یادداشت جانے پر 36 سالہ آدمی خود کو 16 سالہ لڑکا سمجھنے لگا

ویب ڈیسک  ہفتہ 31 جولائی 2021
وہ اپنی شادی شدہ زندگی اور بیٹی سمیت، اپنی زندگی کے 20 سال مکمل فراموش کرچکا ہے۔ (تصاویر: ڈینیل پورٹر فیس بُک اکاؤنٹ)

وہ اپنی شادی شدہ زندگی اور بیٹی سمیت، اپنی زندگی کے 20 سال مکمل فراموش کرچکا ہے۔ (تصاویر: ڈینیل پورٹر فیس بُک اکاؤنٹ)

ٹیکساس: کسی حادثے کی وجہ سے یادداشت چلے جانے کی کہانیاں اکثر فلموں اور ڈراموں میں ہی دکھائی دیتی ہیں لیکن ایسا ہی ایک سچا واقعہ امریکی ریاست ٹیکساس میں ہوچکا ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر بھی خوب وائرل ہورہا ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ڈینیل پورٹر نامی ایک 36 سالہ شخص جب پچھلے سال ایک صبح بیدار ہوا تو وہ اپنی 20 سالہ زندگی بھول چکا تھا اور خود کو اسکول میں پڑھنے والا، 16 سال کا لڑکا سمجھ رہا تھا۔ اس کی یہ کیفیت آج تک برقرار ہے۔

ڈینیل ایک ماہرِ سماعت ہے جس کی شادی 2010 میں ہوئی اور آج اس کی بیٹی 10 سال کی ہوچکی ہے۔

اس قصے کی ابتداء پچھلے سال جون میں ہوئی جب ڈینیل اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ اپنے والدین کے گھر منتقل ہوا تھا۔

والدین کے گھر پر وہ اسی کمرے میں رہ رہا تھا جہاں وہ شادی سے پہلے، اسکول کے زمانے میں رہا کرتا تھا۔

ایک صبح جب وہ اٹھا تو اپنی پچھلی 20 سالہ زندگی بھول چکا تھا اور خود کو 16 سالہ لڑکا سمجھ رہا تھا۔

ڈینیئل کی بیوی رُتھ اس کے ساتھ ہی سورہی تھی جسے دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا کہ آخر یہ کون ہے۔ اسی پریشانی میں اس نے بستر چھوڑا اور آئینے کے سامنے پہنچا تو کسی ’’موٹے ادھیڑ عمر آدمی‘‘ کا عکس دیکھ کر مزید حیران ہوا۔

وہ سمجھا کہ شاید اسے اغوا کرلیا گیا ہے اور وہ کمرے سے فرار ہونے کےلیے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔

اسی دوران رُتھ بھی جاگ چکی تھی جسے دیکھ کر ڈینیل خوفزدہ ہوگیا۔ اپنی بیوی کے بہت یاد دلانے پر بھی اسے کچھ یاد نہ آیا۔

تھوڑی ہی دیر میں ڈینیل کے والدین کو بھی اس بارے میں معلوم ہوگیا اور انہوں نے اپنے بیٹے کو پچھلے بیس سال میں ہونے والے واقعات یاد دلانا چاہے… مگر وہ بھی ناکام رہے۔

اسے نہ تو یہ یاد تھا کہ اس کی شادی ہوچکی ہے اور نہ ہی اپنی بیٹی یاد تھی جو اُس وقت 9 سال کی ہوچکی تھی۔

فوری طور پر ڈاکٹر سے معائنہ کروانے پر معلوم ہوا کہ ڈینیل کی یادداشت جاچکی ہے۔ البتہ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ یہ کوئی عجیب بات نہیں اور اس کی یادداشت دو سے تین دن میں واپس آجائے گی۔

پھر دن پر دن گزرتے گئے لیکن ڈینیل کی حالت آج تک، ایک سال گزر جانے کے بعد بھی ویسی کی ویسی ہی ہے۔ وہ آج بھی خود کو اسکول میں پڑھنے والا لڑکا سمجھ رہا ہے۔

تاہم اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ اجنبیت کا ایک سال گزارنے کے بعد وہ ان سے خاصا مانوس ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ، ڈینیل کو خود اپنی یادگار تصاویر اور فیس بُک اکاؤنٹ دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے اس کی یادداشت واقعی جاچکی ہے۔

یادداشت جانے کا یہ فلمی قسم کا واقعہ ڈاکٹروں کےلیے بھی حیران کن ہے کیونکہ ڈینیل کی یادداشت کا ایک حصہ مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے لیکن ہوش سنبھالنے سے لے کر 16 سال کی عمر کو پہنچنے تک، تمام یادداشت بالکل محفوظ ہے۔

ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹروں کے پاس بھی نہیں۔ البتہ ان کا خیال ہے کہ شاید اس کی وجہ ڈینیل کے دماغ پر مسلسل پڑنے والا دباؤ ہے کیونکہ پچھلے چند سال سے وہ مسلسل شدید مشکلات کا شکار رہا ہے۔

پہلے اس کی نوکری گئی اور بعد میں جمع پونجی ختم ہوگئی؛ لہذا اسے کرائے کا مکان چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر منتقل ہونا پڑا۔

ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ڈینیل کے دماغ پر ان حالات کا دباؤ ناقابلِ برداشت ہوچکا تھا جس کی وجہ سے اس کے ذہن نے (لاشعوری طور پر) بیس سال کی یادیں مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

البتہ، یہ صرف ایک مفروضہ ہے کیونکہ دو دہائیوں پر پھیلی ہوئی یادیں اس طرح ’’مکمل صاف‘‘ ہو جانے کا کوئی عملی نظام (مکینزم) آج تک ہمارے علم میں نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔