طنزومزاح : آبادی گھٹاؤ ملک چلاؤ

محمد عثمان جامعی  اتوار 31 جنوری 2021
دیکھا کس طرح دو تین لاکھ پاکستانی کم ہوگئے! دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی پوچھے کہ نیاپاکستان کہاں ہے بھیا؟فوٹو : فائل

دیکھا کس طرح دو تین لاکھ پاکستانی کم ہوگئے! دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی پوچھے کہ نیاپاکستان کہاں ہے بھیا؟فوٹو : فائل

بھئی بات تو سولہ آنے ٹھیک ہے ’’بائیس کروڑ آبادی کا ملک کون چلاسکتا ہے‘‘، اور جب حکومت چلانے کی تیاری بھی نہ ہو تو دل یہی چاہتا ہوگا کہ ’’چل چلیے دنیا دے اس نکڑے، جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہوئے‘‘ یا ملک چلانے کے لیے حکومت کریے ’’اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو‘‘، لیکن جا بھی نہیں سکتے، ورنہ تبدیلی کیسے آوے گی، اور کوئی سننے والا نہ ہوا تو وعدوں بھری تقریر کسے سنائی جاوے گی۔

وزیراعظم کی اس الجھن اور پریشانی نے ہمیں بھی پریشان کردیا اور الجھا دیا، بہت سوچا کہ اپنے وزیراعظم کو اس الجھن سے کیسے نکالیں؟ آخر دماغ سوزی کے بعد کچھ ترکیبیں سوجھ ہی گئیں۔

ترکیبیں بتانے سے پہلے بات ہوجائے تیاری نہ ہونے کی، اس کا تو اب کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم تو سمجھے تھے تیاری کروا کر حکومت میں لایا جارہا ہے، اب انکشاف ہوا ہے کہ اُن پر لانے اور ان پر آنے کا شوق طاری تھا، کوئی تیاری نہیں تھی۔ چلیے کوئی بات نہیں، لیکن ہم سے پوچھ لیا جاتا تو ہم تجویز دیتے کہ جس طرح جنگی مشقیں کی جاتی ہیں اسی طرح دو ڈھائی سال حکومت چلانے کی ’’مشق‘‘ کے لیے دیے جائیں۔ اب ظاہر ہے جنگ اور ’’مشق‘‘ میں سب جائز ہوتا ہے۔ یوں کم ازکم عوام کو پتا تو ہوتا کہ وہ اور ملک تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں۔ چلو پتا تو چل ہی گیا کہ عشق اور ’’مشق‘‘ چُھپائے نہیں چُھپتے۔

خیر جو ہوا سو ہوا، اب تو مسئلہ یہ ہے کہ بائیس کروڑ آبادی کا ملک کیسے چلایا جائے؟ سیدھا سا حل ہے کہ آبادی گھٹاؤ ملک چلاؤ۔ دراصل ملک بھی تانگے کی طرح ہوتے ہیں، سواریاں زیادہ ہوں تو گھوڑا ہانپنے لگتا ہے، غلط فہمی کی بنیاد پر یہ سمجھا جاتا ہے ’’کَل کا گھوڑا‘‘، یعنی وہ گھوڑا جو کَل پُرزوں کے ذریعے چلے، ٹپاٹپ دوڑتا سواریوں کو منزل تک پہنچا دے گا، مگر کل پُرزوں کے اپنے اتنے پَر پُرزے نکلے ہوتے ہیں کہ گھوڑے کو سمجھ میں نہیں آتا کہ جاؤں تو جاؤں کہاں؟ ان پریشان اور ’’کنفیوز‘‘ گھوڑوں کے علاوہ ایسے گھوڑے بھی ہوتے ہیں۔

جنھیں چلنے کے لیے خالی سڑک چاہیے، چناں چہ ٹانگے والا ’’میری چلی ہے گھوڑا گاڑی بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘‘ کہتا سڑک خالی کراتا رہتا ہے، آخر ایک دن ایسے بدحواس اور نخریلے گھوڑوں سے تنگ آکر تانگے والا گھوڑے بیچ کر سوجاتا ہے۔ ملک کے لیے کشتی کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔ کشتی کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔‘‘ بعض اوقات ناخدا ہی کشتی پر بوجھ ہوتا ہے، ایسے ہی ناخدا کے بارے میں عبدالحمید عدم نے کہا تھا:

کشتی چلارہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں ناخدا کے ساتھ

عدم نے کچھ بھی کہا ہو، لیکن جب ’’قمر‘‘ نے کہہ دیا کہ ’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘ تو بوجھ ہی اتارنا چاہیے۔ یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ یہ مصرعہ معروف شاعر قمرجلالوی کا ہے، یہ وہی قمر جلالوی ہیں جن کا شعر ہے،’’کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو، نہ جانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو‘‘، قمر کا ایک اور شعر بھی ملاحظہ کیجیے:

میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں، فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے

قمر بزمِ انجم کی مجھ کو میسرصدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

ان اشعار سے آپ یقیناً قمر کی عظمت اور حیثیت کے قائل ہوگئے ہوں گے، اور جان گئے ہوں گے کہ ہم عدم کے خدشے پر قمر کے قول کو کیوں فوقیت دے رہے ہیں۔

دیکھیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی، اس سے پہلے کہ بات ہاتھ سے نکلے ہم حسب وعدہ آبادی گھٹانے کے کچھ طریقے پیش کیے دیتے ہیں: پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ طیارے بھر بھر کے بیرون ملک بھیجے اور مسافروں سمیت پکڑوائے جائیں، طیاروں کو بھرنے کے لیے انھیں چلانے کا فریضہ مِنی بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کو سونپا جائے۔ یوں بیٹھے، کھڑے، ایک دوسرے پر چڑھے، پھنسے، طیارے کے پروں سے لٹکے اور چھت پر تشریف دھرے دو ڈھائی ہزار پاکستانی ہر پرواز سے بیرون ملک روانہ کیے جاسکیں گے۔

دیکھا کس طرح دو تین لاکھ پاکستانی کم ہوگئے! دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی پوچھے کہ نیاپاکستان کہاں ہے بھیا؟ تو اسے ساحل پر لے جاکر کشتی میں بٹھا اور کہہ دیا جائے، ’’وہ آگے ہے، جہاں تیل نکل رہا ہے۔‘‘ کوئی چار پانچ کروڑ پاکستانی یوں آناًفاناً ’’سمندر پار‘‘ پاکستانی ہوجائیں گے۔ تیسرا طریقہ تو ان سے بھی آسان ہے۔ جس سرکاری عملے نے کراچی میں مردم شماری کی اسی سے ملک بھر میں مردم شماری کرائی جائے، یہ دراصل ’’مدغم شماری‘‘ ہوگی، جس میں سو دوسو افراد کو ایک دوسرے میں ’’مدغم‘‘ کرتے ہوئے انھیں ایک گنا جائے گا۔

اب بائیس میں سے بچے گیارہ کروڑ، اور کم کرنا ہیں؟ چلیے کیے دیتے ہیں۔ چوتھا طریقہ۔۔۔۔لو جی مسئلہ پانی کردیا۔ اعلان کردیں کہ ایک عظیم (گرینڈ) قرعہ اندازی ہوگی، بائیس کروڑ پرچیوں میں سے جو پندرہ لاکھ کھلیں گی، انھی پرچی والوں کو پاکستانی تصور کیا جائے گا، باقی ماندہ سے کہہ دیا جائے گا، جس تبدیلی کا وعدہ تھا، وہ تبدیلی آنہیں رہی آگئی ہے، مگر آپ میں آئی ہے، اب آپ پاکستانی نہیں رہے۔

اس طرح ہاتھ کے ہاتھ نیا پاکستان بھی بن گیا، جب آپ بجلی، گیس، پانی نہ آنے کی شکایت، نوکری نہ ملنے کا شکوہ، نوتعمیر شدہ پچاس لاکھ مکانوں کی تقسیم میں ٹھینگا دکھانے کا گلہ اور حکومت کی طرف سے لگائے گئے کروڑوں درختوں کے سائے میں بیٹھنے کی ممانعت پر واویلا کریں گے تو آپ کو ایک ہی جواب ملے گا۔۔۔چوں کہ آپ پاکستانی نہیں اس لیے مطلوبہ سہولت آپ کو میسر نہیں۔۔۔تب آپ کو لگے گا اور بہت زور سے لگے گا کہ نیا پاکستان بن گیا ہے، جو اتنا نیا ہے کہ آپ کے لیے بالکل اجنبی ہے۔ البتہ تب بھی آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔

لیجیے صاحب! آبادی گھٹا کر پندرہ لاکھ کا ملک بنا دیا اب خوش! اتنی آبادی کا ملک چلے گا؟ یا اور کم کرنا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔