ریلوے ملازمین گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں، اسی لیے حادثات ہوتے ہیں، چیف جسٹس

ویب ڈیسک  منگل 13 جولائی 2021
سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے ریلوے میں ہر طرف گڑ بڑ ہے، چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد

سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے ریلوے میں ہر طرف گڑ بڑ ہے، چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد

 اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے ریلوے میں ہر طرف گڑ بڑ ہے۔

سپریم کورٹ میں پاکستان ریلوے میں عارضی بنیادوں پر بھرتی ملازمین کی مستقلی کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے مستقل ہونے والے 80 ملازمین سے متعلق سروسز ٹریبونل کا فیصلہ معطل کردیا اور ملازمین کی مستقلی کے خلاف ریلوے کی درخواست باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرلی۔ وکیل ریلوے نے کہا کہ ملازمین 2013 میں بھرتی ہوئے جو ریلوے پالیسی 2012 کے معیار پر نہیں اترتے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ عارضی بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں، ریلوے حکام کے غیر پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے آج پاکستان ریلوے کا یہ حال ہے، سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے ریلوے میں ہر طرف گڑ بڑ ہے، عارضی بھرتی ہونے والے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں، ریلوے میں اسی وجہ سے تو اتنے حادثات ہوتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریلوے حکام سیاسی بھرتیاں کر کے پھر انہیں مستقل کرنے کے لیے سیاسی بنیادوں پر پالیسی نکالتے ہیں، ریلوے ایک حکومتی ادارہ ہے تو پھر بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کیوں کی جاتی ہے، ریلوے کی 80 فیصد آمدن تنخواہوں اور پنشن میں چلی جاتی ہے، ریلوے کا کوئی نظام نہیں ملازمین تنخواہ لے کر گھر آجاتے ہیں، عارضی بھرتیاں کر جاتے ہیں جو بعد میں ریلوے کے گلے پڑ جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے میں اب بھی ہر مہینے سیکڑوں کی تعداد میں عارضی بھرتیاں ہوتی ہیں۔ وکیل ریلوے نے جواب دیا کہ عارضی بھرتیوں پر پابندی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ افسران پابندی میں بھی راستہ نکال لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی تقرریوں نے تو ریلوے کو تباہ کردیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عارضی ملازمین مستقل کرنے کے لیے تو 2012 میں پالیسی بنائی گئی۔ وکیل ریلوے نے بتایا کہ اس پالیسی کا زیر غور ملازمین کے کیس پر اطلاق نہیں ہوتا، پالیسی 2012 میں آئی جس کا اطلاق 31 دسمبر 2011 تک کے عارضی ملازمین پر تھا، زیر غور ملازمین 2013 میں بھرتی ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔