداد پوسٹ گریجوایٹس کی ہے، اس کے علاوہ 100 سے زائد ایم فِل اور 26 کے قریب پی ایچ ڈی میں انرول ہیں۔سٹی ٹریفک کے علاوہ دیگر پولیس فورسز میں بھی خواتین کام کر رہی ہیں، ڈولفن پولیس میں ایک خاتون ایس پی یہاں فرائض انجام دے چکی ہیں،اس کے علاوہ جلسے جلوس اور عدالتوں میں بھی خواتین پولیس اہلکار بڑی تعداد میں اپنے فرائض نبھاتی ہیں۔

نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے بہت پیچھے ہے لہٰذا خواتین کیلیے مزید سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے،ہمارے ہاں جینڈر گیپ زیادہ ہے جبکہ ملازمت کے معاوضہ میں بھی امتیاز برتا جاتا ہے، اس کے علاوہ پروفیشنل ٹریننگ اور ترقی کے وہ مواقع جو مردوں کو میسر ہوتے ہیں، خواتین کو کم ملتے ہیں، ہوم بیسڈ ورکرز، زراعت اور فشریز کے شعبے میں خواتین کام کرتی ہیں،انہیں سوشل پروٹیکشن دینا ضروری ہے، انہیں رجسٹر کرکے سوشل سیفٹی نیٹ میں لایا جائے۔

اسٹاف نرس سسٹر نفیس طاہرہ نے کہا کہ نرس کو ایک ہی وقت میں سخت اور نرم رہنا پڑتا ہے، نرس ایک باہمت خاتون ہوتی ہے جسے بے شمار قربانیاں دینا پڑتی ہیں، بھوک لگی ہو، تھکاوٹ ہو یا کوئی مسئلہ، نرس کو ہر حال میں پہلے مریض کو دیکھنا پڑتا ہے،ماضی میں ہمارے شعبے کو معاشرے میں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی تھی مگر اب حالات کافی بہتر ہیں۔ اب نرسنگ میں ڈگری پروگرام بھی کرائے جارہے ہیں، ماسٹرز، ایم فِل اور پی ایچ ڈی ہولڈرز اس شعبہ میں موجود ہیں جو خوش آئند ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔