پاکستان کرکٹ سازش کا شکار

سلیم خالق  منگل 21 ستمبر 2021
ہماری کرکٹ کیلیے یہ بہت مشکل وقت ہے،خیر ایسے ہی وقت میں دوست دشمن کی پہچان ہوتی ہے۔  فوٹو : فائل

ہماری کرکٹ کیلیے یہ بہت مشکل وقت ہے،خیر ایسے ہی وقت میں دوست دشمن کی پہچان ہوتی ہے۔ فوٹو : فائل

’’اگر ہوم سیزن نہیں ہوا تو ہم دیوالیہ ہو جائیں گے،کروڑوں پاؤنڈز کا نقصان ہوگا،پاکستان کرکٹ بورڈ کا شکریہ جو ٹیم بھیجنے کو تیار ہوگیا‘‘

گذشتہ کچھ عرصے میں 2 بار ایسا ہوا، اس وقت تو انگلش بورڈ حکام کا لہجہ ہی بدلا ہوا تھا،ان میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری نظر آئی،ہمارے نزدیک اپنے کرکٹرز کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔

اعلیٰ حکام سمجھتے ہیں کہ یہ گاؤں دیہات سے اٹھ کر آئے ہوئے لڑکے ہیں، ان کو تھوڑی بہت جو سہولتیں ملیں کافی ہیں،حالانکہ آئی سی سی کا قانون ہے کہ انٹرنیشنل میچ کے دوران ٹیموں کا فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام کرنا ضروری ہے،گذشتہ برس پاکستان ٹیم جب انگلینڈ گئی تو اسے سہولتوں سے عاری تھری اسٹارہوٹل میں ٹھہرایا گیا، بیچارے کرکٹرزکمروں میں بند رہے۔

ان کے ساتھ قیدیوں جیسا برتاؤ ہوا، مگر ٹھنڈے کمروں میں وی آئی پی بنے پی سی بی حکام تسلی دیتے رہے کہ ملک کیلیے سب برداشت کر لو، ان دنوں انگلینڈ میں کوویڈ نے تباہی مچائی ہوئی تھی، ہم نے اس کے باوجود اپنے کھلاڑیوں کو خطرے میں ڈال کر وہاں بھیجا، سی ای او وسیم خان بار بار کہتے رہے کہ انگلش ٹیم بھی جوابی دورہ کرے گی، اب جب احسان چکانے کا وقت آیا تو احسان فراموش انگلینڈ نے سرخ جھنڈی دکھا دی،اس سے پہلے نیوزی لینڈ نے بھی ایسا ہی کیا تھا، ان دونوں ممالک نے ہماری کرکٹ کو دوبارہ سے2009 میں پہنچا دیا ہے۔

اس وقت تو سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تھا اور غیرملکی ٹیموں کا خوف سمجھ میں آتا تھا اب تو ایسی کوئی بات نہیں ہوئی پھر کیوں ہمیں تنہا کیا جا رہا ہے؟کہاں گئے وہ لوگ جو اکٹر کر دعوے کیا کرتے تھے کہ ان کے ذاتی تعلقات کی وجہ سے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیمیں پاکستان آئیں گی، اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد دونوں بورڈز نے آنکھیں پھیر لیں، ان سے اچھا تو بیچارہ سری لنکا ہے جس کے اعلیٰ آفیشل نے پھر کہا کہ اگر پی سی بی چاہے تو وہ ٹیم بھیجنے کو تیار ہیں،ہم ورلڈکپ اور چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کے خواب دیکھ رہے تھے مگر اب پھر بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔

نام نہاد رپورٹ پر دونوں ممالک ٹورز سے دستبردار ہو گئے، نیوزی لینڈ کی ٹیم کو پریکٹس کرتے اور واپس ایئرپورٹ جاتے کوئی ڈر نہیں لگا؟ ان کے بورڈ چیف اب تک سیکیورٹی تھریٹ کا بتانے کو تیار نہیں ہیں، جب تک وہ کوئی معلومات شیئر نہیں کریں گے توکیسے علم ہو گا کہ کہاں کمی رہ گئی،گذشتہ چند برس میں کئی ٹیمیں پاکستان میں آ کر کھیل گئیں۔

پی ایس ایل میں بھی بڑے بڑے کرکٹرز آئے، کسی نے کوئی شکایت نہیں کی، انگلینڈ کو گھر بیٹھے کیسے پتا چل گیا کہ خطرات ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں کہیں سربراہان مملکت کو بھی ایسی سیکیورٹی نہیں ملتی ہو گی جیسی پاکستان کرکٹرز کو فراہم کرتا ہے، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جاتا، چند دن پہلے افغانستان سے انخلا کے موقع پر جب گورے پاکستان آئے تب تو کسی کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔

اب ایسا کیا ہو گیا؟ جس طرح بھارت کرکٹ میں سیاست کو لے کر آیا اور پاکستان سے باہمی سیریز نہیں کھیلتا،کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے جومنظرنامہ تبدیل ہوا اس میں پاکستان کو نیچا دکھانے کیلیے ایسی سازشیں رچائی جا رہی ہیں، بھارت کی خوشی بتا رہی ہے کہ وہ بھی اس گیم میں برابر کا شریک ہے، کشمیر پریمیئر لیگ سے اسے جو تکلیف ہوئی تھی وہ بھی اس کا حساب برابر کرنا چاہ رہا ہوگا۔

نیوزی لینڈ مالی نقصان کی تلافی پر آمادہ ہے لیکن جو ساکھ متاثر ہوئی اس کی تلافی کون کرے گا؟ اب مجھے نہیں لگتا کہ بڑی ٹیمیں یہاں آئیں گی، پھر سے ہمیں نیوٹرل وینیوز کی جانب جانا پڑ سکتا ہے، گوکہ پی سی بی اس سے انکاری ہے لیکن بعد میں اسے بھی یہ ماننا پڑے گا۔

ایک بڑا نقصان ٹیم کی ورلڈکپ مہم کو بھی پہنچے گا،2 سیریز ملتوی ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اب ورلڈکپ میں مزید کوئی انٹرنیشنل میچ کھیلے بغیر ہی حصہ لینا پڑے گا، پی سی بی نے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کرانے کا تو اعلان کیا ہے مگر اس کا وہ معیار نہیں ہوتا جس سے بڑے ایونٹ کی تیاری ہو سکے، چیئرمین رمیز راجہ کو عالمی تنہائی سے بچنے کیلیے بھرپور حکمت عملی بنانا ہوگی، سب سے اہم بات پی ایس ایل کو مضبوط بنانے کی ہے، اس میں بڑے پلیئرز کو بلائیں تو دنیا کو بھی پیغام ملے گا کہ پاکستان کرکٹ کے ساتھ غلط ہو رہا ہے۔

اس وقت شائقین کا مورال بھی بہت ڈاؤن ہے، ایک نسل ملک میں انٹرنیشنل میچز دیکھنے سے محروم رہ گئی تھی، اب جب موقع آنے لگا تو پھر سب کچھ تبدیل ہو گیا، کرس گیل قابل تعریف ہیں جنھوں نے پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھا، ان کی ایک ٹویٹ نے لاکھوں لوگوں کو خوش کر دیا، ڈیرن سیمی سمیت اور بھی کئی غیرملکی کرکٹرز نے ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس اب کوئی آپشن بھی نہیں ہے، وہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

رمیز راجہ آئی سی کے پاس جانے کا کہہ رہے ہیں مگر اس سے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا بلکہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ والی بات ہو سکتی ہے، جیسے بھارت کیخلاف کیس کر کے ناکامی ہوئی اور بھاری رقم گنوا دی تھی۔

اب بھی دونوں بورڈز حکومت سے اجازت نہ ملنے کا جواز دے کر بچ نکلیں گے، بس اب دیکھو اور انتظار کرو والی ہی پالیسی اپنانی ہو گی، کیس کرنے جیسے فیصلوں سے صرف شائقین کی نظروں میں خود کو بڑا بنایا جا سکے گا، آئندہ کیلیے پالیسی بنائیں کہ گوروں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کرنا ہے، اپنے کھلاڑیوں کو بھی ویسی ہی سہولتیں دلانا ہیں جیسی غیرملکی ٹیموں کو یہاں ملتی ہیں، ذاتی تعلقات کچھ نہیں ہوتے بورڈز ملک کی پالیسی کے تحت چلتے ہیں، یہ بات آفیشلز کو ذہن نشین کر لینی چاہیے۔

ہماری کرکٹ کیلیے یہ بہت مشکل وقت ہے،خیر ایسے ہی وقت میں دوست دشمن کی پہچان ہوتی ہے، ہم نے پہلے بھی ایسا دور دیکھا اور اس سے عمدگی سے باہر نکلے اور امید ہے کہ اب بھی ایسا ہی کریں گے۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پرفالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔