وفاقی کابینہ کے اہم فیصلے

ایڈیٹوریل  جمعـء 19 فروری 2021
ماضی کی بد انتظامی اور مشکل معاشی صورتحال سے عوام مشکلات کا شکار ہوئے فوٹوفائل

ماضی کی بد انتظامی اور مشکل معاشی صورتحال سے عوام مشکلات کا شکار ہوئے فوٹوفائل

سرکاری ملازمین کی مشکلات کا ادراک ہے، ماضی کی بد انتظامی اور مشکل معاشی صورتحال سے عوام مشکلات کا شکار ہوئے، ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، اجلاس میں متعد د فیصلے کیے گئے ، جن میںجنسی جرائم پر قابو پانے کی غرض سے قوانین کے اطلاق اور اقدامات یقینی بنانے،خواتین کو جائیداد میں حق دلوانے کے قانون کو سراہا گیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد کے معاملات فوری حل کے حوالے سے قانون لانے کاعمل بھی تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں ملک بھر میںیکم مارچ سے تمام معاشی سرگرمیاں مکمل بحال کر نے کی بھی نوید سنائی گئی۔ وزیرِاعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیو ں کو ووٹ کا حق دینے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی تنصیب کے حوالے سے پیش رفت دریافت کی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے پر عزم ہے۔وفاقی کابینہ نے جو فیصلے کیے ہیں، ان کی فہرست تو خاصی طویل ہے ، لیکن یہاں ہم ان فیصلوں کا تجزیہ پیش کررہے ہیں جن کا تعلق براہ راست تعلق مفاد عامہ سے ہے ۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گریڈ 1سے 19تک وفاقی ملازمین کی 2017 کی بنیادی تنخواہوں پر 25 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔چند دن قبل وفاقی اداروں سے وابستہ ہزاروں ملازمین تنخواہوں میں اضافہ کے لیے اسلام آباد میں احتجاج کر رہے تھے،  وفاقی حکومت اس احتجاج کو ختم کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

کابینہ کو بتایا گیاخیبرپختونخوا کی طرز پر گریڈ 1سے 16گریڈ تک ٹائم اسکیل پروموشن دی جا رہی ہے، ایڈہاک ریلیف الاؤنس کو یکم جولائی سے بنیادی تنخواہ میں ضم کیا جا رہا ہے ،جس کا اصل فائدہ پینشنرز کوہو گا،لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں کے گورنمنٹ ملازمین اور نجی اداروں سے تعلق رکھنے والی لاکھوں افراد کی تنخواہوں میں کون اضافہ کر ائے گا۔ ملک میں یومیہ بنیاد پرہونے والی مہنگائی کی وجہ سے پوری قوم پریشانی کا شکار ہے، لیکن وفاقی حکومت کو شاید صرف فیڈرل گورنمنٹ کے ساڑھے تین لاکھ ملازمین کی فکر ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو صرف وفاقی حکومت کا استحکام عزیز ہے اور شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صوبوں کے اندر مہنگائی کی ذمے دار وفاقی حکومت نہیں ہے۔

وفاقی حکومت کے تحت ادارے کی جانب سے پیٹرولیم کی مصنوعات اور گیس وبجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پورے معاشی نظام پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں اور صنعتکاروں اور تاجروں کی نمایندہ تنظیموں سے مذاکرات کرکے مکینزم تیار کرے تاکہ مہنگائی کو کسی ایک سطح پر برقرار رکھا جائے ۔ بہرحال وزیر اعظم نے زینب الرٹ بل کی منظوری کے باوجود بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی شرح میں کمی نہ آنے پر اظہارافسوس جب کہ اداروں کو تاکید کی کہ وہ جرائم روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔

پاکستان میں جنسی جرائم کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ معصوم بچوں کے ساتھ جنسی جارحیت کے واقعات کی درست انوسٹی گیشن کیوں نہیں ہو پاتی یا ابھی تک کیوں نہیں ہو پائی ہے؟ کیا کسی نے بھی سنجیدگی سے اس سوال کا جواب تلاش کیا ہے ، جواب نفی میں ہے ۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی اب یہی بہتر وقت ہے کہ جرائم کو معاشرتی روایات سے الگ کریں۔ ایسے کیسوں میں زیادہ تر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں فریقین عدالت سے باہر معاملات طے کر لیتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ قانونی معاملات سست اور مہنگے ہیں ،جس کی وجہ سے بھی متاثرہ بچے کے ورثا پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔کوئی بھی قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدباب ناممکن ہے،اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو باقی رکھا جائے اور محض کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ قانون کے غلط استعمال کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ مقدمے پر اٹھنے والے بھاری مصارف کی بنا پر اس کا خدشہ رہے گا کہ غریب تو سزاپا جائیں جب کہ مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔

وفاقی کابینہ نے خواتین کو جائیداد میں حق دلوانے کے قانون کو سراہا، اس کے ساتھ یہ  ہدایت بھی کی کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد کے معاملات فوری حل کے حوالے سے قانون لانے کاعمل بھی تیز کیا جائے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر سال لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بیرون ملک مقیم کمیونٹی اس سے واقف نہیں ، بیرون ملک مقیم پاکستانی کو آگاہ رکھنا ہوگا کہ اس رقم کا استعمال کہاں کیا جارہا ہے اور آیا ان پر خرچ کیا جارہا ہے یا نہیں۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے زیادہ تر مسائل زمینی تنازعات اور اس کے آس پاس موجود جرائم سے متعلق ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، پاور آف اٹارنیوں کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہزاروں کی تعداد میں برطانوی پاکستانی موجود ہیں جنھوں نے اپنے رشتہ داروں کو زمینیں خرید و فروخت کرنے کی اجازت دی ہے۔

کچھ نے رشتہ داروں کو اختیار دیاہے۔ کچھ معاملات میں حقیقی بہن اور بھائی کے درمیان جائیداد کا تنازعہ ہے۔ بے تحاشا معاملات زمینی تنازعات کے بارے میں ہیں جہاں مافیا یا رشتہ داروں یا رشتہ داروں کی مدد سے مجرموں نے جائیدادوں پر قبضہ کیا ہواہے۔

پاکستان سیٹزن پورٹل پر بھی بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب جائیداد کے معاملات کے حوالے سے بے شمار شکایتیں درج ہیں ۔ بلاشبہ ایسی قانونی سازی عمل میں لائی جائے ، جس سے عوام کو انصاف کے حصول میں آسانی ہو۔جبری گمشدگیوں کے معاملے پرکابینہ نے اس امر کا اعادہ کیا کہ حکومت مکمل شفافیت اور قانون کی عمل داری پر پختہ یقین رکھتی ہے، وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ میں قانون لانے کا عمل تیز کیا جائے۔جبری گمشدگی کا اہم معاملہ بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے ، اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر فوری حل ہونا چاہیے تاکہ ریاست میں انصاف پرمبنی نظام قائم ہوسکے ۔

کابینہ کو کورونا صورتحال پربتایا گیا کہ ملک میں اس کے کیسز اور پھیلاؤ کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، اب تک پچاس ہزار فرنٹ لائن ورکرز کو ویکسین لگائی جا چکی اور یہ عمل تیز کیا جا رہا ہے، 65سال سے زائد عمر والوںکے لیے 1166نمبر فراہم کیا گیاہے، نجی شعبے کی جانب سے ویکسین کی درآمد میں حائل رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں، جب کہ دوسری جانب ویکسین کی سرکاری سطح پر قیمت لاگو کیے بغیر نجی شعبے کو اس کی فروخت کی اجازت دیے جانے پر حکومت کو تنقید کا بھی سامنا ہے۔

پاکستان کی وزارتِ صحت نے گزشتہ ہفتے نجی شعبے کو ویکسین کی خریداری کی اجازت دی تھی جس کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ حکومت شہریوں کو مفت ویکسین فراہم کرنے کے وعدے سے دست بردار ہو گئی ہے۔تاہم وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت کا کہنا ہے کہ نجی شعبے کو ویکسین کی درآمد کی اجازت کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ حکومت مفت ویکسین مہیا کرنے کے وعدے سے دستبر دار ہو گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نجی شعبے کو عوام کا استحصال نہیں کرنے دے گی اور ویکسین کی دستیابی کے ساتھ ہی اس کی قیمت مقرر کر دی جائے گی، یہ بات درست ہے کہ حکومت ہر بالغ شہری کو ویکسین کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کے لیے سرگرم ہے اور اس وعدے کو یقینی بنانے کے لیے درکار بجٹ پہلے سے مختص کیا جاچکا ہے۔

جب کہ خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے اپنے پاس موجود دستاویزات کے حوالے سے اس بات کا انکشاف دلچسپ امر ہے کہ ملک میں تمام درآمدی ادویات کی قیمتوں سے متعلق باقاعدہ ایک پالیسی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کئی ممالک اور کئی بڑے خریدار کروڑوں ویکسین خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسی صورتِ حال میں پاکستان کا نجی شعبہ ملک کی ضرورت کا ایک فی صد سے زائد ویکسین درآمد نہیں کر سکے گا۔

اس بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ نجی شعبے کے لیے ویکسین کی قیمت اس لیے مقرر نہیں کی گئی، کیونکہ ریفرنس پرائس اس وقت موجود نہیں ہے۔ جب ویکسین دستیاب ہو گی اور مارکیٹ میں مسابقت پیدا ہو گی تو خودبخود قیمتیں طے ہو جائیں گی۔ تاہم پاکستان کے نظام صحت کی بدحالی اور اس  میں موجود بدعنوانیوں کو مدنظر رکھا جائے تو صورت حال مختلف نظر آتی ہے، لہٰذا حکومت ایسے اقدامات وقت سے پہلے کرنے ہوں گے جن کے نتیجے میں کورونا ویکسین کا حصول عام آدمی کی دسترس میں ہو، مال وزر کی ہوس اور مافیاز کی گرفت ادویہ پر بہت زیادہ مضبوط ہے، ایسا میکنزم حکومتی سطح پر تشکیل دیا جائے جس میں ہر فرد کو باسانی ویکسین مل سکے اور قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے۔

حرف آخر وفاقی کابینہ کے فیصلے صائب ہیں اور ان کے دوررس نتائج یقینا ملک کے مختلف شعبوں پر مرتب ہوںگے۔بس ان پر عمل درآمد میں خلوص نیت اور حکومتی فعالیت کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔