جمہوری ممالک اوردایاں بازو

زبیر رحمٰن  جمعرات 21 جنوری 2021
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

درحقیقت نوآبادیاتی نظام کے تقریباً خاتمے کے بعد وہ ممالک سیاسی طور پرآزاد ہوگئے۔ اب وہ خود انحصاریت کی جانب رجوع ہوئے اور وہاں مقامی سرمایہ دار جب سرمایہ کو مرکوزکرنے لگے تو عالمی سامراج ہوشیار ہو گیا اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک تشکیل دیا۔ اب اس کا مقصد یہ ہوا کہ سامراجیوں سے قرضے لیں اور انھی سے درآمد کریں۔ اس طرح سے سامراجیوں کے پاس دولت کا انبار اور پسماندہ ملکوں کے پاس افلاس، غربت اور بھوک کا راج قائم ہو گیا۔

پاکستان سمیت اس وقت دنیا کے کئی جمہوری ممالک کولہو کا بیل بنے ہوئے ہیں۔ ان بڑے رقبے اور آبادی والے ملکوں میں جب پیداواری قوتیں، محنت کش، عوام اور شہری اپنے حقوق کے لیے برسر پیکار ہوتی ہیں اور ہلکا سا ریڈیکل راہ اختیارکرنے کی جانب پیش قدمی کرتی ہیں تو ان کی پیش رفت کو روکنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کو حکومت پر براجمان کرکے عوام پر مسلط کردیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فرانس میں ڈیڑھ سال سے پیلی جیکٹ تحریک جسے انارکسٹوں نے پیش رفت کی اور تمام بائیں بازوکو التجا کرکے اس تحریک میں شریک کیا گیا تو فرانس کے صدر میکرون کو سخت اقدامات پر دھکیلا گیا۔

اس کے باوجود انھوں نے اپنے 12 مطالبات منوا لیے۔ ہر چند کہ ان کی کوئی پارٹی تھی اور نہ کوئی لیڈر، ہاں مگرکچھ مطالبات نہیں منوا سکے۔ جیساکہ غیر ملکوں میں نیٹو میں شامل فرانس کی افواج کو غیر ملکوں سے واپس بلانا، نیٹو سے علیحدگی اختیارکرنا، آئی ایم ایف اور ڈبلیو بی سے نکل آنا۔ اسی طرح امریکا نے مہاجرین مزدوروں کی پذیرائی، لاطینی سیاہ فام اور خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا تھا تو عالمی سامراجی قوتوں نے ٹرمپ کو عوام پر مسلط کرکے اس تحریک کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔

اسی طرح برطانیہ جو ہمیشہ آزادی اور جمہوریت کی الاپ گردانتا ہے جب کہ آج بھی اس کے ماتحت 30 غلام قومیں تاج برطانیہ (کوئن الزبتھ) کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے۔ یہاں بھی چینی خاص کرکے کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت تیس غلام قوموں میں شہری بغاوت کرتے ہیں یا ترقی پسندانہ پیش قدمی کرتے ہیں تو ان پر دائیں بازو کی حکومتوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ جیساکہ کینیڈا اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی آدھی آبادی جب سر اٹھاتی ہے تو ان پر بھی دائیں بازو کی حکومت کو مسلط کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکا کے سوشلسٹ لیڈر برنی سینڈرز اور برطانیہ کے جیری کوربون جب لیبر پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی میں نمایاں حیثیت اور مقام حاصل کرنے جا رہے تھے تو ان کے مقابلے میں بورس جانسن، ڈونلڈ ٹرمپ کو مسلط کیا گیا۔

بھارت میں انقلابی شعور اور انقلابی اقدامات ہوتے رہتے ہیں۔ مزدوروں کی بے شمار ہڑتالیں ہوئیں۔ ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے نے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر نریندر مودی کو دوبارہ عوام مسلط کر کے ترقی پسندوں کی راہ روک لی۔ اسی طرح پاکستان میں ایک حد تک جمہوری قوتیں اور مزدور کسان، سرکاری ملازمین، ڈاکٹرز، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، نرسز اور طلبا کی ریڈیکل تحریکوں کو روکنے کے لیے بھی کام کیا گیا۔ ویسے تو آمروں کو کسی سیاسی جماعت نے اقتدار سنبھالنے کے لیے دعوت نہیں دی تھی سوائے اصغر خان کے جنھوں نے جنرل ضیا کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی دعوت دی تھی۔

ان تمام ادوار میں جب بھی ریڈیکل فورسز نے پیش قدمی یا کچھ مثبت اقدام کیا تو دائیں بازو نے شب خون مارا۔ اب تو سوشلسٹ بلاک رہا نہیں تو پھر نیٹو کی کیا ضرورت پڑی۔ اس لیے کہ عوام کی قوت بموں، توپوں، جدید ترین اسلحے سے زیادہ اور مضبوط ہوتی ہے۔ اس وقت عالمی سرمایہ داری انتہائی بحران میں مبتلا ہے۔ عالمی گروتھ ریٹ زوال کی جانب گامزن ہے۔ عوام کی قوت خرید کی کمی کی وجہ سے زائد پیداواری بحران کا شکار ہے۔ یورپ اور امریکا کی کل آبادی تقریباً 80 کروڑ کی ہے۔

امریکا اور یورپ سول ایوی ایشن اور کمیونی کیشن میں پیش پیش تھے، مگر اب 737 کے سیکڑوں امریکی بوئنگ گراؤنڈ ہیں۔ ادھر چین نے 5G کا اجرا کرکے ابلاغ میں برتری کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکا میں ایک ہنرمند مزدور ایک گھنٹے کا معاوضہ 10 ڈالر لیتا ہے اور یورپ کا مزدور ایک گھنٹے کا معاوضہ 11 یورو لیتا ہے۔ وہی ہنرمند کاریگرکو چین میں 70 سینٹ ملتا ہے۔ لاگت کم آتا ہے اور مصنوعات کم قیمت میں چین فروخت کرتا ہے۔

اب تو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی کابینہ کو خبردار کیا ہے کہ آپ لوگ اگر عوام کے مسائل حل کرنے میں چوکنا اور فعال نہیں ہوں گے تو اتنے زیادہ مشیروں اور وزیروں کی ضرورت نہیں۔ ہم اس پر پختہ نظر رکھیں گے اور ضرورت پڑی تو کابینہ کو چھوٹی اور موثر بنائیں گے۔ یہ نہایت اچھا فیصلہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔