کشمیر؛ کٹھ پتلی قیادت، مودی کا ڈرامہ فلاپ کیوں ہوا؟

سید امجد حسین بخاری  جمعـء 25 جون 2021
نریندر مودی سے شیر وشکر ہونے والے کشمیری رہنما نئی دہلی کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

نریندر مودی سے شیر وشکر ہونے والے کشمیری رہنما نئی دہلی کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جمعرات کا دن نئی دہلی کا موسم خاصا گرم تھا۔ جون کی تپتی دوپہر میں وزیراعظم ہاؤس کے باہر صحافیوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ میں نے کئی صحافیوں سے رابطہ کیا، سبھی کو امید تھی کہ آج بھارت سے کوئی بڑی خبر سامنے آئے گی۔ اسی دوران میں نے سری نگر پریس کلب میں موجود صحافیوں سے بھی رابطہ کیا، لیکن وہاں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیا۔ پاکستانی میڈیا کے بین الاقوامی ڈیسک پر بھی خاصی گرما گرمی تھی۔ سبھی صحافی کسی بڑی خبر کے منتظر تھے۔ یہ خبر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کٹھ پتلی اور بھارت نواز کشمیری قیادت سے ملاقات سے آنا تھی۔

سری نگر میں موجود کشمیری صحافیوں کا کہنا تھا کہ نریندر مودی نے پہلے کشمیری عوام کے گلے گھونٹ دیے اور اب مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔ نئی دہلی میں 22 ماہ کے بعد نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی 8 سیاسی جماعتوں کے 14 سیاسی رہنماؤں سے ساڑھے تین گھنٹے ملاقات کی۔ ان میں سے 3 سابق وزرائے اعلیٰ بھی تھے۔ جب کہ پانچ ایسے رہنما بھی موجود تھے جنہیں پانچ اگست کے فیصلے کے بعد جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔

اس ملاقات میں کشمیر کی بنیادی اسٹیک ہولڈر حریت قیادت کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ پابند سلاسل یاسین ملک اور شبیر احمد شاہ جیل ہی میں رہے۔ کشمیری عوام کے محبوب قائد سید علی گیلانی کو بھی اس ملاقات میں مدعو نہیں کیا گیا۔ ملاقات میں کشمیری رہنماؤں کی جانب سے پانچ مطالبات رکھے گئے تھے۔ کشمیریوں کا پہلا مطالبہ ریاست کی بحالی تھا۔ اس کے ساتھ دو سال سے معطل کٹھ پتلی جمہوریت کا خاکہ بحال کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات کا انعقاد بھی ملاقات کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ غیر کشمیری شہریوں کو ڈومیسائل کے اجرا کا معاملہ، زمین اور نوکریوں کو آئینی تحفظ کا مطالبہ بھی پیش کیا گیا۔ بھارت نواز رہنماؤں نے کشمیری پنڈتوں کی کشمیر میں آبادکاری کے معاملے پر ٹھوس پیش رفت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی نئی دہلی کے سامنے رکھا۔ کشمیر کے 14 بھارت نواز رہنماؤں کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے نریندر مودی نے انہیں ایک بار پھر ہری جھنڈی دکھا دی۔

بھارتی حکومت نے ہندو نواز قیادت کو ریاست کا تشخص بحال کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے انہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک خاموش رہنے کا مشورہ دے دیا۔ یہی نہیں بلکہ انتخابات کےلیے ریاستوں کے درمیان حد بندی کا عمل مکمل ہونا لازمی قرار دے دیا۔ اس عمل کے مکمل ہونے کی بھی کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔ ڈومیسائل مسائل کے حل اور ریاست میں کشمیری نوجوانوں کو ملازمت دینے کے معاملات پر بھی کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔ اسی طرح سیاسی قیدیوں کی رہائی کی بھی کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔

بھارت کی جانب سے کشمیری قیادت سے ملاقات کا ایک اور ڈھونگ ناکام ہوگیا ہے۔ بھارت نواز قیادت اترے چہروں اور بوجھل دل سے دہلی سے رخصت ہوگئی۔ کشمیر کے کسی بھی مسئلے کا حل کشمیری قیادت، پاکستان اور بھارت تینوں فریقین کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لیکن بھارت کی جانب سے صرف ہندوستان کے حامی سیاستدانوں سے ملاقاتیں، حریت کانفرنس کو نظر انداز کرنے اور پاکستان پر بات نہ کرنے کے معاملے نے ایک بار پھر نریندر مودی کے خبث باطن کو ظاہر کردیا ہے۔ اس ڈھونگ زدہ ملاقات سے قبل کشمیری قیادت نے پاکستان سے مذاکرات کا مشورہ بھی دیا تھا۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت نواز ان 14 سیاسی رہنماؤں کی کیا حیثیت ہے؟ بھارت نے مذاکرات کا ڈھونگ کیوں رچایا؟ مذاکرات کی ناکامی کی وجوہ کیا تھیں؟

جمعرات کا اجلاس درحقیقت مودی سرکار پر سیاسی دباؤ کا نتیجہ تھا۔ مودی سرکار جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحالی کا ارادہ رکھتی ہے، نہ ہی ریاست کے عوام کے زمینی اور آئینی حقوق کے تحفظ کے کسی مطالبے کو ماننے کو تیار ہوگی۔ اجلاس جموں و کشمیر میں کسی بڑے مسئلے میں الجھے بغیر انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی اور انتخابات کی راہیں ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جس کے بعد لداخ کو براہ راست مرکز کنٹرول کرے گا، جبکہ جموں میں ہندو اکثریت کی اسمبلی میں نشستیں بڑھ جائیں گی۔ جس کے بعد نریندر مودی کشمیر اسمبلی سے اپنی مرضی کی قانون سازی باآسانی کروا سکے گا۔

نریندر مودی سے شیر وشکر ہونے والے کشمیری رہنما نئی دہلی کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں ہیں، جنہیں کسی محلے کی پنچایت کی سربراہی کی آفر بھی کرا دی جائے تو مرکز کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ قیادت دراصل نسل در نسل نئی دہلی کی نمک خوری کرتی آرہی ہے۔ جس کا صلہ ہر دور میں کشمیری عوام کو بھگتنا پڑا ہے۔ نریندر مودی اپنے فیصلے سے کسی بھی صورت میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور کٹھ پتلی قیادت تاحال بہترین بولی کے انتطار میں ہے، اور یہ بولی ان کی نظر میں اسمبلی انتخابات میں وزارتوں کی صورت میں پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

نریندر مودی نے کشمیری رہنماؤں کو ایک ایسے وقت میں دہلی بلایا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان درپردہ مذاکرات کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

نریندر مودی اس وقت عالمی سطح پر شدید دباؤ میں ہیں۔ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو یا لداخ میں تیار بیٹھی چینی افواج، امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تاکہ دیرینہ مسائل کا دیرپا حل تلاش کیا جاسکے۔ امریکا کے اس نظریے کو پورا کرنے کےلیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بیک ڈور ڈوپلومیسی کے اہم کردار ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائز، اسلام آباد اور دلی کے مابین ویزوں کے مسائل حل کرنے میں پیش رفت، دونوں ممالک کے مابین تین سال کے وقفے سے پانی پر بات چیت کے علاوہ کھیلوں کے بحالی کے معاملات بھی اسی بیک ڈور ڈوپلومیسی کا ثبوت ہیں۔

بھارت کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاملات کو بہتر بنا کر خطے کا چوہدری بنے اور چین کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہو۔ لیکن نئی دہلی اور مودی قیادت کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، کیونکہ پاکستان کا واحد مطالبہ ہے کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے، تبھی مذاکرات کی میز سجائی جاسکتی ہے۔ بہرحال! کشمیری قیادت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد بھارت پر ایک بار پھر عالمی دباؤ بڑھنے کے امکانات ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی سرکار اس دباؤ کو کس حد تک برداشت کرسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔