پی ڈی ایم کی چھتری تلے

احتشام بشیر  ہفتہ 16 جنوری 2021
دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کی طرح اپوزیشن کا بننے والا یہ اتحاد کب تک قائم رہتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کی طرح اپوزیشن کا بننے والا یہ اتحاد کب تک قائم رہتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

سیاست بھی عجیب کھیل ہے۔ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن بننے والے مفادات کےلیے شیر و شکر ہوجاتے ہیں اور پھر جب مفادات کا ٹکراؤ ہوجائے تو پھر ایک جگہ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ کچھ ایسا ہی پاکستانی سیاست میں ہورہا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز ماضی میں مخالف جماعتیں رہی ہیں، جن کے قائدین نے مخالفت میں اخلاقیات کی حدیں پار کردی تھیں۔ جب دونوں جماعتوں کے قائدین تقاریر کرتے تو زبان سے ایک دوسرے کے خلاف زہر ہی اگلتے تھے۔ آصف علی زرداری نے جن کیسز میں زیادہ عمر گزاری وہ نواز شریف دور کے ہی بنائے ہوئے تھے اور نواز شریف کو جن کیسز میں سزائیں ہوئیں اور جو مقدمات بنے، وہ بھی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بنائے گئے۔

اسی طرح خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کا تعلق بھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرح آگ اور پانی کا تھا۔ 2002 کے انتخابات میں جب ایم ایم اے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو اے این پی نے جے یو آئی کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور 2008 کے انتخابات میں اے این پی نے الیکشن مہم میں جے یو آئی کے خلاف مہم چلائی۔ جب پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار ملا اور ماضی کی حکمران جماعتیں اقتدار سے باہر ہوئیں تو سب جماعتوں کے مفادات مشترک ہوگئے۔ تمام جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی چھتری تلے ایک ہوگئیں۔ یہاں بھی پاکستان مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کا ایک دوسرے کے زیر اثر کام کرنے پر اتفاق نہ ہوا اور سربراہی مولانا فضل الرحمان کو دے دی گئی۔ اب ماضی کی حکمران جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف میدان میں ہیں۔ کل ایک دوسرے کے خلاف مردہ باد کا نعرہ لگانے والی جماعتیں ایک دوسرے کےلیے زندہ باد کا نعرہ لگارہی ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کیجئے اور موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو بڑی دلچسپ صورتحال نظر آتی ہے۔

اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف میدان میں ہیں۔ پی ڈی ایم نے وزیراعظم عمران خان کے 31 جنوری تک مستعفی نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ اپوزیشن اس دوران مختلف شہروں میں ریلی اور جلسے کا انعقاد بھی کررہی ہے۔ ان ریلیوں اور جلسوں کے دوران کچھ مضحکہ خیز اور دلچسپ لمحات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بٹ خیلہ جلسے کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے کا فقدان دیکھنے کو نظر آیا۔ بٹ خیلہ میں جلسہ پارک میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کےلیے سارے انتطامات مکمل کرلیے گئے تھے، لیکن عین وقت پر پیپلزپارٹی نے جلسہ پارک کے بجائے مین شاہراہ پر کرنے کا فیصلہ کیا۔ بٹ خیلہ جیسے علاقے میں جہاں شام سے کاروباری سرگرمیاں بند ہوجاتی ہیں، لوگ گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں، وہاں جلسہ شام چھ بجے شروع ہوا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ لوگ شام کے بعد واپس جانا شروع ہوگئے اور جو سیاسی میدان دوپہر کے بعد گرم تھا، شام تک ماند پڑگیا اور پی ڈی ایم کا مالاکنڈ روڈ کو بند کرنے کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ جلسے کی جگہ عین وقت پر تبدیل کرنے پر اپوزیشن جماعتوں نے پیپلزپارٹی کی اس حکمت عملی پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے۔ مردان سے بٹ خیلہ تک ریلی کی تجویز پر مسلم لیگ ن بھی متفق نظر نہیں آئی۔ اسی لیے مریم نواز اور ن لیگ کا کوئی مرکزی رہنما بٹ خیلہ کی ریلی میں شریک نہ ہوسکا۔ جب ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات پر اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق نہیں ہو پارہا تو تو جب بڑے فیصلوں کا وقت آئے گا تو کیسے آگے بڑھا جائے گا؟

پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کو ختم ہونا چاہیے اور ہر جلسے میں اپوزیشن کی جانب سے حکمرانوں کو نااہل اور ناجائز حکومت قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اپوزیشن جماعتیں اور اس کے کارکن اس بات پر متفق نہیں کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا۔ ان جلسوں کے دوران دلچسپ صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ بٹ خیلہ جلسے میں جب مقامی قیادت کی تقاریر شروع ہوئیں تو مسلم لیگ ن کے امیر مقام کے خطاب کے وقت ن لیگی سپورٹرز نے وزیراعلیٰ امیر مقام کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ اسی طرح اے این پی کے امیر حیدرہوتی تقریر کےلیے آئے تو اے این پی کے کارکنوں نے وزیراعلیٰ امیر حیدرہوتی کے نعرے لگائے۔ عوام پریشانی میں پڑ گئے ہیں کہ اگر پی ڈی ایم جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوگئیں تو وزیراعلیٰ کون بنے گا؟

اسی طرح کی صورتحال مرکزی قیادت میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ن لیگ کے مرکزی رہنماؤں کی تقاریر کے وقت وزیراعظم نواز شریف کے نعرے لگنا شروع ہوجاتے ہیں، بلاول بھٹو تقریر کےلیے آئیں تو وزیراعظم بلاول بھٹو کے نعرے لگانا شروع ہوجاتے ہیں اور جے یو آئی کے کارکن بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی آمد پر اب وزیراعظم مولانا فضل الرحمان کے نعرے لگتے ہیں۔ یعنی ایک انار سو بیمار والی بات ہوگئی۔ سیٹ تو ایک ہے اور پی ڈی ایم کی چھتری تلے وزیراعظم کے امیدوار بہت سارے ہیں۔ معلوم نہیں ماضی کی طرح اپوزیشن کا بننے والا اتحاد کب تک قائم رہتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔