- جرمنی؛ اسلام مخالف رہنما پر حملہ کرنے والے شخص کو پولیس نے گولی ماردی
- انسداد دہشت گردی عدالت کا بانی پی ٹی آئی کو 28 جون کو پیش کرنے کا حکم
- عراق میں 8 ملزمان کو پھانسی دیدی گئی
- آئندہ کوئی بھی پوسٹ بانی پی ٹی آئی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوگی، علی محمد خان
- مارگلہ کی پہاڑیوں پر آگ لگانے کے الزام میں 3 افراد گرفتار
- لاہور میں اسلحے کے زور پر بکرے چھیننے والے ملزمان گرفتار
- بھارت میں قیامت خیز گرمی؛ ہیٹ اسٹروک سے 19 افراد ہلاک
- وزیراعلیٰ گنڈا پور کا صوبے کی 4 ہزار مستحق بچیوں کی اجتماعی شادی کا فیصلہ
- کراچی؛ گرمی کی لہر جاری، ہفتے کو پارہ 42 ڈگری تک پہنچ سکتا ہے
- فلیونائیڈ سے بھرپور غذائیں ذیا بیطس کے خطرات کم کرتی ہیں، تحقیق
- شادی کے 12 دن بعد پتا چلا کہ بیوی مرد ہے؛ شوہرتھانے پہنچ گیا
- لکڑی سے بنا ماحول دوست سیٹلائٹ ستمبر میں لانچ کیا جائے گا
- ایل پی جی کی قیمت میں مزید کمی
- یمن میں امریکی اور برطانوی لڑاکا طیاروں کا حوثیوں پر حملہ؛ 16 افراد جاں بحق
- ’’پاکستان ٹیم اسٹرائیک ریٹ فوبیا میں پھنس کر رہ گئی ہے‘‘
- بلوچستان میں گرمی کی لہر برقرار، سبی میں پارہ 49 ڈگری تک پہنچ گیا
- حالیہ ہفتے 14 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا
- سپریم کورٹ: فیصل واوڈا توہین عدالت کیس سماعت کے لیے مقرر
- آئی ایم ایف نے نئے معاہدے کیلیے تجاویز کا مسودہ پاکستان کے حوالے کردیا
- نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کیلیے مقرر
معاشرتی تضادات کی کہانی
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ ملک پر بادشاہوں کی طرح حکومت کرنے والے لمبی لمبی سزائیں پا کر جیلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ قارئین آپ کو غالباً پتا نہیں کہ ہمیشہ سے اشرافیہ جیلوں میں بھی 5 اسٹار کی زندگی گزارتی ہے، انھیں وہ تمام سہولتیں حاصل ہوتی ہیں جو ایک 5 اسٹار ہوٹل میں دستیاب ہوتی ہیں۔
جوانی میں ہم بھی انقلابی تھے اور اقتدار کے پیچھے بھاگنے کے بجائے انقلاب کے پیچھے بھاگتے رہتے تھے۔ ہوا یہ چونکہ ہم کو ٹریڈ یونین سنبھالنے کی ذمے داری دی گئی تھی سو ہم اس فیلڈ میں کام کر رہے تھے۔ ہم مزدوروں کی ایک ملیٹنٹس یونین کے جو کراچی سے ڈھاکا تک پھیلی ہوئی تھی سیکریٹری جنرل تھے اور مزدوروں کی قیادت کرتے تھے۔ سو پولیس کسی طرح ہمیں گرفتار کرنا چاہتی تھی اس ضرورت کے تحت پولیس نے ٹاور کی طرف سے نکلنے والے ایک شرپسندوں کے ملزمین میں ہمارا نام بھی ڈال دیا اور ہم گرفتار ہوگئے۔
قارئین چونکہ ہم پہلی بار جیل یاترا کر رہے تھے سو ہمیں جیل کی زندگی کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ بہرحال جیل جیل ہوتی ہے۔ سو ہمارے خلاف بھی ’’سی‘‘ کلاس میں وہی سلوک کیا جانے لگا جو سی کلاس کے قیدیوں کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ سی کلاس تھی لہٰذا جیل کا عملہ قیدیوں کے ساتھ بہت سختیاں کرتا تھا۔ صبح چار بجے سارے قیدیوں کو ڈنڈے مار کر اٹھایا جاتا تھا اور ناشتہ دیا جاتا تھا۔
ناشتے میں کانجی، روٹی کا ایک ٹکڑا اور چائے دی جاتی تھی۔ عام قیدیوں کو بہت ذلیل کیا جاتا تھا جب کہ خاص قیدیوں کو ہر طرح کی سہولتیں دی جاتی تھیں ۔ جیل میں ایک اسپتال بھی تھا ایک قیدی روزانہ بارہ پندرہ بوتلوں میں مختلف رنگ کا پانی بھر کر اس کا ریڑھا جیل کے مختلف وارڈ میں لاتا اور ضرورت مند مریضوں میں رنگین پانی بانٹ کر چلا جاتا تھا۔ اس صورت حال سے ہم لوگ بہت پریشان تھے۔ ہمارے ساتھ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد بھی ہوتی تھی جس کی وجہ سے جیل کا عملہ خوفزدہ رہتا۔ سپرنٹنڈنٹ نے ہمیں ایک علیحدہ وارڈ دیا تھا۔
وہ مزدوروں کا اخلاق بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ بہرحال مزے میں گزر رہی تھی۔ کورٹس میں دو افسروں پر مشتمل عدالت ہمارے کیسز کی شنوائی کرتی تھی جس محرر نے ہمارے خلاف ایف آئی آر کاٹی تھی اس نے ہمیں دیکھا نہیں تھا۔
سو اس نے الزامات بھی غلط لگائے اور ہمارا حلیہ اس نے لکھا قد ساڑھے چار فٹ، رنگ کالا وغیرہ وغیرہ۔ جب ہمیں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو ایف آئی آر میں اپنا حلیہ جو درج تھا اس سے عدالت کے سربراہ کو واقف کرایا جن کا نام باجوہ تھا وہ مسکرانے لگے قصہ مختصر یہ کہ تین چار سماعتوں کے بعد ہی مجرموں کو لمبی لمبی سزائیں سنا دی گئیں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہمیں قید بامشقت کی سزا دی گئی تھی لیکن ہمیں وارڈ ہی میں رکھا جاتا تھا کہ ہماری وجہ سے عام قیدیوں کے اخلاق خراب نہ ہوں۔
ہم نے شہباز شریف کی جیلروں سے شکایتوں کے پس منظر میں یہ کالم لکھا۔ شہباز شریف کی تعلیم کتنی ہے ہمیں نہیں معلوم، البتہ ہم ڈبل ایم اے تھے۔ قانوناً ہمیں بی کلاس ملنی تھی لیکن ہم سی کلاس میں تھے ایک روز ایک قیدی نے سپاہی کے ذریعے گھر سے دواؤں کے لیے کچھ پیسے منگوائے۔ سپاہی نے کچھ زیادہ پیسے لے لیے اور جب ہمارے مزدوروں کو پتا چلا تو انھوں نے سپاہی کی خوب خاطر تواضح کی۔ اس کے بعد سپاہی محتاط ہوگئے اور جیل میں مزدوروں کی دھاک بیٹھ گئی۔
طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے آج ہمیں اپنے جیل کی باتیں اس لیے یاد آئیں کہ شہباز شریف آج کل آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے کیس میں جیل میں ہیں ان کے حالات دیکھ کر ہمیں ہماری جیل کی زندگی یاد آگئی۔ آج کل ہمارے پیر صاحب پگارا نے درانی کو حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان بات چیت کا ٹاسک سونپا ہے۔ بات چیت بہت اچھی بات ہے لیکن کیا شہباز شریف پر بنائے گئے مقدمے کا فیصلہ ہونے تک بات چیت روک دی جائے گی۔ شریف برادران پر الزامات ہیں۔ کیا یہ کیس مکمل کیا جائے گا یا شہباز رہا کردیے جائیں گے؟
اصل میں سرمایہ دارانہ نظام میں ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ اس نظام کی ہر سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں اور امتیازات کا اندازہ کرکے اس بے ہودہ نظام پر لعنت بھیجنے کو دل چاہتا ہے۔ موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونی والی لڑائی میں چونکہ پیر پگارا سامنے آگئے ہیں لہٰذا اللہ سب خیر کرے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔