انٹرنیٹ ڈیٹا، موبائل فون کالزاورایس ایم ایس مہنگے نہیں ہوں گے، وزیرخزانہ

ویب ڈیسک  ہفتہ 12 جون 2021
لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی 74 سالوں میں جو نہیں ہوا وہ ہورہا ہے، شوکت ترین۔ فوٹو:فائل

لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی 74 سالوں میں جو نہیں ہوا وہ ہورہا ہے، شوکت ترین۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: وزیرخزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ 40 لاکھ غریب ترین لوگوں کو یہ بلاسود قرضے دئیے جائیں گے۔ 

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس  کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ہر کام اللہ کے فضل سے ہوتا ہے، اور اللہ ہی نے ہمیں وسیلہ بنایا اور ہم نے کل گروتھ بجٹ پیش کیا، معاشی بہتری کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں گے، غریب کے ساتھ ہم نے سیاست نہیں کرنی وہ جہاں بھی بیٹھا ہے وہ غریب ہے، اس حکومت کا عزم ہے کہ غریب عوام کو ٹریکل ڈاوٴن اثرات کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا، لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی 74 سالوں میں جو نہیں ہوا وہ ہورہا ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ ہمیں سروے غیرسیاسی بنیاد پر  کرنا ہے، وسائل بینکوں کے پاس ہوتے ہیں، حکومت کے پاس فسکل اسپیس نہیں ہوتی، ہم نے یہ سوچا وسائل جو تقسیم ہونے ہیں وہ بینکنگ کے شعبے میں ہیں، کمرشل بینک نہ تو غریب کے گھر کے نزدیک ہوتے ہیں اور نہ چھوٹے کاشتکار کے نزدیک، چھوٹے قرضوں سے ننانوے فیصد ریکوری کا تجربہ کرچکے ہیں، یہ بتا دیا جائے گا کہ کون سے گھرانے اہداف میں شامل ہیں، 40 لاکھ گھرانوں کو چھوٹے قرضوں کی فراہمی پہلے مرحلے میں اس پروگرام کے تحت ہوگی، اس میں سیاست نہیں ہوگی ملک کے ہر کونے کے شہری ہو شامل کیا جائے گا۔

بینکوں سے سرمایہ کاری کروا رہے ہیں

وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ کمرشل بینکوں سے سرمایہ کاری کروا رہے ہیں، ضمانت حکومت کی ہوگی، اخوت انٹرنیشنل اور آر ایس پیز کو دس فیصد کی کریڈٹ انشورنس دیدی ہے، 40 لاکھ غریب ترین لوگوں کو یہ بلاسود قرضے دئیے جائیں گے، یہ قرضے غیر جانبدار و غیر سیاسی سروے کی بنیاد پر دیئے جائیں گے، غریب آدمی کو اب بہتری کا انتظار کرنا نہیں پڑے گا، کاروبار کرنے کے لئے چھوٹے لوگوں کو 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دئے جائیں گے اور یہ قرضے 3 سال کے لئے ہوں گے، 2 لاکھ روپے سالانہ چھوٹے کسانوں کو حکومت فراہم کرے گی، لوگوں کو چھت کیلئے 20 لاکھ روپے تک کے قرضے دئیے جائیں گے، شہروں میں زمین مہنگی ہے ریموٹ ایتیاز میں لوگوں کو گھروں کیلئے قرضے دیں گے۔

صحت کارڈ کا دائرہ مزید بڑھائیں گے

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت کی توجہ  معاشرے کے غریب  ترین لوگوں پر ہے، حکومت  کی چادر چھوٹی ہے سب کوآسانیاں نہیں دے سکتے،  صحت کارڈ ایک ہیلتھ انشورنس ہے اس کا دائرہ مزید بڑھائیں گے، ملک بھر میں صحت کارڈ فراہم کریں گے، صحت کارڈ کے ذریعے صحت کے مسائل حل کئے جائیں گے، سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات میسر نہیں ہے، ہمارے پاس ریونیو نہیں،  صحت کارڈ کے ذریعے نجی ہسپتال میں انشورنس کے ذریعے غریب علاج کروا سکتا ہے، پائیدار ترقی کے لئے مستقبل کو مدنظر رکھ کر فیصلے کئے ہیں، غریب لوگوں کو پیشہ ورانہ تربیت دی جائے گی۔

آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری

شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں چھٹا جائزہ جولائی تک چلے گا، آئی ایم ایف کے ساتھ ستمبر تک معاملات طے ہوجائیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے کی بنیادی وجہ یماری کمزور مالی پوزیشن ہے، درآمدات بڑھتی ہیں تو ڈالر کم پڑ جاتے ہیں، ڈالر پرنٹ نہیں کئے جاسکتے جس کیلئے ادھر ادھر دیکھتے ہیں، پھر آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ یہی مذاکرات ہورہے ہیں کہ ٹیکس پر ٹیکس نہیں لگے گا، اس لیے برآمدات کو بڑھانا ہوگا،  قومی بچت اسکیموں پر منافع کی شرح بڑھانا ہوگی، گروتھ کو پائیدار بنانا ہے، اس سال 3 لاکھ بارہ ہزار نئے ٹیکس گزاروں کا اضافہ ہوا ہے، اس میں پہلا مسئلہ ریو نیو کا نہ ہونا ہے، پی ایس ڈی پی، ایگریکلچر اور انڈسٹری گروتھ سب نے دیکھی، بجٹ میں مختلف شعبوں کو ٹیکس میں رعایت کی،  برآمدات جی ڈی پی کو بیس فیصد کرنا ہوگا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی گروتھ کو 20 فیصد تک لے جانا ہوگا، ہر سال ایک فیصد گروتھ کا کہا تھا مگر نہیں ہوسکا، اب ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ کو تیز کیا جائے گا، 8 سالوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو بڑھا کر 20 فیصد تک لے جایا جائے گا۔

عمران خان کہتے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جس طرح عمران خان کہتے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے، گھبرائیں نہ رواں سال ٹیکس وصولیاں 4700 ارب روپے تک پہنچ جائیں گی، ایف بی آر کے پاس بہت سے لوگوں کا ڈیٹا موجود ہے جو ٹیکس نہیں دے رہے، جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ان کے پیچھے جائیں گے، بڑے ریٹیلرز و درمیانے ریٹیلرز کی ایک ہزار ارب سے زیادہ کی سیل ہے، جولائی سے ہی دوسرے ریٹیلرز میں پوائنٹ اف سیل سسٹم نسب کئے جائیں گے، اس سسٹم کے ذریعے 100 ارب روپے کا ریونیو آسکتا ہے، صارفین پکی پرچی لیں گے تو انعام دیں گے ۔ صارفین کو ماہانہ 25 کروڑ روپے انعامات دیں گے جو 1 ارب تک بڑھائیں گے یہ ترکی اور باقی ملکوں میں ایسی کامیاب اسکیمیں آئیں۔

اب خوراک میں خود کفیل نہیں رہے

شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان فوڈ ڈیفیسٹ ملک بن چکاہے، وزیر اعظم کی ہدایت پر زراعت پر حکومت مراعات دے رہی ہے اور مزید دینی پڑی تو دیں گے، برآمدات اور سرمایہ کاری کو مراعات دی جارہی ہیں، اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کیلئے مواقع پیدا کررہے ہیں، مراعات کے ذریعے آئی ٹی کی برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا، زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار انڈسٹری دیتی ہے، ہاوٴسنگ کے شعبے میں قرضوں پر مارک اپ ریٹس کو کم کیا گیا ہے، عمران خان نے چھوٹے گھر والوں کو چھوٹ دی ہے اور بڑے گھروں کیلئے 7 فیصد شرح سود ہے، ہاوٴسنگ کی وجہ سے 40 سے 42 صنعتوں میں کام ہوگا۔

اسحاق ڈار نے گردشی قرضہ ختم کردیا تھا

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ  2013 میں اسحاق ڈار نے گردشی قرضہ ختم کردیا تھا، گردشی قرضہ ختم  ہونے کے بعد بڑھنا شروع ہوا، اگلے سال میں گردشی قرضے بڑھنے نہیں دیں گے، گردشی قرضوں کو کیپسٹی یوٹیلائیزیشن کے طریقے سے حل کرینگے، ہم بجلی بیچ کر قرضے اتاریں اور پاور سیکٹر کو بہتربنائیں گے۔  توانائی کے شعبے میں ایفی شنسی لائیں گے اور آزاد بورڈ کے ذریعے ڈسکوز کو درست کریں گے، اس کے بعد بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی جائیگی ہم اس کو پروگریسو طریقے سے آگے بڑھائیں گے غریب پر بوجھ نہیں ڈالیں گے قیمتیں بڑھانا درست عمل نہیں ہے وزیر اعظم اس پر واضح موقف رکھتے ہیں توانائی کو معیشت کا اہم جزو سمجھتے ہیں اور بجٹ میں اس کیلئے خطیر رقم رکھی ہے ہم نے مالی طور پر توانائی کو مستحکم کرنا ہے۔

انٹرنیٹ  ڈیٹا اور فون کالز مہنگے نہیں ہوں گے

وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں 3 منٹ سے زائد   فی کال  پر ایک روپیہ  ٹیکس کی تجویز تھی، ایک جی بی انٹرنیٹ  ڈیٹا پر 5روپے اورایس ایم ایس پر 10پیسے ٹیکس کی تجویز تھی لیکن وزیراعظم نے انٹرنیٹ  ڈیٹا اور موبائل فون کالز پر  ٹیکس کی تجویز مسترد کردی ہے، اب انٹرنیٹ  ڈیٹا، موبائل فون کالزاورایس ایم ایس مہنگے نہیں ہوں گے۔

ادھار پر تیل کی خریداری

وفاقی وزیر نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ موخر ادائیگیوں پر تیل کی خریداری کے حوالے سے بات چیت مکمل ہوگئی، توقع ہے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہونا شروع ہوجائے گی،توقع ہے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہونا شروع ہوجائے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔