کچھ گمشدہ محمود ہاشمی کے بارے میں

انتظار حسین  جمعـء 7 فروری 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ارے محمود ہاشمی بھی گزر گئے۔ ضرور کسی نہ کسی اخبار میں خبر آئی ہو گی مگر ہمیں تو ایک کالم کے ذریعہ اس کا پتہ چلا۔ یہ منصور آفاق کا کالم تھا۔

اب کتنے یار پوچھیں گے کہ کون محمود ہاشمی یا یہ کہ کونسے محمود ہاشمی۔ تو سنئے کہ اردو ادب کی حالیہ تاریخ میں دو محمود ہاشمی گزرے ہیں۔ ان دو میں حد امتیاز اس طرح قائم ہوئی کہ ہم نے ایک کو کشمیر اداس ہے‘ والا محمود ہاشمی کہا‘ دوسرے کو اردو سروس (اے آئی آر) والے محمود ہاشمی۔ یہ دوسرے ہاشمی ہندوستان کی اردو دنیا میں اس وقت طلوع ہوئے تھے جب اول الذکر محمود ہاشمی تھوڑا عرصہ منظر میں رہ کر پس منظر میں اس طرح گئے کہ کم و بیش گم نظر آتے تھے۔ تو یہ دوسرے محمود ہاشمی آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے وابستہ تھے اور وہاں خوب چہکتے تھے۔ ادھر جو دلی میں نئے اردو کے ادیب زور شور سے ابھرتے تھے، ان کے بیچ میں خوب چہکتے نظر آتے تھے۔ لیکن جلد ہی بجھ گئے۔

یہ جو کشمیر اداس ہے‘ والے محمود ہاشمی تھے یہ ویسے تو تقسیم سے پہلے کے زمانے سے چلے آ رہے تھے مگر کچھ زیادہ نمایاں نہیں ہو پائے تھے۔ تقسیم کے فوراً بعد اس وقت جب تقسیم کے زمانے میں بستی بستی قیامتیں اٹھ رہی تھیں فسادات برپا تھے اور ادب کا عمومی موضوع بنے ہوئے تھے تو غزل نظم افسانہ اور ناول ہی کے بیچ ایک اور صنف نے بھی اچانک اہمیت اختیار کر لی۔ وہ تھی رپورتاژ کی صنف۔ شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ وہ جنہوں نے آنکھوں دیکھی اور اپنے آپ پہ بیتی براہ راست بیان کی اس کی قدر و قیمت زیادہ نظر آئی۔ چند ایک رپورتاژ بہت نمایاں ہوئے۔ جیسے شاہد احمد دہلوی کا رپورتاژ دلی کی بپتا، یا فکر تونسوی کا چھٹا دریا‘۔

اسی ہنگام ’نیا دور‘ میں ایک رپورتاژ چھپا ’پیر پنچال کے قیدی‘۔ چھپتے ہی اسے پر لگ گئے۔ یہ اور پھر جلد ہی ان کے رپورتاژوں کا مجموعہ کشمیر اداس ہے‘ کے نام سے شایع ہوا۔ پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ کشمیر کے اندر کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔ وہاں سری نگر میں محمود ہاشمی یوں تو تعلیم کے شعبہ سے وابستہ تھے مگر انھیں ہوم گارڈز کے نائب کمانڈر کا عہدہ تفویض ہوا کہ شہر شہر گھومو۔ کشیدہ حالات کو دیکھو اور امن بحال کرنے کی کوشش کرو۔ اس عمل میں جو کچھ انھوں نے دیکھا‘ سنا اور سہا اسے قلمبند کرنا شروع کر دیا۔ تھوڑا اس دوران لکھا۔ پھر اس سارے طوفان کو رپورتاژوں کی شکل میں اس وقت سمیٹا جب انھوں نے موقعہ پا کر ’’دریائے چناب کو سلال کے مقام سے عبور کیا اور اپنی ہوم گارڈز والی بندوق سمیت اس علاقے میں داخل ہو گیا جہاں ہندوستانی طیارے دن رات بم برسا رہے تھے‘‘۔ سو یوں ہوا کہ اس کتاب کا ’’زیادہ حصہ اتفاق سے مجھے تراڑ کھل کے جنگلوں میں بیٹھ کر لکھنا پڑا‘‘۔ پھر کچھ حصہ کراچی اور پنڈی میں بیٹھ کر لکھا گیا۔ ان دنوں اس قلم کو ممتاز شیریں کی حوصلہ افزائی بھی حاصل تھی۔ کشمیر اداس ہے‘ کے عنوان کے تحت چار رپور تاژ۔ چناروں کی آگ‘۔ پیر پنچال کے قیدی‘ نفرت کے درمیان‘ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب‘‘۔ ابتدا میں دیباچہ ممتاز شیریں کا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورتاژ خالی رپورتاژ نہیں‘ اس سے بڑھ کر ان کا مقام ہے۔ یہاں فن نے دستاویز سے شکست نہیں کھائی ہے۔ اس میں ڈاکو منٹری اور آرٹ کا صحیح امتزاج ہے۔ لیجیے پھر تو کشمیر کے بارے میں اس دستاویزی بیان کو، جو ادبی قدر و قیمت بھی رکھتا تھا، شہرت اور مقبولیت کے پر لگ گئے اور محمود ہاشمی عہد کے ایک ممتاز ادیب کے طور پر جانے گئے۔

مگر پھر یوں ہوا کہ محمود ہاشمی لندن سدھار گئے۔ لگتا تھا کہ انھیں گمان ہے کہ انھیں جو فریضہ انجام دینا تھا وہ انجام دے چکے۔ جب دوبارہ وہ واپس پاکستان آئے تو وہ ساٹھ کی دہائی کا آغاز تھا۔ اس وقت ہم نے نئے نئے نکلنے والے اخبار مشرق سے وابستہ تھے۔ وہاں ہم نے ہاشمی صاحب کو آتے جاتے دیکھا۔ اب وہ صحافت میں اپنا جوہر دکھانے کے لیے پر تول رہے تھے۔ ہماری ان سے وہاں ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ لگتا تھا کہ وہ اپنے کشمیر اداس ہے‘ والے زمانے کو بھول چکے ہیں۔ اب ان پر صحافت کا سودا سوار تھا۔ سو انھوں نے اس میں اپنا جوہر دکھایا۔ لندن میں بیٹھ کر ہفتہ وار ’مشرق‘ نکالا اور خوب نکالا۔ اس حساب سے لندن میں اردو صحافت کے آغاز کا سہرا ان کے سر بندھا۔ پھر ہم اسی حیثیت میں ان کا ذکر اذکار اپنے دفتر میں بیٹھے سنتے رہے۔

مگر زمانے بعد جب ایک مرتبہ پھر پلٹ کر ادھر آئے تو ہم نے دیکھا کہ انھیں اپنے بھولے زمانے کے دن شدت سے یاد آ رہے ہیں۔ اب وہ اس تگ و دو میں تھے کہ ادیب بن کر جو انھوں نے وقت گزارا تھا اس دور کی تحریروں کو ٹٹول کر یکجا کیا جائے۔ اور اب انھیں یاد آیا کہ ارے ’کشمیر اداس ہے‘ کا ایک ایڈیشن آیا اور کب کا ختم ہو گیا۔ اس کا نیا ایڈیشن مرتب کیا جائے۔ اس ایڈیشن میں انھوں نے ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ عنوان تھا‘ چالیس سال بعد‘ کچھ اپنی باتیں‘ لکھتے نامہ لکھے گئے دفتر۔ مقصود یہ تھا کہ کتاب کے اختتامیہ کے طور پر کوئی مختصر تحریر لکھی جائے لیکن قلم چلا سو چلا۔ لیجیے اس بہانے پوری کتاب لکھی گئی۔ اسے خود نوشت کہہ لیجیے۔ یہ خود نوشت بھی خوب ہے ایک ایسے لکھنے والے کی جس نے ایک رو میں کیا کچھ لکھا اور پھر زندگی کی دوڑ میں اپنے لکھے کو یکسر بھول گیا۔ چالیس سال کے بعد جا کر اسے پھر وہ زمانہ یاد آیا۔ لاہور بیٹھ کر دوسرا ایڈیشن مرتب کیا۔ الفیصل پبلشرز نے اسے اہتمام سے شایع کیا۔ اب یہ ایڈیشن دو کتابوں پر مشتمل ہے۔ چالیس سال پہلے کی کتاب کشمیر اداس ہے‘ اور چالیس سال بعد کی لکھی ہوئی کتاب کچھ اپنی باتیں‘‘۔ اور ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ نیا ایڈیشن انھوں نے کس شوق سے مرتب کیا اور چھپوایا اور پھر لندن جا کر سب کچھ بھول گئے۔

اب لندن سے ان کے انتقال کی خبر آئی ہے تو لیجیے ہمیں بھی محمود ہاشمی پھر یاد آ گئے۔ ان کے چالیس سال بعد کی تحریر ہم پڑھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ تحریر بھی ان کی عجب ہے۔ بتاتے ہیں کہ وہ دوست اپورب جس کا ذکر ’’کشمیر اداس ہے‘‘ میں بار بار آتا ہے اس سے لندن میں مڈھ بھیڑ ہو گئی تھی۔ اس پہلی ملاقات میں کشمیر اداس ہے‘ کا حوالہ البتہ آیا تھا۔ اس کے بعد لندن میں اس سے ملاقاتیں ہوتی رہیں لیکن پھر کبھی نہ اس کتاب کا ذکر درمیان میں آیا نہ وہ کشمیر کا پر آشوب زمانہ یاد آیا۔ کمال ہے اس طرح بھی ہوتا ہے کہ ایسے پر آشوب دور کو جو لکھنے والے کے لیے تجربہ بنا ہو وہ اسے سرے سے فراموش ہی کر دے۔ محمود ہاشمی کتنی عجیب شخصیت تھے اور کتنے نرالے لکھنے والے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔