اخبار فروش لڑکا صدر بن گیا

سید عاصم محمود  اتوار 17 جنوری 2021
نئے امریکی حکمران کی جدوجہد اور صدمات سے عبارت ڈرامائی داستانِ حیات

نئے امریکی حکمران کی جدوجہد اور صدمات سے عبارت ڈرامائی داستانِ حیات

جدید سیاسیات کا بانی اور اطالوی فلسفی،نکولو میکاولی اپنی کتاب’’دی پرنس‘‘میں لکھتا ہے:’’سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

گویا اس کے نزدیک سیاست داں بن کر ایک انسان غیر اخلاقی فعل انجام دے سکتا ہے۔خصوصاً جو سیاسی رہنما حکمران بن جائے،اسے کئی بار ،موقع محل کے مطابق دروغ گوئی،عیاری اور چالاکی سے کام لینا پڑتا ہے۔

یہ تعریف  امریکی صدر،ڈونالڈ ٹرمپ پہ پوری اترتی ہے۔ٹرمپ کاروباری تھا جو امریکی عوام کے جذبات سے کھیل کر اکلوتی سپرپاور کا صدر بن گیا۔اس نے پھر اپنے مفادات کی خاطر کئی بار قانون اور اخلاقیات کو پیروں تلے کچلا ۔اپنا مفاد ہوتا تو وہ گدھے کو بھی باپ بنا لیتا۔مفاد نہ ہوتا تو اس کے نزدیک صوفی بھی بدمعاش قرار پاتا۔اسی سوچ کے تحت ٹرمپ نے اپنی فسادی پالیسیوں سے 6جنوری کو امریکی پارلیمنٹ میں اچھا خاصا ہنگامہ کرا یا اور جمہوریت کے گڑھ سمجھے جانے والے امریکا کی دنیا بھر میں بھد اڑا دی۔

ٹرمپ نے تاہم امریکی عوام کے دیرینہ مسائل جان لیے تھے۔لہذا امریکیوں کو بتایا کہ امریکی صنعت کاروں کو مجبور کرے گا ،وہ بیرون ممالک نہیں امریکا میں کارخانے اور دفاتر کھولیں تاکہ انھیں روزگار مل سکے۔اس نے امریکا میں مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے۔

چین اور دیگر ممالک کی اشیا کا امریکا میں استعمال کم کرنے کے لیے ان پہ بھاری ٹیکس لگا دئیے۔اگر معاملہ معیشت تک رہتا تو ٹرمپ کو امریکا میں مذید مقبولیت حاصل ہوتی مگر وہ متعصب رہنما تھا۔اس نے ظالم اسرائیل کی بے جا حمایت کی اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔مسلمانوں کی امریکا آمد پہ بے جا پابندیاں لگائیں۔سفید فام برتری کا قائل ہے۔امریکا کے سیاہ فام بالاآخر اسی تعصب کے خلاف زبردست مظاہرے کرنے لگے اور ٹرمپ کے مخالف بن گئے۔

اس دوران صدارتی الیکشن آ پہنچا۔ڈیموکریٹک پارٹی میں سوشلسٹ رہنما ،برنی سینڈرز اور اعتدال پسند لیڈر،جو بائیڈن کے مابین یہ کڑا مقابلہ ہوا کہ الیکشن میں کون ٹرمپ سے دو دو ہاتھ کرے۔شدت پسندی برنی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔دراصل وہ سرمایہ داری کے سخت خلاف ہیں۔حتی کہ اس کی خوبیوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔جبکہ جو بائیڈن نرم جو طبیعت اور مفاہمتی پالیسیوں کے باعث ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں میں زیادہ دل پسند امیدوار قرار پائے۔سیاہ فاموں میں بھی انھیں مقبولیت حاصل تھی۔

محبت دینے سے ہمیشہ نفع

نامور برطانوی ڈراما نگار‘ ولیم شیکسپئیرنے ایک ڈرامے میں لکھا ہے: ’’محبت دینے سے ہمیشہ نفع ہوتا ہے۔‘‘ امریکی صدارتی الیکشن میں جو بائیڈن کی جیت نے یہ مقولہ سچ کر دکھایا۔ اس الیکشن میں دو شخصیات ہی نہیں ان کے نظریات و کردار کا بھی سخت مقابلہ درپیش تھا۔

ایک طرف ٹرمپ تھا‘ نفرت و تصادم کی پالیسیوں کا خالق ۔ دوسری سمت جو بائیڈن تھے جنہوں نے بالعموم محبت کی زبان بولی اور لڑائی نہیں مفاہمت و بھائی چارے پر زور دیا۔ ٹرمپ نے امریکی شہریوں کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ دیئے… زیادہ سے زیادہ پیسا کمانے کی خواہش، پُر آسائش زندگی بسر کرنے کا ارمان‘ سفید فام نسل کی برتری اور امریکا سب سے پہلے ۔ اس لیے وہ بھی سات کروڑ سے زیادہ ووٹ پانے میں کامیاب رہا۔ لیکن آخر میں محبت و امن ہی کو فتح ملی اور نفرت کے منفی جذبے پسپا ہو گئے۔جو بائیڈن کی جیت میں ان کی اپنی منفرد شخصیت اور مثبت فکر و عمل نے اہم کردار ادا کیا۔

اکلوتی سپرپاور،امریکا کے نئے صدر،جو بائیڈن کی خصوصیت ہے کہ وہ سابق صدر،بارک اوباما کی طرح نچلے متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔یہی نہیں ان کا لڑکپن خاص طور پر زندگی کی مشکلات اور مسائل سے مقابلہ کرتے گذرا۔مذید براں انھیں دوران حیات سخت ذاتی صدمات بھی برداشت کرنا پڑے۔ہر انسان خامیوں اور خوبیوں کا پتلا ہے۔ جو بائیڈن کی زندگی بھی غلطیوں سے عبارت ہو گی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ وہ منفرد شخصیت ہیں۔ایک خود پروردہ ( سلیف میڈ)جنہوں نے اپنی صلاحیتیوں سے کام لے کر عزت‘ شہرت اور دولت کمائی۔وہ ضرورت مندوں کی مدد کرتے  اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کے کام آتے ہیں۔

عرش سے فرش تک

جوزف روبینیٹ ’’جو‘‘ بائیڈن جونیئر 20نومبر1942ء کو امریکی ریاست پنسلیوینیا کے شہر‘ سکارنٹن میں پیدا ہوئے۔ والد ،جوزف بائیڈن سینئر( 1915ء۔2002ء) اور والدہ‘ کیتھرین جین بائیڈن (1917ء۔ 2010ء) کے اجداد آئرلینڈ سے امریکا آئے تھے۔ جو بائیڈن کا تعلق کیتھولک عیسائیت سے ہے۔ گویا وہ جان کینڈی کے بعد صدر امریکا منتخب ہونے والے دوسرے کیتھولک سیاست دان  ہیں۔ بائیڈن سینئر تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1939ء میں امریکن آئل کمپنی میں کلرک لگ گئے تھے۔  تعلق نچلے متوسط گھرانے سے تھا۔

کچھ عرصہ بعد وہ کمپنی کے سیلز مین بن گئے اور تنخواہ میں اضافہ ہو گیا۔ 1941ء میں جین سے شادی کی اور اگلے سال ان کے بڑے بیٹے‘ جو پیدا ہوئے۔ تب جوزف بائیڈن کو معقول آمدن ہو رہی تھی۔ ان کے پاس گاڑی تھی اور وہ اچھا کھاتے‘ پیتے اور پہنتے تھے۔ دوسر ی جنگ عظیم ختم ہوئی‘ توملازمت چھن گئی اور خوشحالی کے بعد دور ابتلا شروع ہوا۔ گویا وہ اچانک عرش سے فرش پہ آ گرے ۔

تاہم جوزف نے خندہ پیشانی سے مشکلات کا مقابلہ کیا۔ وہ گھر چلانے اور بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر معمولی ملازمتیں بھی کرتے رہے۔1950ء میں جوزف کو ایک کارخانے میں چمنیاں صاف کرنے کا کام مل گیا۔ انہوں نے پھر بعض افراد کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا مگر وہ چل نہ سکا۔ دوسرا کاروبار کیا تو پارٹنر رقم لے کر چمپت ہوا۔اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک سادہ مزاج اور دوسروں پہ اعتماد کرنے والے انسان تھے۔ آخر وہ کاروں کی سیلزمینی کرنے لگے۔ اس نئی ملازمت سے گھر کا خرچ چلنے لگا۔

ہکلاہٹ کی مصیبت

جو بائیڈن بچپن میں کافی ہکلاتے تھے۔حتیٰ کہ اپنا نام بھی صحیح طرح نہ لے پاتے۔ جب  گھر سے نکل کر محلے اور سکول میں بچوں سے ملتے تو وہ ہکلاہٹ کے باعث ان کا مذاق اڑاتے۔ نشوونما پاتے جو کو قدرتاً اپنی تضحیک پر سخت تکلیف ہوئی۔گویا بچپن ہی میں انہیں نفرت جیسے سخت جذبے سے پالا پڑ گیا۔ ایسی صورت حال میں اکثر بچے باغی بن کر معاشرہ دشمن بن جاتے ہیں۔ مگر جو نے منفی راستہ اختیار کرنے کے بجائے نفرت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بولنے کی مشق کرنے لگے۔

نثر و شاعری سے اقتباسات پڑھتے اور گھنٹوں انہیں دہراتے۔ کئی ماہ کی مسلسل مشق کے بعد آخر انہوں نے مثبت رویے اور مستقبل مزاجی سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پا لیا۔ اس کامیابی نے جو کو بہت اعتماد بخشا۔ سب سے بڑھ کر انہیں احساس ہوا کہ نفرت  طاقتور منفی جذبہ ہے ،وہ کسی بھی انسان کی شخصیت بگاڑ سکتا ہے۔اس باعث انہوںنے طے کر لیا کہ وہ کسی ذی حس سے نفرت نہیں کریں گے۔اس فیصلے نے مستقبل میں ڈونالڈٹرمپ کو شکست فاش سے دوچار کرنے  میں اہم حصہ ڈالا۔

 حقیقی سیاست دان کون؟

1950ء تک ان کی ایک بہن اور دو بھائی دنیا میں آچکے تھے۔گھریلو اخراجات بڑھنے کے باعث جو طویل عرصہ اپنے نانا نالی کے گھر مقیم رہے۔ نانا کے ذریعے ہی جو سیاست سے متعارف ہوئے۔نانا کی عادت تھی کہ وہ شام کو دوستوں کے ساتھ سیاسی امور پر گفتگو کرتے۔ پوتا بھی پہلو میں براجمان ہوتا۔ نانا ہی  سے جو نے سیکھا کہ حقیقی سیاست دان وہ ہے جو اپنی ذات یا صرف طاقتور لوگوں کے لیے نہیں بلکہ سبھی انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔ انہوںنے پوتے کو یہ بھی بتلایا کہ وعدہ پورا کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔

عزت سب سے اہم!

جوزف بائیڈن کی سعی تھی کہ ان کے بچوں کو کسی قسم کی کمی نہ ہونے پائے۔ جو کی بہن‘ ولیری بتاتی ہیں: ’’ہمیں بچپن اور لڑکپن میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ خورونوش کی اشیا میّسر تھیں۔ ہم بھی دوسرے بچوں کی طرح عمدہ لباس پہنتے ۔ فرق بس یہ تھا کہ کپڑے لنڈے بازار سے خریدے جاتے ۔‘‘گھر چلانے کے لیے جوزف کو ہر وقت رقم کی ضرورت رہی مگر پیسا کماتے ہوئے انہوںنے کبھی عزت نفس کو داؤ پر نہیں لگایا۔ وہ ایک کار کمپنی میںبطور سیلز مین کام کر رہے تھے۔ کمپنی کا مالک نفسیاتی مریض تھا۔

دوسروں کو ذلت کا احساس د لاتے ہوئے تسکین پاتا ۔ ایک بار اپنے مریضانہ نفس کو خوش کرنے کے لیے اس نے عجیب کھیل کھیلا۔مالک نے تمام ملازمین کو ایک تقریب میں جمع کیا۔پھر  ایک بالٹی میں چاندی کے ڈالر بھرے اور انہیں فرش پر انڈیل دیا۔ مقصد یہ تھا کہ تمام ملازمین سّکے پانے کی خاطر فرش پر لوٹتے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں ۔ مگر جوزف کو یہ عمل بہت غیر انسانی اور غیر اخلاقی لگا۔ انہوں نے بیگم کا ہاتھ پکڑا اور تقریب سے نکل آئے۔ جوزف نے پھر کبھی اس کمپنی میں پاؤں نہ دھرا۔جوبائیڈن اپنی آپ بیتی میں درج بالا واقعہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میرے والد اپنے گھرانے کو خوشیاں دینے کے لیے کوئی بھی کام کرنے کو تیار رہتے ۔ مگر شرط یہ تھی کہ ان کی عزت نفس کو گزند نہ پہنچے۔کام کی اہمیت اپنی جگہ،مگر عزت واحترام اس کے ساتھ نتھی ہونا چاہیے۔اگر انسان کو عزت نہ ملے تو چاہے تنخواہ لاکھوں ڈالر  ہو،وہ بے معنی ہو جاتی ہے۔‘‘

لڑکا اپنے پیروں پہ!

اسکول کے زمانے میں جو بائیڈن علاقے میں اخبار فروخت کرتے رہے۔وہ گھروں میں صبح سویرے اخبار بھی ڈالتے۔مقصد یہ تھا کہ اپنے اخراجات کی خاطر رقم کما سکیں۔وہ اپنے گھر کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔انھیں علم تھا کہ ابا کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ بچوں کو جیب خرچ دے سکیں۔

اسی لیے جو خود ہی کام کر کے اپنی پاکٹ منی کمانے لگے۔گویا انھوں نے اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا بہت جلد سیکھ لیا۔یہ گھرانا کئی سال تک دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم رہا۔پانچ افراد مل جل کر گذارا کرتے رہے۔دراصل اس وقت قناعت اور سادگی کا چلن تھا۔زندگی کی آسائشیں پانے کی اندھا دھند دوڑ شروع نہیں ہوئی تھی۔اہل خانہ آپس میں پیار ومحبت رکھتے ،ان کی توجہ کا مرکز مادی اشیا نہیں تھیں۔محبت کی طاقت ہی سے وہ روزمرہ مسائل کا مقابلہ ہنستے کھیلتے کر لیتے۔جو بتاتے ہیں:

’’’میرے والد اکثر مجھے کہتے،چیمپ!اگر کسی انسان کا کردار جانچنا ہو تو ایک پیمانے سے مدد لو۔یہ کہ اس انسان کو کتنی بار شکست ہوئی…یہ بات اہمیت نہیں رکھتی۔اہم یہ ہے کہ وہ شکست کھانے کے بعد کتنی جلد اٹھ کھڑا ہوا اور پھر مشکلات ِزندگی سے نبردآزما ہو گیا۔‘میں نے اس سبق کو حرزِجان بنا لیا ۔میں جب بھی مات کھاتا ہوںتو وقتی طور پہ پژمردہ ہو جاتا ہوں۔لیکن پھر اٹھ کھڑا ہوتا اور دوبارہ جیت کے لیے جدوجہد کرتا ہوں۔‘‘

شراب نہیں پینی

جوزف بائڈن کو دوران حیات کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔وہ خصوصاً اپنی اولاد کی ترقی کے لیے کوشاں رہا۔اگرچہ ناکامیوں نے اسے شراب کا عادی ضرور بنا دیا۔نشے میں کبھی کبھی  بچوں کو برا بھلا بھی کہہ دیتا۔اس تلخ تجربے سے پروان چڑھتے جو کو احساس ہوا کہ شراب بری شے ہے۔اسی لیے انھوں نے کبھی خمر نہ پینے کا عہد کیا۔

ایسے معاشرے میں جہاں اس بدبخت مشروب کی فراوانی ہے،اس سے دور رہنا قابل تحسین امر ہے۔اسکول میں جو اوسط درجے کے طالب علم تھے مگر طلبہ میں مقبول رہے۔وجہ ان کی خوش مزاجی ،زندہ دلی اور بہت باتونی ہونا تھا۔وہ اجنبی کو بھی بہت جلد دوست بنا لیتے۔اسکول میں مشہور تھا کہ جو کھمبے سے بھی بات کرے تو اسے بولنے پر مجبور کر دے گا۔یہ اس لڑکے میں جنم لینے والی حیرت انگیز تبدیلی تھی جو کچھ برس پیشتر ہکلاتا اور باتیں کرنے سے شرماتا تھا۔اس سلسلے میں انھیں والدین کی بھی بھرپور حمایت حاصل رہی۔

خبردار  بیٹے کو کچھ کہا!

ایک بار جو کلاس میں باآواز بلند سبق پڑھ رہے تھے۔ہکلاہٹ کی وجہ سے سبق سنانے میں دیر ہو گئی۔کلاس ٹیچر ایک نن تھی۔پہلے تو وہ سبق سنتی رہی پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بولی ’’بو…بو…بو… بائیڈن جلدی پڑھو۔‘‘یہ الفاظ سن کرحساس جو کو قدرتاً شدید ذلت وتکلیف محسوس ہوئی۔

وہ اتنے پریشان ہوئے کہ کلاس چھوڑ کر گھر بھاگ آئے۔ماں نے بیٹے کو بے وقت آتے دیکھا تو وہ بھی گھبرا گئی۔بیٹے نے سارا ماجرا سنایا تو اسے لیے اسکول پہنچی۔وہاں پرنسپل کے سامنے نن نے اقرار کیا کہ اس نے جو کی تحضیک کی ہے۔ جو کی والدہ کو سخت غصہ آیا۔وہ نن کے قریب گئی اور کہا’’اگر آئندہ میرے بیٹے کو کچھ کہا تو میں تمھارا بونٹ(سر پوش)اتار کر اس کے چیتھڑے اڑا دوں گی۔سمجھ آئی۔‘‘پھر بیٹے کو واپس کلاس میں جانے کا حکم دیا۔یہ واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ جو کے والدین ان سے نہایت محبت اور بچوں کی تندہی سے حفاظت کرتے تھے۔

دنیا میں سب انسان برابر

جوزف بائیڈن کا خاندان کئی سال تک تنگی وترشی کے عالم میں گرفتار رہا۔بعض اوقات صورت حال اس نہج پر پہنچ جاتی کہ بچوں کے جوتے پھٹ جاتے مگر نئے خریدنے کے لیے رقم نہ ہوتی۔تب جوتے کے اندر کارڈ بورڈ ڈال لیا جاتا کہ تلوے کے سوراخ بند ہو جائیں۔حالات سے واضح ہے،جو کے والدین انھیں اور ان کے بھائی بہن کو مادی آسائشیں نہ دے سکے مگر انھوں نے ان پہ محبت وتوجہ ضرور نچھاور کی اور ضرورت پڑنے پر قربانیاں بھی دیتے رہے۔یہی وجہ ہے،غربت میں بچپن ولڑکپن گذارنے کے باوجود تمام بچے خوداعتمادی کی دولت سے مالامال تھے۔وہ جانتے تھے، اپنی کوشش و محنت سے وہ معاشرے میں بلند مقام پا سکتے ہیں۔

والدین ہی سے جو بائیڈن کو یہ قیمتی سبق بھی ملا کہ دولت ،شہرت،عزت،رنگ ،نسل وغیرہ کسی انسان کو دوسروں پہ برتری عطا نہیں کر سکتیں۔دنیا میں سب انسان برابر ہیں،بس شرافت اور نیکیاں ایک انسان کو ممتاز بناتی ہیں۔اسی سبق کے باعث جو نے کبھی خود کو برتر نہیں سمجھا اور وہ آج بھی عام لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔اس خوبی نے انھیں عوام میں ہردلعزیز رہنما بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ایک بار زمانہ طالب علمی میں وہ سیاہ فام دوستوں کے ساتھ مقامی ریسٹورنٹ گئے جہاں کا مالک معتصب سفید فام تھا۔اس نے سیاہ فام لڑکوں کو اندر آنے سے روک دیا۔جو نے بھی احتجاجاً ریسٹورنٹ کا بائیکاٹ کر دیا اور پھر کبھی وہاں نہیں گئے۔

سلطنت کی رانی مل گئی

جو امریکی فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے،چناں چہ اسکول ٹیم کا حصہ رہے۔1961ء میں اسکول تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی آف ڈیلاوئیر میں پڑھنے لگے۔اب ان کی والدہ بھی مختلف ملازمتیں کرنے لگیں تاکہ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہو سکیں۔اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کی خاطر والدین کیا کچھ نہیں کرتے!افسوس بہت سے بچے بڑے ہو کر اپنے والدین کی لازوال قربانیاں فراموش کر دیتے ہیں۔یونیورسٹی میں جو کا بیشتر وقت دوستوں سے خوش گپیاں کرتے گذرتا۔نوجوانی تھی،لڑکیوں میں بھی دلچسپی لیتے۔اکثر رات کو کلبوں میں رقص کیا جاتا۔پڑھائی کی طرف دھیان کم تھا۔گویا اس زمانے میں جو اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ بے پروا ہو گئے۔مگر ایک واقعہ نے ان کی زندگی بدل دی۔

1964ء کے موسم بہار جو بائیڈن دوستوں کی معیت میں سیروتفریح کرنے بہاماس جزائر پہنچے۔وہاں امیر خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ان کا دوست بن گیا جو فائیوسٹار ہوٹل میں ٹھہراتھا۔جو نے اس سے درخوست کی کہ وہ شاندار ہوٹل اندر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔لڑکے نے انھیں ہوٹل کا اپنا تولیہ دیا اور کہاکہ اسے پہن کر ہوٹل کے سوئمنگ پول پہنچنا،تمھیں کوئی گارڈ نہیں روکے گا۔وہاں سے پھر ہوٹل کے اندر چلے جانا۔یہ پلان کامیاب رہا اور تولیے میں لپٹے جو اعتماد سے چلتے سوئمنگ پول پہنچ گئے۔

جو وہاں سے ہوٹل کے اندر جا رہے تھے کہ قریب بیٹھی ایک لڑکی پہ نظر پڑ گئی۔یہ پہلی نگاہ میں عشق ہو جانے کا معاملہ تھا۔جو اس پہ فریفتہ ہو گئے۔لڑکی کا نام نیلیا ہنٹر تھا۔وہ نیویارک کے مضافات میں رہتی تھی۔والد ایک ہوٹل کے مالک تھے۔جو ہوٹل میں جانے کے بجائے لڑکی کے پاس بیٹھے اور اس سے باتیں کرنے لگے۔نیلیا کو بھی جازب نظر اور زندہ دل نوجوان بھا دیا۔یوں کیوپڈ نے اس پر بھی تیر چلا ڈالا۔بعد ازاں جو نے اپنے دوستوں کو بتایا ’’مجھے اپنی سلطنت کی رانی مل گئی۔‘‘

یہ شادی نہیں ہو سکتی

اب جو ہر ویک اینڈ پر اپنی محبوبہ سے ملنے سکانیٹیلز قصبے جانے لگے جہاں نیلیا رہتی تھی۔یہ تین سو میل کا طویل فاصلہ تھا مگر جو اسے خاطر میں نہ لائے۔انھوں نے نیلیا کو متاثر کرنے کے لیے اسکی بھی سیکھ لی۔لیکن دونوں کے بیاہ میں خاصی رکاوٹیں حائل تھیں۔نیلیا کے والدین نے جو کے بارے میں معلومات لیں تو پتا چلا کہ وہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔پڑھائی میں واجبی ہیں۔پھر ان کا خاندان کیتھولک ہے جبکہ وہ خود پروٹسٹنٹ تھے۔ان عوامل کی بنا پر نیلیا کے والدین بیٹی کا رشتہ جو سے کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔تاہم نیلیا کو جو پسند تھے اور وہ انہی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔

نیلیا نے پھر محبوب پہ زور ڈالا کہ وہ غیرسنجیدگی کو خیرباد کہہ کر تعلیم پر توجہ دیں۔بہتر تعلیمی کارکردگی سے روشن مستقبل کی راہ کھل جاتی اور یوں ان کا بیاہ ہونا بھی ممکن ہوتا۔جو کو بھی احساس ہوا کہ انھیں کچھ بن کر دکھانا ہو گا تبھی وہ محبوبہ کو پا سکیں گے۔1965ء میں ڈیلاوئیر یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے سیراکیوز یونیورسٹی کے لا کالج میں داخلہ لے لیا جہاں نیلیا بھی زیرتعلیم تھی۔یوں وہ محبوبہ کے قریب آ گئے۔جو وکیل بننا چاہتے تھے تاکہ باعزت روزگار کا بندوبست ہو سکے۔ان کی مستقل مزاجی اور نیک نیتی رنگ لائی اور نیلیا کے والدین بیاہ پر رضامند ہو گئے۔اگست 1966ء میں شادی ہوئی۔یوں جو اور نیلیا کی لو اسٹوری کا اختتام خوشگوار رہا۔

میدان سیاست میں داخلہ

1968ء میں جو وکالت کی ڈگری پا کر ولمنگٹن شہر چلے گئے اور وہاں مختلف لا فرمز سے منسلک رہے۔دلچسپ بات یہ کہ ان دنوں وہ ریپبلکن پارٹی کو پسند کرتے تھے۔1970ء میں مگر ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن بن گئے۔رفتہ رفتہ انھیں وکالت سے زیادہ سیاسی سرگرمیاں بھا گئیں۔1970ء میں مقامی کونسل کے کونسلر کاالیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔1972ء میں جو کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔اس سال ریاست ڈیلاوئیر میں سینٹ الیکشن تھا۔ریاستی ریپبلکن سینٹر،جیمز کلیب عوام میں خاصا مقبول تھا لہذا کوئی ڈیموکریٹک امیدوار اس کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں ہوا۔

آخر جو بائیڈن نے جیمز سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا حالانکہ ان کے پاس انتخابی مہم چلانے کی خاطر وسائل بالکل نہ تھے۔یہ انتخابی مہم خاندان والوں نے چلائی۔والد،بیوی بچے اور بہن جلسوں میں شریک ہوئیں۔سب گھر گھر گئے اور لوگوں کو بتایا کہ جو سینیٹر بن کر عوام کے تمام مسائل حل کریں گے۔جیمز کلیب بوڑھا ہو چکا تھا۔وہ اپنی مہم بھرپور طریقے سے نہ چلا سکا۔ اور جو غیر متوقع طور پہ تین ہزار ووٹوں سے جیت گئے۔تب ان کی عمر صرف 29برس تھی۔یوں انھیں امریکی تاریخ کے چھٹے کم عمرترین سینیٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔فتح نے پورے خاندان میں خوشیوں کی لہر دوڑا دی۔جیت کے شادیانے بجنے لگے مگر کسی کو علم نہ تھا کہ جلد ایک بہت بڑا صدمہ ان پہ حملہ کرنے والا ہے۔

اور دنیا زیرزبر ہوئی

ایک ماہ بعد نیلیا تینوں بچے لیے بازار سے گھر جا رہی تھی کہ کار ٹریکٹر سے ٹکرا گئی۔نیلیا مع بیٹی وہیں چل بسی۔دونوں بیٹے زخمی ہوئے۔اس حادثے نے جو کو غم واندوہ سے نڈھال کر دیا۔اب وہ سینیٹر بننا نہیں چاہتے تھے مگر والدین کے اصرار پر اسپتال میں حلف اٹھا لیا۔انھوں نے پھر واشگٹن کے بجائے ولمنگٹن میں رہنے کا فیصلہ کیا۔وہ اگلے چھتیس برس تک روزانہ صبح بذریعہ ریل واشنگٹن جاتے اور شام کو ولمنگٹن آ جاتے۔یہ 190منٹ کا سفر تھا جو ان کی پدرانہ محبت وشفقت کا عکاس ہے۔اپنے آپ کو تھکا کر وہ بچوں کی تعلیم وتربیت پہ بھرپور توجہ دے سکے۔انھیں توجہ دینے کی خاطر ہی جو نے1977ء میں ایک اسکول ٹیچر،جل ٹریسی سے شادی کر لی۔

1988ء میں جو نے ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیداور بننے کی مہم چلائی۔وہ مضبوط امیدوار تھے مگر انکشاف ہوا کہ انھوں نے اپنی تقاریر میں دیگر سیاسی رہنماؤں کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس چوری پر انھیں صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔جو کا کہنا ہے کہ ناتجربے کاری اور بے خبری کے باعث ایسا ہوا۔2008ء میں پھر صدارتی امیدوار بننا چاہا مگر نوجوان بارک اوباما سے شکست کھا گئے۔تاہم اوباما نے ان کا تجربہ اور عوام میں مقبولیت دیکھتے ہوئے انھیں اپنا نائب صدر بنا لیا۔دونوں صدارتی الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔

ایک اور صدمہ

2015ء میں جو پھر ایک ذاتی صدمے سے دوچار ہوئے۔ان کا جوان بیٹا ،بیو بائیڈن ریاست ڈیلاوئیر میں اٹارنی جنرل تھا۔پتا چلا کہ اس کے دماغ میں کینسر ہے۔علاج شروع ہوا جو بہت مہنگا تھا۔باپ سوچنے لگا کہ اپنا گھر بیچ دے تاکہ بیٹے کی مالی مدد ہو سکے۔تاہم دوست احباب کے تعاون اور بچت سے علاج کے اخراجات پورے ہو گئے۔مگر بیو کا کینسر دور نہ ہوا اور وہ چل بسا۔صدر ٹرمپ نے اپنے دور میں جو کے دوسرے بیٹے،ہنٹر پر کرپشن کے الزام لگائے لیکن وہ درست ثابت نہ ہوئے۔

مسلم دوست شخصیت

امریکا میں یہودی ہر شعبہ ہائے زندگی میں چھائے ہوئے ہیں۔اسی لیے ان کے مسلم دشمن اثرات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔جو بائیڈن کا رویّہ بہرحال عالم اسلام کے ساتھ بالعموم دوستانہ رہا ہے۔انھوں نے بطور سینیٹر 1991ء میں عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی۔1994ء میں امریکی حکومت پہ زور دیا کہ وہ بوسنیائی مسلمانوں کو اسلحہ فراہم کرے تاکہ وہ حملہ آور سربوں کا مقابلہ کر سکیں۔

انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ سرب جرنیلوں پہ مقدمے چلائے جائیں۔حالیہ انتخابی مہم کے دوران انھوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں مودی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا ،کہ بھارت ریاست میں انسانی حقوق بحال کرے۔جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ اقتدار سنبھال کر مسلمانوں کو اہم عہدوں پہ فائز کریں گے۔ان کی اعلی سطحی ٹیم میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔یاد رہے، پاکستانی حکومت نے 2008ء میں امریکا اور پاکستان کے مابین دوستی وقربت بڑھانے کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں مملکت کا دوسرا بڑا سول ایوارڈ،ہلال پاکستان عطا کیا تھا۔

تصویر کا دوسرا رخ

جو بائیڈن انسان ہیں۔ناقد ان کی کوتاہیاں بھی نمایاں کرتے ہیں۔مثلاً ان کا دعوی ہے کہ وہ بھی امریکی سرمایہ داروں کی کٹھ پتلی ہیں۔لہذا جواپنی حکومت میں انھیں فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں تشکیل دیں گے۔ان پہ الزام ہے کہ بطور سینیٹر ایسے قوانین کی حمایت کی جن کے باعث آج لاکھوں امریکی طلبہ اربوں ڈالر کے تعلیمی قرضے میں جکڑے جا چکے۔

اسی طرح شعبہ صحت میں انھوں نے انشورنس کمپنیوں کو مالی فوائد دینے والے قوانین بنانے میں حصہ لیا۔2003ء میں عراق پر حملے کی تائید کرنے پر بھی جو تنقید کا شکار ہوئے۔1994ء میں انھوں نے کرائم بل نامی قانون پہ دستخط کیے تھے۔اسی قانون کی آج امریکی جیلوں میں لاکھوں امریکی قید ہیں۔غرض نئے امریکی صدر الزامات سے مبّرا نہیں اور ان کے دامن پر بھی داغ دکھائی دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔