جیسا کپتان، ویسی ٹیم

احتشام بشیر  جمعرات 21 جنوری 2021
کپتان کی عدم توجہی کے باعث باقی کھلاڑی بھی تجاہل عارفانہ کا شکار ہوگئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کپتان کی عدم توجہی کے باعث باقی کھلاڑی بھی تجاہل عارفانہ کا شکار ہوگئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عمران خان وزیراعظم بننے سے قبل اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ لیڈرشپ ٹھیک نہ ہو تو نیچے والے بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔ ملک میں بہتری کےلیے دیانتدار قیادت کو لانا ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان کی شعلہ بنانی سے متاثر ہوکر ہی لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا، اس توقع کے ساتھ کہ ملک میں بہتری لائی جائے گی۔ اور اب بھی ڈھائی سال کا عرصہ گزرنے کے بعد عوام کی وزیراعظم عمران خان سے بہتری کی توقعات وابستہ ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے بھی عوام کو بہتری کی امید دلائی جارہی ہے۔ لیکن خیبرپختونخوا اسمبلی میں اسپیکر مشتاق احمد غنی کی جانب سے بار بار رولنگ اور تنبیہہ کے باوجود بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔

2002 میں جب ایم ایم اے کی حکومت خیبرپختونخوا میں برسراقتدار آئی تو اس وقت بھی بہت سے نئے چہرے ایوان میں دیکھے گئے۔ اسپیکر سے لے کرڈپٹی اسپیکر تک بھی پہلی بار اسمبلی کے رکن بنے، جبکہ وزیراعلیٰ اکرم خان درانی پارلیمنٹ کے رکن رہے اور وہ تقریباً ہر پارلیمانی کارروائی میں بھی شریک رہے۔ اگر دیکھا جائے تو ان کی بطور وزیراعلیٰ حاضری کا تناسب بہتر رہا۔ اسی طرح جب 2008 میں صوبے میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت بنی تو اس وقت بھی کئی نئے چہرے پہلی بار پارلیمان میں نظر آئے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی بھی پہلی بار اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس دور میں جب دہشت گردی عروج پر تھی اور حکومتی ارکان دہشت گردوں کے نشانے پر تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسمبلی کارروائی کو متاثر ہونے نہیں دیا۔ وزیراعلیٰ سمیت اس وقت کے سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور اور میاں افتخار حسین، جن پر کئی بار خود کش حملے بھی ہوئے اور قدم قدم پر موت ان کا پیچھا کررہی تھی، لیکن باوجود اس کے انہوں نے اسمبلی آنا نہیں چھوڑا اور صوبے کے عوام کی نمائندگی کرتے رہے۔

اسی طرح جب 2013 میں پی ٹی آئی کو پہلی بار صوبے میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو پرانے، جوڑ توڑ کے ماہر اور کہنہ مشق پارلیمنٹیرین پرویز خٹک کو صوبے کی حکمرانی کا تاج پہنایا گیا۔ اس دور میں بھی اکثریت نئے چہرے ہی ایوان کی زینت بنے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی پہلی بار حکومت کا حصہ بنے۔ چونکہ حکومتی قیادت پارلیمانی سیاست سے آگاہ تھی، باوجود اس کے کہ صوبے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی متعدد اجلاسوں میں شریک نہ رہے، لیکن حکومتی جواب دہی کےلیے اسمبلی میں حکومتی قیادت موجود رہتی اور اسپیکر کو حکومتی ٹیم کی شکایت کرنے کا موقع نہ ملا۔

2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو صوبے کی تاریخ میں جب دوسری مرتبہ عنان اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا تو حکومتی ٹیم میں چند وزرا کے علاوہ نئے ارکان شامل ہوئے۔ اسی طرح خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی نئے چہرے سامنے آئے۔ محمود خان دوسری بار اسمبلی کے رکن بنے اور اس بار وزارت اعلیٰ کا قرعہ محمود خان کے نام نکلا۔ محمود خان نے پرویز خٹک کے دور حکومت میں سیاحت اور کھیلوں کے حوالے سے کئی منصوبے شروع کیے تھے اور توقع کی جارہی تھی کہ وہ وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بہتر سیاسی کھلاڑی کا کردار ادا کرپائیں گے، لیکن محمود خان پارلیمان سے باہر ایسی الجھنوں میں پھنس گئے کہ وہ اسمبلی کا راستہ ہی بھول گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیم کے کپتان کی عدم توجہی کے باعث باقی کھلاڑی بھی تجاہل عارفانہ کا شکار ہوگئے، اور یوں اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کئی سوالات نے جنم لیا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاسوں میں وزرا کی حاضری کم ہونے ساتھ محکموں کے افسران بھی غیر حاضر رہنے لگے، جس پر اسپیکر کی جانب سے کئی بار برہمی کا اظہار بھی کیا گیا۔ رولنگ جاری کی گئی کہ ایڈیشنل سیکریٹری سے کم افسر اسمبلی میں نہ آئے اور یہ احکامات بھی جاری کئے گئے کہ سرکاری محکموں کی جانب سے اسمبلی اجلاسوں میں نمائندگی نہ ہونے پر کارروائی کی جائے گی۔ لیکن اس کے باوجود بھی کوئی ٹس سے مس نہ ہوا اور اسمبلی اجلاسوں کی بے توقیری کی گئی۔ اپوزیشن ارکان کی جانب سے بار بار یہی نکتہ اٹھایا گیا کہ ان کے لائے گئے بزنس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس ضمن میں گزشتہ اسمبلی اجلاس میں بھی اسپیکر، ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کے غیر سنجیدہ رویے پر شدید برہم ہوئے اور معاملہ وزیراعلیٰ کے سامنے اٹھانے کی ہدایت کی۔ یہاں تک کہ اسپیکر نے وزرا کی غیر حاضری کا سارا غصہ سرکاری محکموں کے افسران پر نکالا اور تین محکموں کے افسران کو ایوان سے باہر نکلنے کا حکم دیا۔

اگر اس تناظر میں دیکھا جائے کہ اسپیکر نے تو اپنا حق ادا کردیا لیکن کیا تبدیلی کے دعوے داروں نے اس تبدیلی کا خواب دکھایا تھا کہ عوام کے منتخب نمائندے ایوان سے غیرحاضر رہیں اور عوام کے مسائل سے پہلوتہی کا ارتکاب کرتے رہیں؟

بات وزاعظم کے انہی الفاظ پر ختم کرتے ہیں کہ لیڈرشپ ٹھیک ہو تو ٹیم اپنا کام ایمان داری سے کرتی ہے۔ اسمبلی اجلاسوں کی اگر حاضری رپورٹ دیکھی جائے تو وزیراعلی کئی اجلاسوں میں شریک نہیں ہوئے۔ دسویں سیشن سے اب تک 18 سیشن ہوچکے ہیں اور انہوں نے صرف ایک اجلاس میں شرکت کی زحمت گوارا کی ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اگر وزیراعلیٰ خود پارلیمان کو وقت دیتے تو آج اسپیکر وزرا اور بیوروکریسی کی لاپرواہی اور عدم دلچسپی کا رونا نہ روتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔