یہ تھے کراچی کے بادشاہ

محمد عثمان جامعی  اتوار 7 فروری 2021
اتنے سارے بادشاہوں کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ کراچی میں ان کی یادگاریں اور ان سے منسوب تاریخی عمارات نہ ہوں۔

اتنے سارے بادشاہوں کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ کراچی میں ان کی یادگاریں اور ان سے منسوب تاریخی عمارات نہ ہوں۔

لاہور والو! تمھیں مبارک ہو، تمھارے شہر کو نیویارک ٹائمز نے رواں سال دنیا کے 52 بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کرلیا ہے۔ اور ہاں، یہ مبارک باد ہم خوشی خوشی نہیں بڑے دُکھی دل کے ساتھ دے رہے ہیں، کیوں کہ ہمارے شہر کراچی کو اس فہرست میں جگہ نہیں دی گئی۔

نیویارک ٹائمز نے لاہور کے لائقِ سیاحت ہونے کا سبب لاہوریوں کی زندہ دلی، مہربان فطرت، مہمان نوازی، لذیذ کھانے، سردیوں میں دھند کے پار سے چھلکتی روشنیوں کے نظارے اور مغلیہ عمارتوں کو قرار دیا ہے۔ یہ تو کراچی کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے، آخر کراچی اور کراچی والوں میں کس بات کی کمی ہے کہ یہ شہر اس فہرست میں جگہ نہ پاسکا۔

دراصل ہمارا شہر شرمیلا بہت ہے، اتنا کہ ہماری ایک سیاست داں کا نام بھی شرمیلا ہے، شہر کی شرم وحیا کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب مردم شماری کرنے والے دروازوں پر آئے تو کراچی کی آدھی آبادی نے شرم کے مارے دروازہ کھولا ہی نہیں اور ’’اوئی اللہ، جانے کون اجنبی ہیں موئے‘‘ کہہ کر گھر میں بیٹھی رہی اس لیے شمار نہ ہوسکی۔ اسی شرمیلے پن کی وجہ سے کراچی اپنے بارے میں کچھ بتاتا نہیں، ورنہ لاہور اور لاہوریوں میں ایسا کیا ہے جو کراچی اور ’’کراچویوں‘‘ میں نہیں۔ چلیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ شہر کس طرح لاہور کے ہم پلہ ہے۔

بات شہریوں کی صفات سے شروع کرتے ہیں۔ ہم کراچی کے لوگ کیا لاہور والوں سے کم زندہ دل ہیں! یہ زندہ دلی ہی تو ہے کہ ہم میں سے بہت سے اب تک کراچی کو عروس البلاد کہتے ہیں، حالاں کہ اس عروس کا چہرہ کسی کھڑوس بڑھیا کا ہوچکا ہے۔ مہربان تو ہم ایسے ہیں کہ ہمارے بارے میں ہی کہا گیا:

مہرباں ’’ہوں میں‘‘ بُلا لو مجھے چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

مہربانی کی یہ تصویر ہماری سیاسی قیادت حکم رانوں کو دکھاتی رہتی ہے۔ مہمان نواز تو ہم ایسے کہ پوچھیے مت، مہمان کا اتنا خیال ہوتا ہے کہ اس کے آنے کی خبر ملتے ہی کہہ دیتے ہیں،’’ارے جب چاہیں آئیں، آپ ہی کا گھر ہے، مگر تین دن سے آپ کے اس گھر میں پانی نہیں ہے۔‘‘

رہے لذیذ کھانے، ان میں تو ہمارا جواب ہی نہیں۔ صرف گائے کے گوشت کے ہم ایسے ایسے مزے دار پکوان بناتے ہیں کہ خود گائے حیران ہوکر کہتی ہے۔۔۔۔ایسی ’’بریانی‘‘ بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ لاہور میں صرف سردیوں میں دھند کے پار روشنیوں کے نظارے دل فریب لگتے ہیں، ہمارے ’’کرانچی‘‘ میں تو پورا سال دھواں اور دھول روشنی اور آنکھوں کے بیچ حائل رہتی ہے۔ اگر سیاح سائنس داں بن کر تمیز کرنے کی کوشش نہ کریں تو دھوئیں اور دھول کے پار دکھائی دینے والی روشنی بھی وہی لطف دے گی جو دھند میں چھپی روشنی دیکھنے میں ہے۔

اب رہ گئیں مغلیہ یا تاریخی عمارتیں۔ اب کیا کریں بھیا! مغلوں نے کراچی سے بڑا تعصب برتا۔ یہاں کوئی چھوٹی موٹی عمارت بھی نہ بنوائی۔ ہمیں تو لگتا ہے یہ مغل لاہور کے علاقے ’’مغل پورہ‘‘ کے رہنے والے تھے، اسی لیے لاہور کو نوازتے رہے۔ چلو مغلوں نے جو کیا وہ کیا۔

یہ باقی کے بادشاہ لودھی، خلجی، سوری بھی کراچی سے دور دور عمارتیں بنواتے رہے، ہمارے شہر میں کوئی عوامی بیت الخلاء، ’’گھوڑا اسٹاپ‘‘ (بسیں تو جب تھیں ہی نہیں) یا بیرون شہر جانے والوں کے لیے ہاتھیوں کا اڈا بنادیتے تو ہمارا شہر بھی تھوڑا بہت تاریخی ہوجاتا۔ کچھ نہیں تو کسی سڑک کی استرکاری ہی کرادیتے۔ اس میں خود ان کا بھی فائدہ تھا، کیوں کہ اس شہر میں سڑک پر ڈامر بچھانے سے پلیہ بنانے تک کسی بھی تعمیر میں ٹھیکے دار اور معمار کے کروڑوں بن جاتے ہیں۔ یہ بادشاہ کراچی میں چائنا کٹنگ کے ذریعے آبادیاں بنا کر اپنا خزانہ بھر سکتے تھے، مگر شاید انھیں اس معاملے میں کوئی ’’کمال‘‘ میسر نہیں تھا۔

واضح رہے کہ کراچی میں بادشاہوں اور ان کی نشانیوں کے نہ ہونے کی بات ہم ماضی اور حال کے مؤرخ کی لکھی گئی تاریخ کی روشنی میں کر رہے ہیں، مستقبل کا مورٔخ جب تاریخ لکھے گا تو اس میں کراچی کے بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کے ذکر سے صفحات کے صفحات بھرے ہوں گے۔

وہ لکھے گا کہ جس طرح کبھی پنجاب میں سکھا شاہی تھی، اسی طرح کراچی میں ’’سیکٹرشاہی‘‘ مچی رہی۔  یہ تذکرہ ہے مغلوں کی طرز کے ’’ساشے پیک‘‘ بادشاہوں کا۔ مغلوں کی طرح یہ بھی تعمیر کا شوق رکھتے تھے، لیکن انھوں نے تاج محل جیسی عمارتوں پر پیسہ ضایع نہیں کیا، بلکہ غریبوں کے لیے چھوٹے چھوٹے مکان بنا کر انھیں بیچتے رہے، مفت میں بھی دے سکتے تھے، لیکن بیچے اس لیے کہ غریبوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

تاج محل پر پیسہ لُٹا کر شاہ جہاں نے جو بدنامی کمائی اسے دیکھتے ہوئے ان بادشاہوں نے یہ خیال رکھا کہ تعمیرات پر رقم ضایع نہ ہو، چناں چہ سرکاری زمینوں پر اسی طرح قبضہ کیا جس طرح مغل راجپوتانے سے دکن تک کرتے رہے تھے، پھر ان پر مکانات بنوائے۔ چوں کہ یہ نیکی کا کام تھا، اس لیے بہت چُھپا کے کیا جاتا تھا۔

ان کی مزید تعمیرات میں سیکٹر آفس شامل ہیں جہاں یہ اپنا دربار لگایا کرتے تھے۔ ان درباروں میں اکثر درباری خاموش ہی رہا کرتے تھے، اس کی وجہ خوف نہیں منہ میں دبا گٹکا ہوتا تھا۔ ان بادشاہوں کی بڑی خدمات ہیں، جیسے انھوں نے ’’بوری‘‘ کے استعمال کو وسعت دی، جس سے بوری کی صنعت نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی، ٹیکس کے ظالمانہ، جابرانہ اور قاہرانہ نظام کی جگہ ’’چندے‘‘ کا عاجزانہ طریقہ متعارف کرایا۔ اس نظام سے رعایا بہت خوش تھی، یہاں تک کہ غیرمسلم بھی فطرہ اور زکواۃ دینے لگے تھے، یوں یہ تاریخ کے پہلے بادشاہ تھے جنھیں رعایا ’’مستحق‘‘ سمجھتی تھی۔

ان کی ایک اور خصوصیت جو انھیں مغلوں سے جدا کرتی ہے ان کا لمبے چوڑے القابات سے گریز تھا، وہ چاہتے تھے کہ رعایا انھیں اپنے ہی میں سے سمجھے، اس لیے بھاری بھرکم القاب کے بجائے کالا، ٹیڑھا، موٹا جیسی خالص عوامی عرفتیں اختیار کرتے تھے، بس ان کے نام کے ساتھ بھائی کا سابقہ لگانا ضروری تھا وہ بھی سابقہ پڑنے پر۔

شہر کے کچھ حصوں میں ’’حقیقی بادشاہت‘‘ بھی خاصے عرصے تک قائم رہی۔ کچھ حصوں پر مشتمل ہونے کے باوجود اسے ’’آفاقی بادشاہت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، غالباً اس لیے کہ یہ بادشاہت ایک دن اچانک قائم ہوئی تھی، لہٰذا اسے اوپر سے نازل شدہ سمجھا جاتا تھا۔ شہر کے ایک علاقے میں کسی شاہی خاندان کی جگہ ’’گینگ‘‘ کی بادشاہت قائم تھی۔ یقیناً یہ بہت بہادر تھے، اسی لیے انھیں ’’جیالے بادشاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

جس طرح  ماضی میں رجواڑے ہوا کرتے تھے، اسی طرح کراچی کے مضافات میں ایک ’’راؤ۔۔۔واڑا‘‘ تھا، جس کا راجا مقابلوں کا بڑا شوقین تھا۔

اب اتنے سارے بادشاہوں کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ کراچی میں ان کی یادگاریں اور ان سے منسوب تاریخی عمارات نہ ہوں۔ پس تو یہ مسئلہ بھی حل ہوا، اور لاہور کو اس معاملے میں بھی کراچی پر فوقیت نہیں رہی۔ اب انتظار بس اس بات کا ہے کہ کب ان بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کی تشہیر ہو، جس کے باعث کراچی بھی تاریخی شہر قرار پائے، اور اسے بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں دیکھ کر ہمارے دل کو قرار آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔