برطانیہ کے لیے پاکستانی برآمدات

ایم آئی خلیل  جمعرات 24 دسمبر 2020

برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی شکل سامنے آنے کے بعد پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ پاکستان میں یہ پابندی 29 دسمبر تک رہے گی۔ برطانیہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ کورونا کی نئی قسم کی وجہ سے ہوا ہے۔

جنوبی افریقہ میں بھی اس سے ملتی جلتی نئی قسم دریافت کی گئی ہے۔ اس بیماری نے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں متاثرکیا ہے۔ متاثرہ نوجوانوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں برطانوی حکومت کی جانب سے سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ لندن بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ کسی بڑی مجبوری کے تحت ہی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

لندن اور انگلینڈ کے جنوب مشرقی علاقوں کے رہائشیوں کوآگاہ کردیا گیا ہے کہ کرسمس کے بعد بھی کسی رشتے دار یا کسی کے گھر جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ تاہم کھلی فضا میں آپس میں ملاقات کرسکتے ہیں۔

کورونا وائرس کے شدید منفی اثرات برطانیہ کی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے باعث کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے برطانیہ کی بین الاقوامی تجارت کو خاصا نقصان پہنچ چکا ہے۔ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان باہمی تجارت خوب روز افزوں رہی ہے۔ برطانیہ پاکستان کا اہم ترین تجارتی شراکت دار ملک ہے۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس مراعات دلوانے میں برطانیہ کا بھی اہم کردار رہا ہے، اگرچہ اب برطانیہ یورپی یونین میں نہیں ہے۔ لیکن پاکستان سے اربوں روپے کا سامان تجارت منگواتا ہے۔

کالم میں پاک برطانیہ تجارتی اعداد وشمارکا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ اس بات کا سرکاری جائزہ لیا جاسکے کہ کووڈ کی دوسری نئی لہر کے بعد پاک برطانیہ تجارت کی نوعیت کیسی ہوسکتی ہے۔ پی بی ایس کی تیارکردہ فارن ٹریڈ ریویوکے مطابق جولائی 2019 تا جون 2020 پاکستانی برآمدات برائے برطانیہ کی مالیت 2 کھرب 39 ارب 63 کروڑ41 لاکھ روپے کے ساتھ کل برآمدات میں برطانیہ کا حصہ 7.11 فیصد رہا ہے۔ جب کہ اس کے بالمقابل سال کا جائزہ لیا جائے تو اعداد وشمارکے مطابق جولائی 2018 تا جون 2019 تک برآمدات کی مالیت 2 کھرب 26 ارب 84 کروڑ82 لاکھ روپے کے ساتھ شیئر 7.25 فیصد بنتا ہے۔

یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے ساتھ اہم تجارتی شراکت دار ملک کی حیثیت سے برطانیہ انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ ہماری کل برآمدی تجارت کا 7 فیصد سے زائد برآمدات برطانیہ بھیجی جاتی رہی ہیں، لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اپریل کے بعد سے پاک برطانیہ تجارت میں کمی واقع ہوئی ہے اورکووڈ 19 کے منفی اثرات باہمی تجارت پر مرتب ہوچکے ہیں۔ اب چونکہ کورونا کی دوسری نئی لہر نے شدید متاثر کیا ہے۔ لہٰذا اس کے منفی اثرات پاکستان کی برآمدات پر بھی مرتب ہوں گے۔

ادھر جب کہ اس بات کی تیاری ہو رہی ہے کہ آئی ایم ایف کی خواہش پر بجلی وغیرہ کے نرخ بڑھائے جاسکتے ہیں۔ اس سے ہم واضح طور پر انکارکرسکتے ہیں کیونکہ G-20 ممالک نے پاکستان کو قرض ادائیگی کے سلسلے میں مہلت دے دی ہے۔ لہٰذا پاکستان بھی 2021 کے 31 دسمبر تک مہلت حاصل کرلے۔ پاکستان کی حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے جن مراعات کا اعلان کیا تھا اس کی مدت بھی 31 دسمبر تک ہے جسے فوری طور پر بڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ مدت کم ازکم مزید ایک سال بڑھائی جائے۔ آخر بہت سی باتوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کورونا نے پاکستانی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے۔ پاکستان کی اکثریت اس وقت بے روزگار ہے۔ گزشتہ مہینوں میں انتہائی سست رفتاری کے ساتھ معیشت پر بہتری کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ اب پہلے والی بات نہ رہی۔ تمام کاروباری سرگرمیوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوچکے ہیں۔

ایسے میں آئی ایم ایف کو باورکرادیا جائے کہ کوئی نیا ٹیکس یا بجلی وغیرہ کے نرخ نہیں بڑھائے جاسکتے اور آئی ایم ایف سے مزید مہلت کا حصول بھی لازمی ہے اور اس کے علاوہ پاکستان اپنے تعمیراتی شعبے کے لیے اور دیگر شعبوں کے لیے بھی بہت سی سہولیات اور مراعات کا اعلان 2021 کے لیے کرے تاکہ 2021 کو معیشت کی بحالی کا سال بنایا جاسکے۔

ہمارے ملک میں روزگار کے مواقع بھی بڑھ جائیں۔ ساتھ ہی پن بجلی کے منصوبوں پر کام کے لیے نئے ڈیمزکی تعمیر اور پرانے اعلان کردہ ڈیمز کو اپنی مقررہ مدت میں تعمیر تکمیل کے لیے عالمی بینک سمیت جتنے بھی اداروں اور ملکوں سے تکنیکی معاونت، فنی مشاورت اور مالی امداد حاصل کی جاسکتی ہو وہ حاصل کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈالرکی اونچی اڑان کو مستقبل میں روکنے کی پالیسی تیار ہونی چاہیے۔

بیرون ملک سے ترسیلات زر میں ابھی مزید اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آخر جی ایس پی پلس سے ہم خاطر خواہ فوائد کیوں نہ حاصل کرسکے؟ اس کی کورونا کے علاوہ دیگر وجوہات بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی برآمدات میں اضافہ کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔