پاکستان کی شرح ترقی اور آئی ایم ایف رپورٹ

ایم آئی خلیل  ہفتہ 23 جنوری 2021

آئی ایم ایف کی جانب سے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں 2021 میں پاکستانی معیشت کے لیے جو نقشہ کھینچا گیا ہے، اس کے مطابق اگلے سال پاکستان کی معاشی ترقی ایک فیصد رہنے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوری تا مارچ مزید مالی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، اگر ہم پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح کا مختلف سالوں میں جائزہ لیتے ہیں توکئی سال ایسے گزرے ہیں جب معاشی ترقی کی شرح ایک فیصد یا اس سے کم یا قدرے زیادہ بھی رہی ہے، لیکن پاکستان کی معیشت جس کا انحصار زراعت پر ہے۔

پاکستان کے لیے سب سے زیادہ تباہ کن صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب ملک میں زرعی فصلوں کی پیداوار مختلف وجوہات کے باعث کم ہوجاتی ہیں۔ مثلاً کبھی کپاس کی پیداوار میں انتہائی کمی کبھی گندم اتنی کم پیدا ہوتی ہے کہ درآمد کرنے کی ضرورت پڑجاتی ہے، اگر معاشی ترقی پر نظر ڈالی جائے تو 1971 میں0.47 فیصد اور 1972 میں 0.81 فیصد شرح ترقی تھی، جب کہ 1970 میں یہ شرح 11.35 فیصد تھی اور 1965 میں یہ شرح 10.42 فیصد تھی۔ یقیناً یہ شرح ترقی ایسی تھی کہ دشمن ممالک کو ناپسندیدہ تھی لہٰذا جلد ہی پاکستان کو دولخت کردیا گیا۔

1947 ایسا سال تھا جب عالمی معیشت تیل کی قیمت میں اضافے کے باعث متاثرہوچکی تھی، انھی دنوں پاکستان میں بھی ڈالرکی قدر میں اضافہ ہوتا رہا۔ تیل کی قیمت بڑھی اور دیگرکئی اسباب نے مل کر مہنگائی کا طوفان برپا کردیا۔ جس سے پاکستان کی معاشی ترقی کو بھی زک پہنچی اور معاشی ترقی کی شرح کم ہوکر ساڑھے تین فیصد پرآگئی، ان دنوں لوگ سخت پریشان تھے۔ اول ڈالرکی قیمت 4 روپے سے بڑھ کر 9 روپے تک آ پہنچی تھی۔ مہنگائی نے ہر شخص کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کرایوں میں شدید اضافہ ہوا کیونکہ پٹرول کی قیمت خاصی بڑھ چکی تھی۔

چند سال قدرے بہتر گزرے تھے کہ مارچ 1977 کے انتخابات کے بعد یکایک سیاسی صورتحال کی تبدیلی نے معیشت پر اپنے مہیب اثرات ڈالے۔ کتنے ہی کارخانوں میں کام کی رفتار سست ترین ہوکر رہ گئی۔ ہڑتال، احتجاج نے معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے اور شرح ترقی 4 فیصد تک آگئی۔

اس کے بعد معیشت کے ماہ و سال نے اچھے دن دیکھنا شروع کیے حتیٰ کہ 1980 میں شرح ترقی 10.22تک جا پہنچی تھی۔ ان دنوں ایسا کچھ نہیں تھا کہ آئی ایم ایف کو اگر قسطیں ادا کرنی ہیں لہٰذا ملک پر مالی دباؤ بڑھ گیا، ڈالرکی طلب بڑھ گئی، ڈالر ریٹ بڑھ گئے۔ ملکی معاشی مشکلات بڑھنے اور قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث ایک بار پھر مزید قرض لینے کی ضرورت پڑ جاتی۔

بہرحال اس عشرے کے دوران ملکی شرح ترقی 7 تا 10 کے درمیان رہی۔ البتہ 1990 کے عشرے کے آغاز کے ساتھ شرح نمو میں کمی ہوکر ساڑھے چار فیصد تک آگئی۔  1993معیشت پر ایسا سال آیا جب شرح افزائش 1.76 فیصد رہی پھر بہتر ہوتی ہوئی صورتحال میں یکایک خرابی پیدا ہوئی۔ جب 1997 میں شرح افزائش 1.01 فیصد تک گر چکی تھی۔ جیساکہ اب 2021 کے لیے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ شرح ترقی ایک فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ اگرچہ حکومتی اندازے اس سے مختلف ہیں۔ اس کے بعد صورتحال میں بہتری آنا شروع ہوئی۔

نائن الیون کے بعد پاکستان نے جیسے ہی عالمی سیاست میں یوٹرن لیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کی ہمنوائی میں آگے بڑھتا رہا۔ پاکستان کو بھی مختلف طریقوں سے امداد دی جاتی رہی۔ لہٰذا 2004 میں معاشی ترقی کی شرح 7.55فیصد تک بھی رہی لیکن 2008 کے انتخابات ہوئے۔ پاکستان نے قرض کی اپیل کی، جسے عالمی برادری نے سنا ان سنا کردیا۔

نئی حکومت نے 100 ارب ڈالر کی ضرورت ظاہر کی۔ لہٰذا بالآخر آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا جس نے معیشت کے اضمحلال، نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کڑوی گولی تجویز کی۔ یعنی ایسی بہت سی شرائط منوائی گئیں جنھیں معیشت کے لیے بار گراں سمجھا گیا۔

عوام نے ناگواری کا اظہار کیا۔ کیونکہ بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ بڑھنے کے ساتھ ہی ڈالر 80 روپے تک جا پہنچا۔ لہٰذا 2008 میں شرح ترقی گر کر 1.7 فیصد اور پھر 2010 کے سیلاب نے زرعی پیداوارکو تباہ کیا۔ نتیجے میں پاکستان کی معیشت کی کارکردگی بھی انتہائی خراب ہی رہی لہٰذا شرح ترقی 1.6 فیصد رہی، پھر صورتحال میں بہتری آگئی۔ جب 2016 تا 2018 معاشی ترقی کی شرح 5 اور 6 فیصد تک رہی۔

اسی دوران اگست 2018 میں نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی کسی قدر پس و پیش کے ساتھ جب آئی ایم ایف کے ساتھ قرض لینے کی بات ہوئی اور اس میں جیسے ہی کچھ تاخیر ہوئی اس کے ساتھ ہی ڈالر ریٹ 110 روپے فی ڈالر سے بڑھ کر 142 روپے فی ڈالر تک جا پہنچا۔ اس طرح معیشت کے ماحول کو افواہوں، خدشات نے خراب کیا، پھر صنعتی اشیا کی لاگت بڑھتی رہیں۔ معیشت میں بے یقینی کی کیفیت طاری رہی۔ جس کے باعث اس سال معاشی ترقی کی شرح انتہائی حد تک گر کر ایک فی صد تک آ چکی تھی۔ 2021 کے لیے ایک فیصد کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

جب کہ حکومت کا خیال ہے کہ معاشی ترقی کی شرح 2.1 فیصد ہو سکتی ہے۔ جہاں تک حکومتی ہدف کا تعلق ہے ایسا ممکن ہے۔ بشرطیکہ آیندہ چند ماہ پاکستان اپنے مالی مسائل پر قابو پالیتا ہے۔ اس وقت کئی ملکوں کو قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اگرچہ بڑھ رہے ہیں۔ ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے، لہٰذا قرضوں کی ادائیگی کے بعد ہی معیشت میں قدرے بہتری کے امکانات ہیں اور یہ امکانات زیادہ روشن ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔