- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید مضبوط
- پی ٹی آئی قانونی ٹیم کا چیف جسٹس اور جسٹس عامر فاروق سے استعفی کا مطالبہ
- اہم چیلنجز کا سامنا کرنے کیلیے امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، جوبائیڈن کا وزیراعظم کو خط
- عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ہوگیا
- اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے بعد مندی، سرمایہ کاروں کے 17ارب ڈوب گئے
- پشاور بی آر ٹی؛ ٹھیکیداروں کے اکاؤنٹس منجمد، پلاٹس سیل کرنے کے احکامات جاری
- انصاف کے شعبے سے منسلک خواتین کے اعداد و شمار جاری
- 2 سر اور ایک دھڑ والی بہنوں کی امریکی فوجی سے شادی
- وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں پروٹوکول کیلیے سرخ قالین پر پابندی لگادی
- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا پولیس کیلیے 7.6 ارب سے گاڑیاں و جدید آلات خریدنے کی منظوری
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
سمندر کی 11 ہزار میٹر گہرائی میں پہنچنے والا ’’نرم‘‘ اور خودکار روبوٹ
بیجنگ: چینی سائنسدانوں نے سمندر کی انتہائی گہرائی میں تحقیق کےلیے ایسا خودکار روبوٹ تیار کرلیا ہے جو بہت نرم ہونے کے علاوہ آزادانہ انداز میں تیر بھی سکتا ہے۔
حالیہ تجربات کے دوران اس روبوٹ کو سمندر کے سب سے گہرے مقام ’’ماریانا ٹرینچ‘‘ میں تیرا کر آزمایا گیا ہے۔ یہ مقام 10,900 میٹر (تقریباً 11 ہزار میٹر) گہرائی میں واقع ہے۔ قبل ازیں ابتدائی تجربات میں اسے بحیرہ جنوبی چین کی 3,224 میٹر گہرائی میں کامیابی سے تیرایا گیا تھا۔
بتاتے چلیں کہ ہم جیسے جیسے سمندر کی گہرائی میں اترتے جاتے ہیں، ویسے ویسے پانی کا دباؤ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ماریانا ٹرینچ کی گہرائی میں یہ زمینی سطح پر ہوا کے دباؤ (کرہ ہوائی کے معیاری دباؤ) سے 1,071 گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ یہ دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ جس پر انسان تو کیا، سطح زمین پر رہنے والا کوئی بھی جانور زندہ نہیں رہ سکتا۔
اس کے باوجود، اب تک کی چند ایک تحقیقی مہمات کے دوران سمندر کی ان گہرائیوں میں کئی طرح کے جاندار دریافت ہوچکے ہیں جو سطح زمین پر پائے جانے والے جانوروں اور پودوں کے مقابلے میں خاصے مختلف بھی ہیں۔
واضح رہے کہ سمندر کی اتھاہ و تاریک گہرائیوں تک پہنچنے کےلیے خصوصی اور مہنگی مشینوں (بالخصوص آبدوزوں اور روبوٹس) کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی بناء پر یہ زمین کے اُن مقامات میں شامل ہیں جن کے بارے میں ہم آج تک بہت کم جان پائے ہیں۔
البتہ، سمندر کی اِنہی گہرائیوں میں پائی جانے والی جیلی فش اور ان جیسے دوسرے جانوروں میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہوتا لیکن، نرم اور لجلجا جسم رکھنے والے یہ جانور، اس شدید دباؤ پر نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ اِدھر سے اُدھر تیرتے بھی پھرتے ہیں۔
چینی شہر ہانگ ژُو میں شی جیانگ یونیورسٹی کے تائیفینگ لی اور ان کے ساتھیوں سمندری گہرائی میں پائی جانے والی ’’گھونگھا مچھلی‘‘ (اسنیل فش) سے متاثر ہو کر ایک نرم روبوٹ ایجاد کیا ہے۔
یہ ’’نرم روبوٹ‘‘ اس لیے بھی ہے کیونکہ اس کے تمام برقی آلات، جن کا تعلق حرکت اور رہنمائی کے نظاموں سے ہے، نرم سلیکون (silicone) خول میں بند کیے گئے ہیں جو ماریانا ٹرینچ جیسی غیرمعمولی گہرائی میں بھی زبردست دباؤ بہت آرام سے برداشت کرسکتا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ اس روبوٹ میں توانائی (بجلی) کا سارا نظام اس کے اندر ہی موجود ہے۔ اس سے پہلے تک سمندری گہرائی میں جانے کےلیے جتنے بھی روبوٹ تیار کیے گئے تھے، وہ موٹی اور لمبی کیبل (تار) کے ذریعے اپنی مرکزی آبدوز سے منسلک رہتے تھے؛ اور توانائی بھی اسی سے حاصل کرتے تھے۔
یہی نہیں بلکہ یہ ’’نرم روبوٹ‘‘ کسی گھونگھا مچھلی کی طرح اپنے پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے آزادای سے تیرتا ہے اور اپنی مرکزی آبدوز سے بہت دور تک جاسکتا ہے۔
اوپر دی گئی مختصر ویڈیو کلپ ماریانا ٹرینچ کے مقام پر اس روبوٹ کی آزمائش سے متعلق ہے جس میں اسے اپنے ’’پر‘‘ پھڑپھڑاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
اس طرح یہ سمندری گہرائی میں کھوج کو پہلے سے کہیں زیادہ مؤثر انداز میں انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسے ایجاد کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ’’نرم روبوٹس‘‘ کا سب سے پہلا ماڈل یا ’’پروٹوٹائپ‘‘ ہے جسے مستقبل میں مزید بہتر بنانے کےلیے اور بھی زیادہ نرم اور ہلکے پھلکے مادّے استعمال کیے جائیں گے جبکہ حرکت پذیری اور ذہانت جیسی خصوصیات میں اضافہ کرتے ہوئے، ہر طرح کے مختلف ماحول میں کھوج کرنے کے قابل بھی بنایا جائے گا۔
اس ایجاد کی مکمل تفصیلات ہفت روزہ تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔