وفاقی ترقیاتی منصوبوں پر وزیر اعلیٰ کا اظہار اطمینان

رضا الرحمٰن  بدھ 9 جون 2021
اپوزیشن ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گزشتہ تین سال کی صوبائی پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنائے۔فوٹو : فائل

اپوزیشن ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گزشتہ تین سال کی صوبائی پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنائے۔فوٹو : فائل

 کوئٹہ:  وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا ہے کہ اگر ماضی کی حکومتیں بلوچستان پر موجودہ حکومت کی طرح توجہ دیتیں تو بلوچستان آج مزید ترقی یافتہ ہوتا۔ وفاق نے صوبائی حکومت کی تجویز پر کچلاک سے خضدار روڈ کو دو رویہ کرنے سمیت کئی اہم منصوبے وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

ان منصوبوں کی تکمیل سے بلوچستان میں واضح ترقی آئے گی۔ وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل کئے گئے دیگر منصوبوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان میں صوبے میں پانی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کاریزات کو زندہ رکھنے معاشرتی بہتری کے لئے بوستان میں اسپیشل اکنامک زون کے قیام، اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں جامعہ بلوچستان کوئٹہ میں سہولیات کی فراہمی، لسبیلہ یونیورسٹی کے وڈھ میں کیمپس کا قیام، کوسٹل ریجن کے لئے تعلیمی اسکالر شپ منصوبے، پاک ایران سرحد پر گیٹ، پنجگور میں مشترکہ مارکیٹوں کا قیام، ڈیرہ بگٹی میں سڑکوں کے تین منصوبے شیرانی تا خاکی، سبی تا ہرنائی، قلات تا خاران، لورالائی تا دُکی، برابچہ تا چاربان تا اموری ، چاغی تا چاروچاہ ، ژوب تا مانزکی، کنگری تا سنگار موسیٰ خیل، سوئی تابیجوو قبرستان، جھل جاؤ، آواران روڈ سڑکوں کی تعمیر و توسیع، ہزار گنجی انڈسٹریل اسٹیٹ بوستان واشک مند، تمپ میں گرڈ اسٹیشنوں کے قیام اور اپ گریڈیشن، آواران کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے خانوزئی پشین ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے، گوادر کی پرانی آبادی کی بحالی، صوبے کے متعدد اضلاع میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے، خضدار، آواران، خاران، پنجگور، نوشکی اور کیچ میں زراعت کی بہتری کے منصوبے شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا بلوچستان کے آئندہ مالی سال 2021-22کے بجٹ کے حوالے سے کہنا ہے کہ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے لئے جامع پروگرام وضع کیا جا رہا ہے اور سالانہ ترقیاتی پروگرام میں تعلیم، صحت، سماجی تحفظ اور دیگر سماجی شعبوں کو اہمیت دی جائے گی ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق وزیرعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے آئندہ کی وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لئے شامل کئے گئے منصوبے گنوائے ہیں وہ یقیناً تاریخی اور انقلابی ہیں۔ موجودہ حکومت نے جس طرح سے بلوچستان کو ہمہ جہت ترقی دینے کے لئے اقدامات کئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں اور ان کی تکمیل سے بلوچستان کی پسماندگی اور احساس محرومی ختم ہوجائے گی۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق منصوبوں کو شامل کرنا بڑا کارنامہ نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کرانا ہوگا، کیونکہ ماضی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی حکومتوں کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا ان کا نزلہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے منصوبوں پر ہی گرا۔ جس پر بعد ازاں کٹ لگا دی گئی۔

دوسری جانب بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن جام حکومت کو نااہل اور کرپٹ ترین حکومت قرار دیتی ہے، اسکا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے رواں مالی سال کے دوران 40 ارب روپے لیپس کئے جانے کا تمام الزام اپوزیشن پر عائد کرکے اپنی نا اہلی اور کرپشن کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن حلقوں میں گزشتہ دو سال سے ترقیاتی کام نہیں ہو رہے، اپنے لوگوں کو نوازا جارہا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ 40 ارب روپے کو لیپس کرنے کے بجائے حکومت کوئٹہ شہر کی صفائی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے کوئٹہ کے غیر فعال ٹیوب ویلوں کی بحالی، واپڈا کے واجبات کی ادائیگی اور صفائی کے لئے مشینری کی خریداری پر خرچ کردے تو بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اپوزیشن پی ایس ڈی پی کے غلط استعمال کے خلاف عدالت گئی تھی۔

اپوزیشن ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گزشتہ تین سال کی صوبائی پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنائے سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کو اس مرتبہ بھی جام حکومت کی صوبائی پی ایس ڈی پی پر تحفظات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں نظر انداز کیا گیا تو بھرپور احتجاج کے ساتھ ساتھ مزاحمت بھی کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا پیسہ لیپس نہیں ہوتا اور نہ ہی واپس وفاق کے پاس جاتا ہے۔ حکومت کا پیسہ حکومت کے پاس ہی رہتا ہے ۔

رواں سال 80ارب کی آتھورائزیشن کی ہے جس میں سے 40 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ خرچ ہونے کے بعد جتنے پیسے رہ جاتے ہیں وہ اگلے سال کی ریفلیکٹ بیلنس شیٹ میں آجاتے ہیں، ضائع نہیں ہوتے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث متحدہ اپوزیشن بلوچستان اسمبلی کے رواں اجلاس میں بھی چھائی ہوئی ہے۔ اس عدم دلچسپی کی نشاندہی اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو بھی وزیراعلیٰ جام کمال کو لکھے گئے اپنے جوابی خط میں کرچکے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اسمبلی کے رواں اجلاس کے دوران اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سمیت اکثر وزراء کی غیر حاضری کے باعث اجلاس میں اپوزیشن ارکان حاوی نظر آئے جبکہ حکومتی ارکان دفاعی پوزیشن پر رہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حکومتی ارکان تیاری کرکے اسمبلی نہیں آتے۔

سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ ماضی میں حکومتی ارکان اجلاس سے قبل ایک مشترکہ اجلاس منعقد کیا کرتے تھے جس کے لئے باقاعدہ ایک رکن کو چیف وہیب مقرر کیا جاتا تھا اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور ایشوز پر حکومتی موقف کے حوالے سے ارکان تیاری کرتے تھے اور مختلف ارکان کی ذمہ داریاں لگائی جاتی تھیں لیکن کچھ عرصے سے حکومتوں کی طرف سے ایسی پریکٹس کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق وزیر اعلیٰ جام کمال کو چاہئے کہ جہاں وہ حکومتی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے مختلف اقدامات کر رہے ہیں، اس طرف بھی توجہ مبذول کرتے ہوئے ایک چیف وہیب مقرر کرکے بلوچستان اسمبلی میں حکومتی ارکان کی پرفارمنس کو بھی بہتر سے بہتر بنائیں اور اسمبلی میں اٹھائے گئے سوالات پر حکومت کی جانب سے ٹھوس جواب کو یقینی بنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔