بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

کلیات نقوی(اردو نعتیہ مجموعہ)
شاعر: سید محمد امین علی شاہ نقویؒ، مولف: سید اظہر حسین گیلانی قادری فاضلی
قیمت: 1000روپے، صفحات:572، ناشر:ادبستان، پاک ٹاور، سلطانی محلہ، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)

حضور نبی کریمﷺ کی شان بیان کرنا بہت بڑی سعادت ہے، سید محمد امین علی شاہ نقویؒ آپ ﷺ کی شان جس عقیدت اور عشق سے بیان کی ہے وہ بہت کم شعراء کے حصے میں آیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب میں آپ ؒ کے چار شعری مجموعوں کو یکجا کیا گیا ہے، 1۔ حسن محمدﷺ ، یہ نعت گوئی کی تاریخ میں پہلا مجموعہ ہے جس میں الف استعمال نہیں ہوا ، 2۔ عشق محمدﷺ، بین الاقوامی شان کا حامل تبلیغی، تعمیری اور تاریخ دیوان ہے، 3۔ محمد ﷺ ہی محمدﷺ ، غیر منقوط اردو نعتیہ مجموعہ، 4۔ ایک ہوں مسلم، اتحاد بین المسلمین سے متعلق ہے۔

حضرت صوفی برکت علی ؒلدھیانوی فرماتے ہیں ’’عربی، اردو ، فارسی اور پنجابی کے قادر الکلام شاعر ۔۔۔ صاحبزادہ سید محمد امین نقوی سلمہ اللہ تعالیٰ کا مجموعہ کلام الفاظ کی ندرت، تراکیب کی جدت ، بیان کی قدرت اور خیال کی وسعت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔‘‘ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کہتے ہیں ’’پیر طریقت جناب سید امین نقوی ؒ کی شاعری میں جہاں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے وہاں ایک خوشگوار حیرت بھی ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت عربی، فارسی، ہندی، اردو اور پنجابی میں پوری روانی کے ساتھ لکھ رہے ہیں ۔

آپؒ ذکر مصطفیٰ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی ندی گنگناتی ہوئی رواں دواں ہو، وہ عقیدت و احترام کے ان پیمانوں سے بخوبی آگاہ ہیں جو نعت کے لیے ضروری ہیں ۔‘‘ یہ کتاب عوام الناس کے لیے ایک تحفہ ہے ، بڑے سائز میں شائع کی گئی مجلد کتاب کی قیمت انتہائی مناسب ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مولف اسے ہر کس و ناکس تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔

ایسا تھا میرا کراچی
مصنف: محمد سعید جاوید، قیمت:1400 روپے، صفحات:416
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)

کراچی روشنیوں کا شہر ہے، اب بہت سے لوگ اسے ماضی کا قصہ کہتے ہیں مگر میری رائے میں کراچی کے اجالے اب بھی قائم ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان اجالوں کو دھنلانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ۔ قائد کا شہر اچھے، برے ہر طرح کے فرد کو سینے سے لگائے مسکرا رہا ہے، اس کی رونقیں اپنے جلوے گاہے بگاہے دکھاتی رہتی ہیں ۔

مصنف ہمیں اپنی انگلی سے لگائے پچاس کی دہائی میں لئے جاتے ہیں، یوں وہ ماضی کی پرتیں ہمارے سامنے کھولتے چلے جاتے ہیں، ان کی بات کراچی آمد سے شروع ہوتی ہے اور مہاجر کیمپ کے گرد گھومنے لگتی ہے جو اس دور میں ابھی موجود تھا، پھر وہ قاری کو پورے کراچی میں گھمانا شروع کر دیتے ہیں ، ڈرگ روڈ، گورا قبرستان، کراچی ایئر پورٹ، صدر، جناح ہسپتال روڈ ، وکٹوریہ روڈ ، کلفٹن وغیرہ غرض شہر کا کوئی گوشہ ان کے مشاہدے سے نہیں بچ پاتا۔کتاب کو انیس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں کراچی کے جغرافیائی تعارف کے علاوہ تہذیب و تمدن، معاشرت، سماجی تقریبات ، ثقافتی سرگرمیاں، مسلم اور غیر مسلم شہری، کھیل اور کھلاڑی، اہم سیاسی اور عمومی واقعات ، تعلیم و تدریس، اخبار اور جرائد اور کراچی کے شاعر اور ادیب جیسے اہم ابواب بھی شامل ہیں ۔

معروف ادیب اختر عباس کہتے ہیں ’’ کراچی اور لاہور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو ایک بار یہاں آ جائے پھر کہیں اور جانے کے قابل نہیں رہتا ۔ سعید جاوید کی یادیں دو چار برسوں پر نہیں پورے بیس برسوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی واقعی روشنیوں کا شہر تھا ، ہر کوئی اس کا اسیر تھا ‘‘۔ تحریر کی روانی اور بے ساختگی قاری کو اپنے ساتھ بہائے لئے جاتی ہے ۔ کراچی کے بارے میں جاننے کا شوق رکھنے والوں کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

عالمگیر جشن
تحقیق و تالیف:ڈاکٹر اختر احمد، قیمت : 1400روپے
ناشر : مائنڈ ماسٹرز، لاہور، رابطہ: 03335242146

سات ابواب، قریباً ساڑھے پانچ سو صفحات کی یہ کتاب، بقول مصنف دنیا کے ساڑھے سات ارب افراد کی دنیاوی اور اخروی خوشیوں کا لائحہ عمل ہے۔ پہلے باب میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ ساری دنیا کے لوگ ایک ہیں، وہ ایک دوسرے کے قریبی عزیز ہیں، دنیا کے ساڑھے سات ارب لوگ ایک دوسرے کے خونی رشتہ دار ہیں ۔

دوسرے باب میں ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانا ہے؟ تیسرے باب میں تلاش حق کے لئے تقابل ادیان کے مطالعہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ چوتھے باب میں اللہ کے پیغام کی بابت بات کی گئی ہے، وہ پیغام جو تاقیامت آنے والے انسانوں کے نام ہے۔ پانچویں باب میں اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے مجرموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں بتایا گیا ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک لافانی زندگی ہمارا انتظار کر رہی ہے اور حیات بعد الموت پر جدید سائنسی تحقیقات پیش کی گئی ہیں۔ ساتویں اور آخری باب میں تخلیق انسان اور مقام انسانیت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

زیر نظر کتاب دراصل محبت کا ایک پیغام ہے جسے مصنف نے نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں نفرت نہ ہو، صرف محبت ہو اور اس کے لئے ایک عالمی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ مصنف نے اس کا طریقہ کار بھی بیان کیا ہے جس کے نتیجے میں محبت کا پیغام دنیا کے ساڑھے سات ارب لوگوں تک پہنچ سکتا ہے۔ مصنف کا جذبہ اور کوشش لائق تحسین ہے، اس کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہونی چاہئیے۔

بیگم جناح ( رتن بائی پٹیٹ سے مریم جناح تک)
مصنف : ڈاکٹر سعد خان : قیمت : 800 روپے
ناشر : بک کارنر، جہلم ، (واٹس ایپ نمبر : (03215440882

ہمارے یہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شریک حیات محترمہ مریم جناح پر بہت کم لکھا گیا ہے، اس لئے بہت سے لوگوں کو محض اتنا سا ہی معلوم ہے کہ وہ ’ رتن بائی‘ تھیں، قائد اعظم کی ہم سفر ہوئیں تو ’مریم جناح‘ بن گئیں اور بس! حالانکہ انکی زندگی کی تفصیلات بہت سی ہیں۔محترمہ مریم جناح ( سابقہ رتن بائی ) کون تھیں؟ ان کا خاندانی پس منظر کیا تھا؟ ان کی زندگی کے ابتدائی مہ و سال کیسے تھے؟ جناح اور پٹیٹ ( رتن بائی کے ) خاندان میں مراسم کیسے شروع ہوئے؟ قائد اعظم سے رتن بائی کی شناسائی کیسے ہوئی؟

دونوں کے مابین محبت کیسے پروان چڑھتی رہی؟ وہ رتن بائی سے مریم کیسے بنیں؟ قائد اعظم اور مریم کی شادی کب اور کہاں ہوئی؟ جناح ہائوس کیسے ایک جنت کی مثال بنا؟ زیر نظر کتاب میں ان سوالوں کے بھرپور جوابات موجود ہیں۔ اور اس سوال کا جواب بھی کہ آزادی کے لئے قائد کی جدوجہد میں محترمہ کا کیا کردار تھا؟ ولینگڈن مخالف احتجاج، ہارنمین جلاوطنی مخالف مہم، ٹریڈ یونین کی نائب صدارت کی پیشکش کا قصہ، گاندھی جی سے خط وکتاب کا آغاز اور پھر سیاسی روابط، عدم تعاون کی قرار داد اور بیگم جناح سے بدسلوکی، تحریک خلافت کی بابت ان کا موقف، یہ سب ان کی سیاسی سرگرمی کے عنوانات ہیں۔

محترمہ مریم جناح اپنے شوہر کی طرح راست بازی اور دیانت داری کا مجموعہ تھیں۔ اگرچہ وہ محض انتیس برس ہی زندہ رہیں تاہم اس دوران انھوں نے پہلی جدت پسند مسلم خاتون رہنما کے طور پر سرگرم کردار ادا کیا۔کتاب میں نہایت تفصیل سے اس کا تذکرہ موجود ہے۔ بہت سی کتب کا نچوڑ یہ کتاب مجموعی طور پر 16ابواب پر مشتمل ہے۔ ممتاز محقق اور سکالر پروفیسر ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ کے الفاظ مستعار لوں تو ’’ صاحب کتاب نے مریم کے مزاج ، ذوق ، قرینہ ، پسند، ناپسند کے حوالے سے ان کی زندگی کے عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور ایک عہد کی ذہنی ساخت کو سمجھنے کا موقع دیا ہے۔‘‘

آوازِ عشقّ
مصنف : قیصر اقبال ، صفحات: 343، قیمت: 900/ روپے
ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، لاہور


محمد رفیع فن کی دنیا کا ایسا بے تاج بادشاہ ہے جس نے ایک عرصہ تک اس برصغیر میں اپنی مدھر آواز کا جادو جگایا اور لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔ محمد رفیع نے جس دور میں گلوکاری کے میدان میں قدم رکھا اس دور میں کے ایل سہگل، استاد بڑے غلام علی خاں، شمشاد بیگم، استاد جھنڈے خاں، علی بخش ظہور، اسی مہندر وغیرہ ایسے بڑے اور نامور فنکار موجود تھے اور جن کا آواز کی دنیا میں طوطی بولتا تھا۔ ان مہان گلوکاروں کی موجودگی میں اپنے لیے جگہ بنانا اور جگہ بنانا ہی نہیں اپنی انفرادیت قائم کرکے اپنے فن کا لوہا منواناایک ایسا کارنامہ تھا جس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

یہ ان کی آواز ہی کا اعجا ز ہے کہ آج بھی کم وبیش تین عشرے گزرنے کے باوجود ان کے گائے ہوئے نغمات کانوں میں رس گھولتے اور سننے والوں پر ایک سحر طاری کردیتے ہیں۔ ’’آواز ِعشق‘‘ دراصل اس عظیم فنکار کو خراج ِ عقیدت پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ محمد رفیع کی سوانح حیات نہیں اور نہ ہی ان کے حالات ِزندگی کو پیش کرنے کی کوئی شعوری کوشش بلکہ اس میں اس عظیم فنکار کی گائیکی، اس کی آواز، لہجے اور الفاظ کی ادائیگی کو تکنیکی بنیادوں پر پرکھا گیا ہے اور اسے سائنسی طریقے سے سمجھنے کی سعی کی گئی ہے۔

اس طرح یہ کتاب ایک داستانِ حیات سے کہیں بڑھ کر ایک تحقیقی اور تخلیقی فن پارہ کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی قدر و منزلت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس لحاظ سے کتاب کے مولف قیصر اقبال ڈھیروں داد کے حقدار ٹھہرتے ہیں کہ جنہوںنے خالص فنی بنیادوں پر محمد رفیع کی آواز پر برسوں تحقیق کرکے ایک معرکۃ الآرا کتاب تخلیق کی۔ یہ کتاب پڑھ کر محمد رفیع کی عظمت قاری کے دل میں اجاگر ہو جاتی ہے اور وہ قدرت کی طرف سے اسے ودیعت کردہ اس نعمت پر رشک کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ بلا شبہ محمد رفیع ایک لیجنڈری فنکار تھے اور ایسے فن کار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ فلم سنگیت اور فن موسیقی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب کسی تحفہ سے کم نہیں ہے۔

ہجرت
مصنف: حسنین جمیل ، صفحات: 128، قیمت: 400/ روپے
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لاہور

’’ہجرت‘‘ نوجوان افسانہ نگار حسنین جمیل کی تیسری نثری کتاب ہے اس سے پہلے ’’کون لوگ‘‘ اور ’’امرتسر 30 کلومیٹر‘‘ کے عنوان سے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور قارئین سے سند قبولیت حاصل کر چکے ہیں، حسنین جمیل بنیادی طور پر صحافی ہیں اس لیے ان کی مشاہداتی حس انہیں موضوعات کے انتخاب میں قدرتی رہنمائی مہیا کرتی ہے، حسنین جمیل افسانہ نویسی کے فن سے خوب آشنا ہیں وہ ترقی پسند سوچ اور نظریہ رکھنے کے باوجود قاری کو زبردستی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اپنے دلچسپ اسلوب، کہانی کی خوب صورت بنت کی مدد سے قاری کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ کتاب میں درجن بھر افسانے شامل ہیں اور یہ تمام افسانے اپنے اسلوب، بیانئے اور مواد کے اعتبار سے مصنف کے بہترین افسانے قرار دیے جا سکتے ہیں۔

ان کہانیوں میں کہیں بھی ابہام نہیں پایا جاتا، سیدھا سادہ انداز جس میں قاری کو افسانہ نگار کا پیغام پوری صراحت کے ساتھ ملتا ہے۔ بے عیب اظہار کی یہی خوبی ان کے افسانوں کا حسن ہے۔ معروف فکشن رائٹر اور ترقی پسند دانش ور خالد فتح محمد کتاب کے دیباچے میں رقم طراز ہیں ۔

’’ حسنین جمیل نے اپنے افسانہ نویسی کے سفر کا آغاز یک رخی کہانیوں سے کیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کے فن میں بہتری آتی گئی اور زیر نظر مجموعے میں اس کا فن اپنے ارتقائی سفر پر گامزن نظر آتا ہے‘‘۔ نوجوان افسانہ نویسوں کو اس افسانوی مجموعے کا مطالعہ ضرورکرنا چاہیے۔

مجموعہ کلام ’’بوسیدہ رشتے‘‘
تبصرہ نگار : محمد علی سوزؔ، شاعرہ : ندا خان،
سنِ اشاعت : 2015ء، تعداد : 1000

نئی نسل کی نمائندہ شاعرہ ندا خان کا پہلا مجموعہ کلام ’’ بوسیدہ رشتے‘‘ادب کی دنیا میں نیا اضافہ ہے۔ندا خان نے چند سال قبل شعری دنیا میں قدم رکھااور انتہائی قلیل وقت میں ادب کے قارئین کو ’’ بوسیدہ رشتے ‘‘ کے عنوان سے ایک تحفہ دیا۔ندا خان کراچی کے ادبی منظر نامے پر چند سال قبل ابھریںاور ادب سے وابستہ افراد کے درمیان خود کو منوانے میں کامیاب ہوئیں۔ ندا خان نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کی ڈگری کے حصول کے بعد شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوئیں اور اب تک وابستہ ہیں۔وہ خود کہتی ہیں کہ انھیں لکھنا،پڑھنا،پینٹنگ کرنا اور غزلیں سننا بے حد پسند ہے۔

ندا خان کے زیرِ مطالعہ زیادہ تر قتیل شفائی، علامہ اقبال، وصی شاہ اور پروین شاکر کا مجموعہ کلام رہتا ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب ’’ بوسیدہ رشتے‘‘ کم صٖفحات پر مشتمل مجموعہ کلام ہے۔جس میں 14 غزلیں، 40نظمیں اور لاتعداد اشعار موجود ہیں۔ندا خان کے کلام میں کہیں کہیں ناہمواری بھی پائی جاتی ہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور کے چند شاعرات کی طرح وہ سادے کاغذ پر اصلاح لینے سے گریزاں ہیں۔جو بھی ہے اور جیسا بھی ہے کہ مصداق وہ اپنا ذاتی کلام نذرِ سامعین کردیتی ہیں تا کہ اپنا ضمیر مطمئن رہے۔فی الحال وہ اپنے دوسرے شعری مجموعے کی اشاعت کی طرف سنجیدہ ہیں ۔جو جلد ہی قارئین کے ہاتھوں میں ہوگی۔

ہردم رواں ہے زندگی
مصنف: شیخ محمد انور، قیمت:1500روپے، صفحات:475
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، والٹن روڈ، لاہور کینٹ (03000515101)

کچھ لوگ گفتار کے ماہر ہوتے ہیں اور کچھ قرطاس پر قلم کی جولانیاں دکھاتے ہیں، تحریر و تقریر کے بیک وقت ماہر کم ہی ہوتے ہیں۔ شیخ محمد انور ریلوے یونین کے لیڈر ہیں وہ جہاں تقریروں سے مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں وہیں انھوں نے قلم کا میدان بھی خالی نہیں چھوڑا ہے ۔

زیر تبصرہ کتاب ان کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو مختلف جرائد اور رسالوں میں شائع ہوئے۔ ابتدا میں سیرت رسولﷺ ، اسلامی تہواروں اور سوانح ممشاہیر اسلام و پاکستان کے مضامین شامل کئے گئے ہیں، اس کے بعد میرا خاندان، قومی ایام، ریلوے ، سفر در سفر کے عنوانات کے تحت مضامین ہیں، آخر میں متفرق مضامین ہیں۔ ان کا انداز تحریر رواں اور دلنشین ہے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق فرماتے ہیں ’’شیخ محمد انور کی تحریریں ایک مزدور رہنما کے قلم کا شاہکار دکھائی دیتی ہیں جن میں انھوں نے اپنے جذبوں کی آنچ دوسروں تک منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔‘‘معروف صحافی و کالم نویس عامر خاکوانی کہتے ہیں ’’شیخ انور کے مضامین کا خاص انداز ہے۔ وہ مضامین کے آغاز میں متعلقہ موضوع کا مختصر اور جامع تاریخی پس منظر بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد پر تحریر کے خدوخال تراشتے ہیں۔

یوں ان کی تحریر دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ معلوماتی بھی بن جاتی ہے۔ ان مضامین میں پاکستان کی تاریخ کا خاکہ بھی ملتا ہے اور حال کا احوال بھی۔ وہ جس طرح عملی زندگی میں ہر جبر اور ناانصافی کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتے ہیں اسی طرح اپنی تحریروں میں بھی بے باک ہیں۔‘‘ سینئر صحافی حامد ریاض ڈوگر کہتے ہیں ’’ہر دم رواں ہے زندگی‘‘ شیخ صاحب کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے متنوع مضامین کا مجموعہ ہے، مجھے ان میں سے اکثر کو اشاعت سے قبل دیکھنے کا موقع ملا، ان میں واردات قلبی بھی ہے، معلومات بھی، ملک و قوم کی خدمت اور اصلاح کا جذبہ بھی ۔۔۔‘‘ آخری صفحات کو رنگین تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔ نوجوان نسل کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔