کورونا ویکسین؛ اہم ترین سوالات کے جوابات

پروفیسر سہیل اختر  جمعرات 22 اپريل 2021
وبا ختم یا ہلکی تب ہوسکتی ہے جب آبادی کی اکثریت میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہو جائے۔ فوٹو: فائل

وبا ختم یا ہلکی تب ہوسکتی ہے جب آبادی کی اکثریت میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہو جائے۔ فوٹو: فائل

٭ کیا کورونا کی ویکسین کے بعد کورونا ہونے کے امکانات بالکل ختم ہو جاتے ہیں ؟
جواب ہے : نہیں۔
٭ کیا کورونا کی ویکسین سائیڈ ایفیکٹس سے سو فیصد محفوظ ہیں؟
جواب ہے : نہیں۔

٭ کیا دیگر ویکسین اور دوائوں کے مقابلے میں کورونا کی ویکسین تحقیقاتی مراحل سے اسی رفتار سے گزری ہیں؟
جواب ہے : نہیں اور ہاں۔
٭کیا ویکسین کورونا کا واحد یا آخری حل ہے ؟
جواب ہے : نہیں۔
تو پھر ویکسین پر اتنا زور کیوں ؟کیا ہم سب ویکسین کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے ؟
ان سب سوالات کے جوابات اس مثال سے سمجھ میں آسکتے ہیں :
فرض کیجیے کہ آپ ایک سمندر میں تیر رہے ہیں (کشتی غرق ہو چکی) ، دور دور تک کوئی مدد کے آثار نہیں۔ سامنے ایک لکڑی کا ٹوٹا پھوٹا تختہ نظر آتا ہے۔ آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ اسی پر سوار ہوجائیں۔ یا یہ کہ کسی کشتی کے آسرے میں ایک انجانے بحرِ بیکراں میں تیرتے رہیں تاوقتیکہ تھک کر ڈوب جائیں یا کسی شارک کا لقمہ بن جائیں۔

کورونا اچانک نازل ہونے والی بالکل نئی بیماری ہے۔ وبائے عام (pandemic) ہے۔ اللہ کے فضل سے اس میں مبتلا اکثر افراد معمولی بخار کے بعد دس پندرہ روز میں ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن تقریباً دس فیصد میں مرض زیادہ شدت کا ہوتا ہے اور دو فیصد سے کم مریض موت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

کسی بھی نئی بیماری کا علاج دریافت ہونے میں برسوں لگتے ہیں۔ کورونا کے مسلمہ علاج کا انتظار کرنا جب ممکن ہوتا اگر چند ایک مریضوں سے سابقہ پڑتا۔ یہاں تو غول کے غول ہسپتالوں میں امڈ آئے ، یہاں تک کہ ہسپتالوں کے دالانوں میں انھیں رکھنا پڑا ، علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور نرسیں کم پڑ گئیں یا خود بیمار پڑ گئے۔

ایسے حالات میں ، ایک بالکل نئے وائرس سے نبٹنے کیلئے جو بھی علاج میسر آیا ، استعمال کیا گیا۔

کورونا کے علاج میں استعمال ہونیوالی اکثر ابتدائی دوائیں مثلاً hydroxychloroquine , azithromycin , plasma , وغیرہ اس سے ملتے جلتے دیگر امراض میں پہلے استعمال ہوچکی تھیں۔ اسی لیے تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک طوفان کو روکنے کی کوشش میں انہیں استعمال کیا گیا ، تحقیق کے طویل مراحل سے گزرے بغیر۔ پھر وقت کے ساتھ ان میں سے بہت سوں کو فائدہ مند فہرست سے خارج بھی کرنا پڑا۔ تحقیق کبھی جامد نہیں ہوتی۔ انسانی ذہن بہتر سے بہتر کی تلاش میں ہمیشہ رہتا ہے۔

وبائی امراض کی تاریخ یہی رہی ہے کہ ان کا بہترین علاج ان سے بچائو ہوتا ہے۔ چنانچہ بہت سے ایسے امراض جن کے لیے بعد میں ادویات میسر آگئیں ، مثلاً ٹی بی ، کالی کھانسی ، ٹیٹنس وغیرہ ، لیکن وبائی امکان کی وجہ سے ان کے حفاظتی ٹیکے ترک نہیں کیے گئے۔

کووڈ کے ابتدائی وقت سے بھی میڈیکل سائنس کا فوکس ویکسین ہی رہا۔ یہ ایک چومکھی لڑائی تھی جس میں ایک طرف تو عوام کو بچائو (SOPs) کی بھرپور ترغیب دلائی گئی ، دوسری طرف مریضوں کے علاج

کی بہتر سے بہتر سہولیات جنگی بنیادوں پر مہیا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ویکسین کی تحقیق میں درجنوں اداروں نے عرق ریزی کی جو جاری ہے اور اگلے کئی سال شاید جاری رہے۔

کسی وبا کے ختم ہونے یا بالکل ہلکا ہونے کا ایک امکان یہ ہوتا ہے کہ آبادی کی اکثریت میں اس کے خلاف مدافعت (immunity) پیدا ہو جائے لیکن ایسا ہونے تک کثیر اموات ہونے کا نقصان کوئی برداشت نہیں کرسکتا۔
لامحالہ حفاظتی ٹیکے یا ویکسین ہی بڑے پیمانے کی مدافعت ( Herd immunity) کا سب سے موثر ذریعہ رہ جاتے ہیں۔
اب سوالات اور وسوسوں کی جانب آتے ہیں۔
1۔ کیا کورونا کی ویکسین کے بعد کورونا ہونے کے امکانات بالکل ختم ہو جاتے ہیں ؟
جواب ہے : نہیں۔
کسی بھی دوا یا علاج کی افادیت سو فیصد نہیں ہوتی۔ پھر بھی ہم علاج کرتے ہیں اس وقت دستیاب بہترین ذرائع میں سے۔ 40، 50 سال پہلے بیماریوں کا جو علاج رائج تھا ، اگر بعد کی تحقیق کے نتیجے میں آج اس سے مختلف رائج ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے غلط علاج کیا گیا۔ بلکہ یہ کہ ہر دور کی تحقیق و معلومات کے نتیجے میں جو بہترین راستہ میسر ہو ، اسے ہی اپنایا جاسکتا ہے۔ وقت کے ساتھ اللہ نے بہتر راستے دکھائے تو علاج بھی تبدیل ہوئے۔
اسی طرح کسی علاج کے لیے ایک دوا ، 100 فیصد مریضوں کو فائدہ نہیں دیتی۔ یہ اللہ کی مشیت ہے۔ اس کی وجہ بہت سے مختلف عوامل ہوتے ہیں جو کسی ایک دوا (یا ویکسین) کے فائدہ مند ہونے یا نہ ہونے میں کارفرما ہوسکتے ہیں۔ کچھ کا علم ہوپاتا ہے ، کچھ کا نہیں۔
2۔ کیا کورونا کی ویکسین کے کوئی سائیڈ ایفیکٹس نہیں ہیں؟
جواب ہے : نہیں۔
دنیا کی کوئی بھی دوا یا ویکسین مضر اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) سے بالکل خالی نہیں ہے۔ دوائوں کے عام استعمال کی اجازت دینے سے پہلے ادارے اس بات کا اطمینان کرتے ہیں کہ صرف ان ادویات کو ’ اوکے ‘ کیا جائے جن کی ریسرچ کے دوران مضر اثرات نہ تو سیریس نوعیت کے اور نہ بڑی تعداد میں پائے گئے ہوں۔
چنانچہ کورونا کی مختلف ویکسینز سے بھی معمولی نوعیت کے اثرات جیسے ہلکا بخار، جسم میں درد وغیرہ دیکھے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی وجہ سے ویکسین کے استعمال کو ترک کر دینا عقل مندی نہیں ہوگی کیونکہ ویکسین نہ لگوانے سے کورونا کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔
(چند ایک شدید نوعیت کے مضر اثرات کی رپورٹس سامنے آئی ہیں ، جس کی تحقیق جاری ہے۔ البتہ ویکسین کی اکثریت بڑے سائیڈ ایفیکٹس سے محفوظ ہے)
3۔ کیا دیگر ویکسین اور دوائوں کے مقابلے میں کورونا کی ویکسین تحقیقاتی مراحل سے مناسب رفتار سے گزری ہیں؟
جواب ہے : نہیں اور ہاں۔
ایک طرف تو تحقیقاتی عمل ، جو دوائوں کی تیاری کے سلسلے میں کچھ سالوں میں مکمل ہوتا ہے ، کورونا کیلئے تیزی سے طے کیا گیا تاکہ ایک عالمی وبا کی روک تھام جلد ہوسکے۔ دوسری طرف اس ’ تیزی ‘ میں معیار کیلئے ضروری تقاضوں کو درگزر نہیں کیا گیا جو کم از کم درکار ہوتی ہیں۔
4۔ کیا ویکسین کورونا کا واحد حل ہے یا آخری حل ہے ؟
جواب ہے : نہیں۔
کووڈ کی بہتر سے بہتر ویکسین اور دوائیں ، جن سے اس کے نہ ہونے کے امکانات مزید کم ہوسکیں اور وہ بالکل محفوظ بھی ہو ، کی تلاش میں دنیا لگی ہوئی ہے۔ البتہ اس سے بہتر کوئی علاج فی الحال میسر نہیں۔
اس کے علاوہ بہت سے دیگر سوالات ہیں۔ مثلاً کووڈ وائرس کی نئی اقسام (strains) کا موجودہ ویکسین سے قابو میں آنا۔
مختلف ویکسینز میں فائدہ کے تناسب کا فرق۔

ویکسین کی عام دستیابی کیلئے سالوں کا انتظار اور وسائل ، وغیرہ۔
عملی راستہ یہی نظر آتا ہے کہ جب تک اللہ کی ہدایت کے نتیجے میں انسانی ذہن اس سے بہتر راستہ تلاش نہیں کرلیتا ، موجودہ طریقہ یعنی ویکسین کو اپنایا جائے۔
کچھ لوگوں میں ویکسین کے بعد کورونا ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے بہت جلد احتیاط ترک کردی اس سے پہلے کہ مدافعتی نظام مضبوط ہوتا یا وہ ان پانچ ، دس فیصد افراد میں سے تھے جو ویکسین کے فوائد سے بہرحال محروم رہ جاتے ہیں۔

یہ وائرس ایک سے دوسرے میں پھیلتا ہے۔ انسانی فطرت پابندیوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتی۔ معاشی و معاشرتی مجبوریاں انسان کو لامحالہ غیر محفوظ راستے کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ اس لیے ’ دنیا میں رہنے ‘ اور محفوظ رہنے کیلئے موجودہ حالات میں ویکسین ہی مناسب راستہ محسوس ہوتا ہے ، حفاظتی ذرائع (ماسک وغیرہ) کو اختیار رکھنے کے ساتھ ، جب تک اس مرض کا موثر سدباب نہیں ہوجاتا۔
ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب تک آبادی کی اکثریت ویکسین نہ لگوالے ، بڑے پیمانے کی مدافعت یا Herd immunityحاصل ہونا مشکل ہے۔ پاکستان میں اس وقت تک ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد ایک فیصد سے کم ہے۔ معاشرے کو مجموعی فائدہ ملنا تب ہی ممکن ہوگا جب کثیر تعداد میں افراد تمام شکوک وشبہات کو پس پشت ڈال کر اللہ کی اس دی گئی سہولت سے فیض یاب ہونگے۔
( پروفیسر سہیل اختر پروفیسر آف پلمونولوجی ہیں اور انڈس ہسپتال کراچی میں شعبہ امراضِ سینہ و تنفس کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سابق مرکزی صدر ہیں۔ )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔