کورونا وائرس کی ویکسین اور مہنگائی میں اضافہ

ایڈیٹوریل  جمعرات 21 جنوری 2021
مہنگائی کا سونامی تبدیلی کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ فوٹو: فائل

مہنگائی کا سونامی تبدیلی کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس سے تاحال دنیا بھر میں اموات کا سلسلہ جاری ہے، گو ابتدائی طور پر متعدد ممالک میں ویکسین لگانے کا عمل شروع ہوچکا ہے، لیکن یہ ساراعمل خاصا صبر آزما اور طویل ترین ہے اور اس میں مہینوں سے لے کر برسوں لگ سکتے ہیں، کیونکہ سب کچھ پلک جھپکتے میں ہونا ممکن نہیں ہے، البتہ کورونا ویکسین کے آنے سے امید کا ایک چراغ ضرور روشن ہوا ہے۔

بنی نوع انسان اورمتاثرہ مریضوں میں ایک امید اور امنگ پیدا ہوئی ہے کہ اس مرض سے بچاؤ آنے والے وقت میں ممکن ہوسکے گا، معمولات زندگی بحال ہوں گے اور سماجی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں گی۔

تاریخ انسانی میں اس سے قبل بھی پھیلنے والی وباؤں کے ہاتھوں لاکھوں ، کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے ، گزشتہ برس کووڈ19نے نظام زندگی کو جس طرح مفلوج کیا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے، یہ صورتحال تشویش کا باعث ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ ماہرین اس سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آرہے ہیں اور اب ویکسین کی تیاری کے بعد امیدکی جاسکتی ہے کہ جلد اس وباء کے پھیلاؤ پر قابوپالیا جائے گا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے باعث اگلے روز مزید 28 افراد کے جاں بحق ہونے سے مجموعی اموات کی تعداد 11 ہزار 55 ہو گئی جب کہ اس وقت ملک میں2ہزار سے زائد مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔دوسری جانب سندھ حکومت نے کورونا ویکسین خریدنے کے لیے ہنگامی فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

رواں سال ابتدائی طورپر ویکسین خریداری کے لیے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں سندھ کے ایک لاکھ 25 ہزار فرنٹ لائن ورکرز کو ویکسین لگائی جائے گی۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا ہے کہ وفاق نے ویکسین کی خریداری میں غیر معمولی تاخیر کرلی ہے،کئی ممالک میں ویکسی نیشن جاری ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر صوبوں اور وفاق کے درمیان مکمل ہم آہنگی قائم ہونی چاہیے جو بھی اقدامات اٹھائے جائیں ان میں باہمی اتفاق رائے کو اولیت دی جائے اور بالخصوص وفاق کا فرض ہے کہ وہ صوبوں کو ساتھ لے کر چلے کیونکہ یہ انسانی جانوں کی بقا کا مسئلہ ہے ، ہمیں جلدازجلد ملک میں ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔اسی تناظر میں یہ خبر خوش آئند ہے کہ پاکستان نے چین کی کمپنی فائنو فارم کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کی ہنگامی حالات میں استعمال کی منظوری دے دی ہے۔

اس منظوری کے بعد ویکسین کو پاکستان میں لانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، جس کی 11 لاکھ ڈوز کی بکنگ کرائی جاچکی ہے۔ اس سے قبل 16 جنوری کو ڈریپ نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینیکا کی کووڈ 19 ویکسین کی پاکستان میں استعمال کی منظوری دی تھی، تاہم اس کی آمد جلد متوقع نہیں ہے۔ جہاںکورونا وائرس کے حوالے سے یہ سارا منظرنامہ ہماری نگاہوں کے سامنے آچکا ہے، وہیں ویکسین سے متعلقہ قیاس آرائیوں نے بھی زور پکڑ لیا ہے۔ابہام کی فضا پیدا کرنے میں سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے، جہاں خبر کے مستند ہونے اور تصدیق کے ذرائع نہیں ہیں۔

ماہرین طب کے مطابق کووڈ ویکسین بیمار پڑنے سے تحفظ دیتی ہے، دراصل بیمار پڑنے سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ بہت سے لوگ جنھیں کووڈ تھا وہ معمولی بیمار تھے، کچھ شدید بیمار جن کے صحت پر طویل مدتی اثرات ہوسکتے ہیں یا وہ مرسکتے ہیں۔ کووڈ ویکسین لینے سے ڈی این اے میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔سیدھی بات ہے کہ ویکسین خطرناک نہیںہے نہ ہی اس میں کسی زندہ وائرس ہونے یا ہمارے ڈی این اے نظام کو نقصان پہنچانے کی علامت ہیں ، لہذا ذہنوں سے اس ابہام اور غلط فہمی کو دورکرلینا چاہیے کہ کووڈ ویکسین لگوانے سے ہم بیمار نہیں پڑسکتے۔

تمام ویکسین مدافعتی نظام کو یہ سکھاتی ہیں کہ وائرس کو کیسے پہچاننا اور لڑنا ہے، بعض اوقات یہ عمل بخارجیسی علامات کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم یہ معمول کی بات ہے اور ان علامات سے ظاہرہوتا ہے کہ جسم اس وائرس سے تحفظ فراہم کررہا ہے جو کووڈ19کا سبب بنتا ہے۔

ویکسین لینے کے چند ہفتے بعد جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے کوئی شخص اس وائرس سے ویکسین لینے کے عین قبل یا فوری بعد کووڈ کا شکار ہوجائے اوربیماررہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ویکسین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اتنا وقت نہیں ملاہے، کووڈ ویکسین لینے کے بعد وائرل ٹیسٹ میں کووڈ 19کا ٹیسٹ مثبت نہیں آئے گا۔

ویکسین کو تیار کرنے کے لیے بیجنگ انسٹیٹیوٹ کے محققین نے چین کے اسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں سے کورونا وائرس کی 3 اقسام کو حاصل کیا تھا اور اس میں سے اس قسم کا انتخاب کیا جو بندر کے گردوں کے خلیات میں بہت تیزی سے اپنی تعداد بڑھانے میں کامیاب ہوئی۔ ویکسین کے لیے اس وائرس کی ناکارہ قسم کا استعمال کیا گیا ہے جو بیمار نہیں کرتی بلکہ مدافعتی نظام کی تربیت میں مدد فراہم کرتی ہے۔

ماہرین مزید کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کووڈ کا شکار ہوا اور اب صحت مند ہے تو اسے ابھی بھی کووڈ ویکسین لینے کی ضرورت ہے کیونکہ کووڈ19سے وابستہ شدید صحت کے خطرات ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ کووڈ19کے ساتھ دوبارہ انفیکشن ممکن ہے،اس لیے ویکسین کی ضرورت ہے۔

اس ساری صورتحال کو ہم نے انتہائی مختصر اور آسان پیرائے میں بیان کردیا ہے تاکہ درست حقائق تک ایک عام پاکستانی کی رسائی ممکن ہوسکے ، لیکن ان پاکستانیوں کا کیا کیجیے جو ہر سیریس بات کو نان سیریس لیتے ہیں ، اب اگر ویکسین کی آمد ہوگئی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم احتیاط کا دامن چھوڑ دیں ، اور ایسا طرز عمل اختیار کریں جس سے نہ صرف اپنی بلکہ دوسرو ں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیں ۔ بات سادہ سی ہے کہ ویکسین لگوانے کے باوجود ہمیں ماسک پہننا اور سماجی دوری اختیار کرنا ہوگی۔

اس وبا کی روک تھام کے لیے تمام ذرائع جو ہمیں میسر ہیں، ان کو استعمال میں لانا دانشمندی کی علامات ہے۔ قدرتی قوت مدافعت اور ویکسین سے پیدا قوت مدافعت دونوں ہی کووڈ 19سے بچاؤ کے لیے اہم ہیں، لہذا ہمیں لاپرواہی کا چلن ترک کرکے دوبارہ احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا ، اسی میں ہماری زندگی کی بقا مضمر ہے۔

ایک جانب کورونا وائرس کے وار جاری ہیں تو دوسری جانب مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ منافع خورمافیا نے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کرکے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے، گھی اور کھانے پکانے کے تیل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں ، اگلے ہفتے 5 لیٹر برانڈڈ کوکنگ آئل کا پیک 1480 روپے کا تھا جو اب 1625 روپے کی نئی قیمت کو پہنچ چکاہے۔ اسی طرح اوسط درجے کے تیل کی قیمت 250 روپے فی لیٹر ہے جو 14 جنوری کو 200 روپے تھی جب کہ اعلیٰ درجے کا تیل 250 روپے کے مقابلے میں اب 300 روپے فی لیٹر ہوچکا ہے۔

علاوہ ازیں چینی کی قیمت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 66 کروڑ 10 لاکھ ڈالر مالیت کی 24 لاکھ 89 ہزار ٹن گندم درآمد ہوئی جب کہ گندم کی فی ٹن اوسط قیمت 265 ڈالر رہی۔ اس وقت برانڈڈ فلور ملز کا 5 کلو کا تھیلا 330 کے بجائے 360 روپے جب کہ 10 کلو کا تھیلا 680 کے بجائے 700 سے 720 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔

اسی طرح دالوں کی درآمدات مقدار میں 13 فیصد تک بڑھ کر 5 لاکھ 68 ہزار 206 ٹن تک پہنچ گئی جب کہ مالیت میں 17 فیصد بڑھ کر 28 کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہی، دالوں کی فی ٹن اوسط قیمت 487 ڈالر سے بڑھ کر 506 ڈالر ہوگئی۔ یوں حال ہی میں ہول سیل مارکیٹ میں دالوں کی قیمتیں 20 روپے فی کلو گرام تک بڑھ گئیں اور اس وقت ہول سیل قیمت میں چنے کی دال 140 روپے، مونگ 240 روپے، مسور 130 روپے اور ماش 240 روپے فی کلو میں فروخت ہورہی ہے۔

ان ہوش ربا اعدادوشمار کی موجودگی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکومت کے ان گنت متعلقہ ادارے غیرفعال ہوچکے ہیں ، سیکڑوں اہلکار اورافسران صرف دفاترمیں حاضر ی لگا کر اپنی تنخواہیں وصول کررہے ہیں، عملی طور پر فیلڈ میں کوئی متحرک نہیں ہے،حد تو یہ ہے کہ گندم، چینی اور پام آئل کی درآمدات میں اضافہ بھی عوام کو قیمتوں میں کسی قسم کا ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔مرے پر سودرے کے مصداق ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتیں 2.95 روپے اضافے سے 113 روپے 19 پیسے فی لیٹر ہونے سے ٹرانسپورٹیشن (نقل و حرکت) کی لاگت مزید بڑھ گئی ہے۔

مہنگائی کی شرح میں تشویشناک حدتک اضافے نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں ، کچن کا خرچ چلانا ناممکن ہوگیا ہے ، ملک کی مڈل کلاس کا ایک بڑا حصہ تیزی سے غریب ہورہا ہے اور غریب سے غریب ترہوتاجارہا ہے، رہی سہی کسر معاشی عدم استحکام نے پوری کردی ہے، اگر بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مزید غفلت اور لاپرواہی کا عمل جاری رکھا گیا تو عام آدمی کا جینا تقریباً ناممکن ہوجائے گا جوکہ ملک میں خودکشی کے رجحان کو پروان چڑھائے گا۔

یہ ناامیدی کی انتہاء ہوجائے گی اور جمہورکا ایمان جمہوریت سے اٹھ جائے گا، مہنگائی کا سونامی تبدیلی کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گا، لہذا اس بھیانک صورتحال سے بچنے کے لیے حکومت جنگی بنیادوں پر مہنگائی کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے اور اسے جمہوریت کے ثمرات مل سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔