غریبوں کا پیکیج، محض دھوکا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 20 نومبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ اور بلوچستان کے باسیوں کے لیے بری خبر یہ ہے کہ حکومت کے حالیہ احساس دانش پروگرام سے مستفید نہیں ہوسکیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں فخر سے یہ اعلا ن کیا تھا کہ پسماندہ شہریوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ رقم ملے گی۔ یہ رقم چھ ماہ تک فراہم کی جائے گی۔

وفاقی وزراء نے وزیر اعظم کے اس پیکیج کو انقلابی قرار دیتے ہوئے مہنگائی کے حل کا فارمولہ بتایا اور ٹی وی ٹاک شو میں دعوے کرتے رہے کہ اب غریب آدمی بجلی، گیس، پٹرول اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافہ سے بچ جائیں گے۔ وزیر اعظم کی غربت کے خاتمہ کی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے دعوی کیا تھا کہ پہلے 48گھنٹوں میں سرکاری پورٹل پر 136 ملین درخواستیں موصول ہوئی تھیں مگر ان 136 ملین شہریوں کو بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں کا علم نہیں تھا اور شاید وفاقی کابینہ کے بیشتر اراکین بھی اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ ٹیکنوکریٹس نے یہ پیکیج اس مفروضہ کی بنیاد پر تیار کیا تھا کہ وفاق سے زیادہ صوبے اس امدادی پیکیج کے لیے رقم فراہم کریں گے ، مگر حکومت اور اس کے اقتصادی مشیروں نے یہ زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ اس بارے میں صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے۔

اب سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے وزیر اعظم کے اس پیکیج کے لیے 65 فیصد رقوم ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس پیکیج کے تحت پنجاب کو 41.6 بلین روپے، کے پی کو 15.30 بلین روپے، سندھ کو 21.46 روپے، آزاد کشمیر کو 1.11 بلین روپے اور گلگت بلتستان کو 5بلین روپے فراہم کرنے تھے۔ اس پیکیج کے تحت رجسٹرڈ افراد کو سپر اسٹور اور یوٹیلٹی اسٹور پر بنیادی اشیاء دالیں اور خوردنی تیل وغیرہ رعایتی قیمتوں پر دستیاب ہوگا۔ اس پیکیج کے تحت آٹا پر 22  روپے ، گھی پر 105روپے اور دالوں پر 55 روپے پر امدادی قیمت دی جائے گی۔ اقتصادی امور پرکام کرنے والے صحافیوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کی مشترکہ حکومت ہے مگر بلوچستان کی حکومت یہ بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اقتصادی ماہرین کا پہلے سے یہ کہنا تھا کہ یہ ایک کمزور پیکیج ہے جس کے تحت غریب آدمی کو سپر اسٹور اور یوٹیلٹی اسٹورز کے دروازوں پر لائن لگانی پڑیں گی۔  سندھ اور بلوچستان میں تو اس پیکیج پر عملدرآمد ہی نہیں ہوگا، یوں ملک کی آبادی کا ایک حصہ اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاسکے گا۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وفاق کو اپنے وسائل سے اس پیکیج کے اخراجات پورے کرنے چاہئیں مگر تین سالہ دور کی ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں وفاق یہ رقم فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اس وقت ملک بد ترین مہنگائی کے دور سے گزر رہا ہے۔ حکومت ہر کچھ دنوں بعد بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے۔

اس حکومت نے گزشتہ سال شوگر انڈسٹری سے جنگ کا آغازکیا ۔ یہ جنگ تحریک انصاف کے اندرونی جھگڑوں کی بنیاد پر شروع ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے شوگر انڈسٹری کے کرتا دھرتا گروہ کو شوگر کی قیمتوں میں اضافہ کا ذمے دار قرار دیا۔ وزیر اعظم نے یہ دائرہ شریف خاندان اور زرداری خاندان تک بڑھادیا۔

ایف آئی اے نے جہانگیر ترین، ان کے صاحبزادہ علی ترین، شریف خاندان اور اومنی گروپ کے خلاف کارروائی شروع کی۔ اومنی گروپ کے بارے میں حکومتی حلقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اومنی گروپ دراصل سابق صدر زرداری گروپ کے کاروبار کا ذیلی ادارہ ہے۔ ایف آئی اے نے شوگر ملز کے دفاتر پر چھاپے مارے ، میڈیا پر مختلف نوعیت کے انکشافات سامنے آئے۔ جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادہ علی ترین پر مقدمات درج ہوئے۔ ایف آئی اے نے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادہ حمزہ شہباز کو طلب کیا۔ جہانگیر ترین اور علی ترین نے عدالتوں سے ضمانت کرائی۔

وفاقی حکومت درآمدی پالیسی میں تبدیلی کرنے پر توجہ نہ دے سکی۔ اس غریب ملک میں صابن ، ٹشو پیپر، ٹوتھ پیسٹ، بسکٹ اور ٹوتھ برش جیسی اشیاء بھی درآمد ہوتی ہیں ، یوں ایک طرف تو مقامی انڈسٹری تباہ ہوتی ہے اور زرمبادلہ میں کمی کا بحران برقرار رکھتا ہے۔ حکومت روپے کی قدر میں کمی کے مسئلہ کو حل نہ کرسکتی ہے۔ اس وقت پاکستانی روپے کی قدر بنگلہ دیشی ٹکا اور بھارت کے روپے کے مقابلہ میں کم ہے ۔ پاکستانی روپیہ صرف افغانستان کی کرنسی سے بہتر ہے ۔

وزیر اعظم مہنگائی کو دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے منسلک کرتے ہیں ، یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں بھارت اور بنگلہ دیش سے کم ہیں مگر وزیر اعظم اس حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ ان ممالک کی کرنسی بہت مستحکم ہے۔

گیس کی قلت سے ایک طرف بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے تو دوسری طرف سی این جی پر چلنے والی گاڑیوں کے مالکان مشکل میں آجاتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے گیس کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایل این جی گیس کی درآمد کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے وزیر توانائی شاہد خاقان عباسی نے  قطر سے ایل این جی کی درآمد کا فیصلہ کیا تھا اور قطر پانچ سال تک ایل این جی درآمد کرنے پر تیار ہوگیا تھا۔ ایل این جی کی رسد آنے سے ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم ہوگئی تھی مگر موجودہ حکومت میں ایل این جی کی قیمتوں کے معاہدہ کے خلاف مہم چلائی گئی۔ نیب نے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کو گرفتار کیا ، یہ لوگ 9ماہ کے قریب مختلف جیلوں میں بند رہے۔ کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا مگر موجودہ حکومت اپنے مؤقف کے تضاد کی بناء پر قطر سے ایل این جی کی درآمد کا معاہدہ نہ کرسکی۔ ایک اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ حکومت نے مہنگی قیمتوں پر بہت دیر سے قطر سے معاہدہ کیا، یوں ملک ایک دفعہ پھر توانائی کے بحران کا شکار ہوا۔

موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت غیر پیداواری اخراجات میں کمی نہ کرپائی۔ بعض مخالفین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کو غیر پیداواری اخراجات کم کرنے کا اختیار نہیں ہے مگر حکومت اس مد میں ہر سال اضافہ کی پابند ہے۔ یوں حکومت کا خزانہ غریبوں کے لیے خالی ہے اور وہ صوبوں سے بھیک مانگ رہی ہے۔ پاکستان کو عالمی منظرنامہ میں وہ حمایت حاصل نہیں ہورہی ہے جو ماضی میں حمایت ملی۔ وفاقی وزراء کے دعوؤں کے باوجود پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے فہرست سے نکل نہیں پایا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ میں دیرکی وجہ بھی یہی ہے۔

یورپی پارلیمنٹ کی نائب صدر نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ پاکستان کی ڈیوٹی فری مارکیٹ تک رسائی پر نظرثانی کی قراردادوں کی منظوری کے ذریعہ یورپی پارلیمان نے عندیہ ظاہر کیا تھا کہ یہ سہولت انسانی حقوق سے متعلق ہیں اور پاکستان کے وعدوں کی تکمیل سے منسلک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے معاملہ پر پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ جی ایس پی پلس کی سہولت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مزید عملدرآمد کے بغیر ملتی رہے گی۔ یورپی یونین کی پارلیمانی نائب صدر کا یہ بیان خطرہ کی گھنٹی ہے۔ حکومت اگر عوام کی بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو پھر بنیادی پالیسیوں میں ادارہ جاتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کا احساس پیکیج محض دھوکا ثابت ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔