تحریک انصاف کے پچیس سال

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 6 مئ 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

تحریک انصاف نے پچیس سال مکمل کر لیے۔ عمران خان کرکٹ کی طرح عوام کے مقبول رہنما بن گئے مگر باقی سیاستدانوں کی طرح اپنی مقبولیت برقرار رکھ پائیں گے، زندگی کا بہت بڑا چیلنج ان کے سامنے ہے۔ عمومی طور پر یہ مفروضہ بعض دانشور بیان کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں بجلی گرانے والی قوتوں کی ایماء پر بنتی ہیں۔

بعض پارٹیوں کی اس ضمن میں مثال بھی دی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کی مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل تھے۔ انہوں نے بعد میں بائیں بازو کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی قائم کی۔ عظیم فلسفی کارل مارکس کے جدلیاتی مادیت نظریے کے تحت ذوالفقار علی بھٹو نئے تضادات کا شکار ہوکر جنرل ضیاء الحق کے جبرکا شکار ہوئے اور پیپلز پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی بن گئی۔

میاں نواز شریف پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جیلانی کی دریافت تھے۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں وہ مرکزی سیاسی منظرنامہ میں شامل ہوئے، مگر انہوں نے آزادانہ روش اختیار کی، یوں آسمانوں سے بجلیاں گرانے والی قوتوں کے معتوب قرار پائے۔ عمران خان 1992ء کے ورلڈ کپ کے ہیرو تھے اور انہوں نے کھلاڑیوں کی سماجی ذمہ داری کی ایک نئی روایت قائم کی تھی۔

انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے خلاف کرپشن اور خراب طرزِ حکومت کا پروپیگنڈہ ایک منظم انداز میں کیا تھا۔ کچھ اعلی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آسمانوں سے بجلی گرانے والی قوتوں کے نظریاتی استاد سمجھے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں دو سماجی رہنماؤں عبدالستار ایدھی اور عمران خان کو یہ پیشکش ہوئی کہ یہ رہنما بے نظیرحکومت کی مبینہ کرپشن کے خلاف تحریک منظم کریں اور بقول عبدالستار ایدھی انہیں وزیر اعظم بنانے کے امکانات دکھائے گئے مگر ایدھی صاحب اچانک لندن گئے اور اس سازش کو آشکار کیا۔

عمران خان نے تحریک انصاف کے قیام کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر عارف علوی اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اسد عمر ، نجیب ہارون ، حامد خان اور نعیم الحق مرحوم وغیرہ عمران خان کے ساتھ مل گئے۔ عمران خان کے دوستوں اور چاہنے والوں کا ایک حلقہ پورے ملک میں تھا، یوں کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ان کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ عمران خان کا کرکٹ کا بھی پس منظر تھا مگر دائیں بازو کے ایک لبرل سیاسی رہنما کی حیثیت سے راستہ اختیار کرنے کی منصوبہ بندی کی۔

عمران خان نے شروع سے ہی ایک جدید طرز حکومت اور ایک شفاف سیاسی نظام کا بیانیہ اختیارکیا مگر انہوں نے مذہبی استعارے کو اپنے بیانیہ کا حصہ بنالیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی رکن اور قومی محاذ آزادی کے سربراہ معراج محمد خان بائیں بازو کی مشترکہ سیاسی جماعت کے تجربہ کی ناکامی کے بعد مایوس تھے۔ نعیم الحق معراج محمد خان کے قریبی ساتھی اظہر جمیل کے بہنوئی تھے ، یوں نعیم الحق معراج محمد خان کو عمران خان کے قریب لے آئے اور معراج محمد خان نے اپنی جماعت قومی محاذ آزادی تحریک انصاف میں ضم کی اور وہ سیکریٹری جنرل بنادیے گئے۔ معراج محمد خان چین نواز تھے اور بھارت کے خلاف تھے، یوں جب میاں نواز شریف کے دور میں ایٹم بم بنانے کا مرحلہ آیا تو معراج محمد خان اور عمران خان دونوں ایٹم بم بنانے کی حمایت کرنے والی تحریک کا حصہ بن گئے۔

جنرل پرویز مشرف اور ان کی والدہ عمران خان کو پسند کرتے تھے، جب 2002ء میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدارکو آئینی شکل دینے کے لیے ریفرنڈم کرایا تو تحریک انصاف نے صدر پرویز مشرف کی حمایت کی مگر پھر چوہدری شجاعت حسین سے مفاہمت نہ ہونے کی بناء پر وہ صدر پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ نہ بنے اور قومی اسمبلی میں ایک مخالف متحرک رکن اسمبلی کا کردار ادا کیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں حصہ لیا۔ 2010ء سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔

عمران خان نے ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ اپنی جماعت میں انتخابات کرائے۔ جسٹس وجیہ الدین احمد اور پھر تسنیم نورانی الیکشن کمشنر تھے مگر تحریک انصاف کے فیصلہ ساز سیل کو سیاسی جماعت میں انتخابات کرانے کے مضمرات کا اندازہ نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے جسٹس وجیہ الدین احمد اور پھر سینئر بیوروکریٹ تسنیم نورانی رخصت ہوئے۔

عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف مؤثر تحریک چلائی اور چھ ماہ اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ 2018ء میں تحریک انصاف میں بہت سے سیاسی رہنما شامل ہوئے۔ تحریک انصاف کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی جماعت کے اراکین کی تحریک انصاف ہجرت کو بجلی گرانے والی قوتوں کا کارنامہ قرار دیا تھا ، یوں تحریک انصاف 2018ء کے انتخابات میں اکثریتی جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی صورتحال تبدیل ہوئی۔

تحریک انصاف کے منشور میں کئی ہزار ماہرین کو برطانیہ اور یورپ سے بلا کر حکومتی نظام کو تبدیل کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اسی طرح ہزاروں افراد کو ملازمتیں نہیں ملیں، البتہ اس حکومت نے ہیلتھ کارڈ کا اجرا کیا، جوکہ ایک موثر پروگرام ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی ایک بڑی خصوصیت وفاقی کابینہ میں بار بار تبدیلی ہے۔ سب سے پہلے اسد عمر کو وزارت خزانہ چھوڑنا پڑی، تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی خدمات حاصل کیں، اب ایک اور وزیر خزانہ شوکت ترین کو بلایا گیا ہے۔

اسی طرح آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے اسی طرح کے معاہدے کیے جیسے ماضی کی حکومتیں کرتی تھیں۔ پارلیمانی نظام کی بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ کابینہ وزیر اعظم کی قیادت میں متحد ہوتی ہے اور تمام وزراء اور وزیر اعظم کا ایک بیانیہ ہوتا ہے مگر موجودہ حکومت کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر وزیرکا اپنا بیانیہ ہے اور وزیر اعظم کا ایک الگ بیانیہ ہوتا ہے اور متضاد بیانیہ کے باوجود سب وزیر اعظم کی قیادت میں متحد ہیں، یوں شعوری طور پر ایک کنفیوژن کی صورتحال موجود ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اہم ترین فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں۔

اب تازہ بحران جہانگیر ترین کا ہے جو تحریک انصاف میں بہت دیر سے آئے مگر 2018ء کے انتخابات سے قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے پر انہیں سیاست سے نااہل قرار دے دیا مگر کرپشن کے بیانیہ کا پرچارکرنے والی جماعت نے اس فیصلہ کو اہمیت نہ دی۔ جہانگیر ترین ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے 2018ء کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مگر گروہوں کی لڑائی میں زیرِ عتاب ہوئے اور اب اراکین اسمبلی کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ موجود ہیں۔

محسوس ہوتا ہے کہ این آر او نہ دینے کے بیانیہ والی حکومت کو ایک دفعہ پھر اپنی پالیسی تبدیل کرنی ہوگی۔ تحریک انصاف کے بانی رکن حامد خان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ماضی میں حکومتوں میں شامل رہے اور یہ حکومتیں ناکام ہوگئیں۔ موجودہ حکومت کے ڈھائی سال ہر محاذ پر مایوسی کے سال ہیں۔ تحریک انصاف ہر ضمنی الیکشن ہار رہی ہے۔ یورپی یونین پاکستان پر پابندیاں لگانے کا عندیہ دے رہی ہے، نیو لبرل ازم کی ڈاکٹرائن بھارت میں مودی کی شکل میں ناکام ہوئی ، اب پاکستان میں یہ ڈاکٹرائن ایک دفعہ پھر ناکام ہورہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔