پانامہ اور پیراڈائز کے بعد پنڈورا پیپرز کے ہوشربا انکشافات

ڈاکٹر ملک آصف چنڑ  اتوار 5 دسمبر 2021
ترقی پذیر ممالک سے سرمایہ چوری کر کے بیرون ملک چھپانے کے رجحان کا قلع قمع کئے بغیر ترقی ناممکن ہے۔فوٹو : فائل

ترقی پذیر ممالک سے سرمایہ چوری کر کے بیرون ملک چھپانے کے رجحان کا قلع قمع کئے بغیر ترقی ناممکن ہے۔فوٹو : فائل

پانڈورا پیپرز کی تحقیقات دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا انکشاف ہے، جس میں 117 ممالک کے 150 میڈیا آؤٹ لیٹس کے 600 سے زائد صحافی شامل ہیں۔

پنڈورا پیپرز 12ملین سے زیادہ لیک ہونے والی دستاویزات کا ایک اجراء ہے جو تقریباً 3 ٹیرا بائٹس ڈیٹا پر مشتمل ہیں۔ یہ ٹیکس ہیونز، شیل کارپوریشنز، اور آف شور اکاؤنٹس کے ایک پیچیدہ جال کو بے نقاب کرتے ہیں جو اربوں ڈالر کے اثاثوں کی حقیقی ملکیت کو چھپاتے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔

یہ امیروں اور اشرافیہ کے پوشیدہ غیر اخلاقی یا پھر بدعنوانی پر مبنی معاملات سے پردہ اُٹھاتا ہے۔ ممتاز عالمی رہنما، سیاست دان، کارپوریٹ ایگزیکٹوز، مشہور شخصیات اور ارب پتی اس میں شامل ہیں۔ یہ اب تک جاری ہونے والا اس طرح کا سب سے بڑا ڈیٹا ڈمپ ہے جو پچھلے پاناما پیپرز اور پیراڈائز پیپرز لیکس سے بڑا ہے۔یہ اکتوبر 2021 کے شروع میں منظر عام پرآیا۔

دستاویزات میں ایسے افراد کی غیر ملکی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیکس شیلٹرنگ اسکیموں کا بھی پتہ چلتا ہے۔اسے ”Pandora” کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ دستاویزات مستقبل میں تحقیقات اور مقدموں کا پنڈورا باکس کھولنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

3ٹیرا بائٹس کا ڈیٹا  جو آئی سی آئی جے اور دنیا بھر کے میڈیا پارٹنرز کو مہیا کیا گیا مختلف صورتوں میں ہے۔

1۔دستاویزات

دستاویزات میں درج ذیل شامل ہیں:

٭پاسپورٹ ، ٭بینک اسٹیٹمنٹ ، ٭ٹیکس ڈیکلریشن ، ٭کمپنی انکمپوریشن ریکارڈ ، ٭رئیل اسٹیٹ کنٹریکٹ اور سوالنامے

2۔تصاویر

3۔ای میلز

4۔اسپریڈ شیٹس و دیگر

11.9 ملین سے زیادہ کے ریکارڈ میں آدھی سے زیادہ تر فائلیں  تقریبا 6.4 ملین ٹیکسٹ دستاویزات ہیں۔ 4 ملین سے زیادہ پی ڈی ایف شامل ہیں جن میں سے کچھ 10000 سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہیں ۔

لیک میں 4.1 ملین سے زائد تصاویر اور ای میلز بھی ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ اسپریڈ شیٹ 467000 سے زیادہ ہیں۔ ریکارڈ میں سلائیڈ شو اور آڈیو اور ویڈیو فائلیں بھی شامل ہیں۔

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (ICIJ) نے یہ اعداد و شمار کئی سالوں کی تگ و دو کے بعد حاصل کر کے جاری کئے۔ آئی سی آئی جے، واشنگٹن، ڈی سی میں قائم ایک گروپ ہے جو 150 سے زیادہ میڈیا اداروں کے ساتھ اپنی اب تک کی سب سے بڑی عالمی تحقیقات پر کام کر رہا ہے۔ یہ انکشافات اہم اس لیے بھی ہیں کہ اگر ان میں بتائی گئی بے ضابطگیاں ثابت ہو جاتی ہیں تو مرتکب اعلیٰ شخصیات کے خلاف موثر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ افشا کی جانے والی دستاویزات بتاتی ہیںکہ کس طرح ان افراد نے آف شور اکاؤنٹس، شیل کمپنیوں، رئیل اسٹیٹ اور دیگر منافع بخش منصوبوں میں خفیہ طور پر پیسہ لگایا۔

آئی سی آئی جے کے مطابق جن لوگوں کو بے نقاب کیا گیا ہے ان میں 35 موجودہ اور سابق عالمی رہنما، 91 ممالک اور خطوں میں 330 سے زیادہ سیاست دان، عوامی عہدیدار، مفرور مجرم، فنکار اور قاتل شامل ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی دستاویزات، ’جن میں سے کچھ کئی دہائیوں پرانی ہیں‘ 14 آف شور مالیاتی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی طرف سے آئی ہیں۔ آف شور اکاؤنٹس اور کارپوریٹ ادارے قانونی ہوسکتے ہیں۔ لیکن کچھ دستاویزات غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے امکان کو ظاہر کرتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں موجود غیر ملکی کارپوریشنز میں آف شور اکاؤنٹس یا ملکیتیں غیر قانونی نہیں ہیں۔ تاہم، ان ہولڈنگز کا اعلان نہ کرنا اور ٹیکس سے بچنے یا کاروباری معاملات کو چھپانے کے لیے ان کا استعمال کرنا قابل اعتراض ہے۔

آئی سی آئی جے ایک عالمی نیٹ ورک ہے جس نے 2016 میں پاناما پیپرز جیسی اعلیٰ سطحی لیکس اور ڈیٹا ڈمپس پر مبنی رپورٹیں جاری کی تھیں ۔پاناما پیپرز نے 200 سے زائد ممالک کے افراد کی جانب سے ٹیکس سے بچنے کی سرگرمیوں بے نقاب کیا تھا۔ ایک سال بعد آئی سی آئی جے نے 2017 میں پیراڈائز پیپرز کو لیک کیا تھا۔ جس میں 13.4 ملین دستاویزات اور 1.4 ٹیرا بائٹس ڈیٹا نے دوبارہ قرض کے معاہدوں، مالیاتی بیانات، ای میلز، ٹرسٹ ڈیڈز اور دیگر کاغذی کارروائیوں پر مشتمل پیچیدہ بین الاقوامی ٹیکس سے بچنے کی اسکیموں کو بے نقاب کیا تھا۔

پنڈورا پیپرز کی معلومات کا ڈیٹا 2.94 ٹیرابائٹس اور 11.9 ملین سے زیادہ دستاویزات پر مشتمل ہے جس کو  14 فراہم کنندگان کے ریکارڈز سے حاصل کیا گیا ہے، یہ فرمیں کم از کم 38 قسم کی خدمات پیش کرتی ہیں۔ 2016 پاناما پیپرز کی تفصیلات2.6 ٹیرا بائٹ ڈیٹا پر مبنی تھی۔ 11.5 ملین دستاویزات ’موساک فونسیکا‘ نامی ایک ہی فرم سے حاصل ہوئیں جسے اب غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔ 2017 پیراڈائز پیپرز کی تفصیلات ایک آف شور لا فرم ’ایپل بائی‘ سے حاصل ہوئی تھیں، 13.4 ملین فائلوں پر مشتمل 1.4 ٹیرا بائٹس کے اس ڈیٹا میں سنگاپور میں قائم ایشیا سٹی ٹرسٹ، اور 19 کارپوریٹ رجسٹریوں سے لیک ہونے والی معلومات بھی شامل تھیں۔

پانڈورا پیپرز نے 27000 سے زائد کمپنیوں اور ان سے فائدہ حاصل کرنے والے 29000 مالکان کے بارے میں معلومات اکٹھا کیں جو پاناما پیپرز میں بیان کردہ فائدہ اُٹھانے والے مالکان کی تعداد سے دوگنا سے بھی زیادہ ہیں۔ آئی سی آئی جے کی فراہم کردہ معلومات کی رو سے آف شور رکھی گئی رقم ( یعنی اپنے ملک سے حاصل کیا گیا مشکوک سرمایہ جسے ملک سے باہر آف شور کمپنیوں میں رکھا گیا ہو) کا تخمینہ 5.6 ٹریلین امریکی ڈالر سے لے کر 32 ٹریلین امریکی ڈالر تک ہے۔

اس لیکس میں مجموعی طور پر 35 موجودہ اور سابق صدور، وزرائے اعظم اور سربراہان مملکت کے علاوہ 100 سے زائد ارب پتی مشہور شخصیات اور کاروباری و مذہبی رہنماؤں سمیت تقریبا 100 ممالک کے 400 سرکاری عہدیداروں کے خفیہ آف شور اکاؤنٹس کو ظاہرکیا گیا ہے۔

پنڈورا پیپرز میں بہت سے پارسا اور پردہ نشین بھی بے نقاب ہوئے ہیں جبکہ تفتیش و تحقیق کی کی گئی لاکھوں فائلوں میں شامل سینکڑوں لوگوں کے بارے میں قابل ذکر انکشافات پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں۔ لیکس میں ٹیکس کے قوانین کے مطابق کچھ سرگرمیاں قانونی تھیں لیکن ان کا جواز پیش نہیں کیا جا سکا۔ کچھ فائلیں 1970 کی تاریخ دکھا رہی تھیں، لیکن وہ دراصل 1996 سے 2020 کے درمیان بنائی گئیں اور ان اعداد و شمار میں فوربز کی فہرست میں شامل اشخاص بھی ہیں۔

اب لیکس میں چند نامور اشخاص کا تز کرہ کیا جا رہا ہے جیسے: اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور ان کی اہلیہ چیری بھی دکھائی دیں۔ جنہوں نے لندن میں ایک وکٹورین عمارت خریدی جس کی قیمت 8.8 ملین ڈالر ہے۔

چلی کے صدر Sebastián Piñeraکینیا کے صدر اہورو کینیاٹا، مونٹینیگرین کے صدر میلو Ðukanovic،، قطری امیر تمیم بن حمد التھانی، متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران محمد بن راشد المکتوم، گیبونیز کے صدر علی بونگو اوندیمبا، لبنانی وزیر اعظم نجیب میکاتی شامل ہیں۔ ایکواڈور کے صدر گلرمو لاسو، ارجنٹائن کے سابق صدر ماؤریسیو ماکری، ایکواڈور جائم Durán باربا کے اہل خانہ، اور سائپریوٹ کے صدر نیکوس انستاسیادیس، اس کے علاوہ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم، اپنی 30 کمپنیوں اور مالیبو میں تین حویلیوں کے ساتھ موجود ہیں۔

جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم آندرج بابیس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک سینما اور دو سوئمنگ پول کے ساتھ ایک چیٹو خریدنے کے لیے ایک آف شور نیٹ ورک استعمال کیا،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر ڈومینک اسٹراس کاہن، جنہوں نے بطور مشیر کام کرتے ہوئے ٹیکس سے گریز کیا، کھیلوں کی دنیا کے جانے مانے چہروں میں کارلو اینسلوٹی، اور بارسلونا ایف سی کے سابق منیجر پیپ گارڈیولا سمیت سینکڑوں شخصیات اس فہرست میں شامل ہیں۔

ان کاغذات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ آذربائیجان کے حکمران علیئیف خاندان کی ملکیت ایک دفتر بلاک کو 2018 میں کراؤن اسٹیٹ کو 66 ملین پا ونڈ میں فروخت کیا گیا تھا جس سے علیف کو 31 ملین پا ونڈ منافع حاصل ہوا تھا۔ 33 ملین £ مالیت کا ایک اور دفتر بلاک 2009 میں اس خاندان کو فروخت کیا گیا تھا اور اسے آذربائیجان کے صدر الہام علیف کے بیٹے حیدر کو تحفے میں دیا گیا تھا۔ یوکرائن کے سابق صدر پیٹرو پوروشینکو کے حامیوں نے ان کے جانشین زیلنسکی پر ٹیکس چوری کا الزام لگایا جو انسداد بدعنوانی مہم پر اقتدار میں آئے۔ دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے قریبی ساتھیوں سویٹلانا کریونوگیخ اور گینیڈی ٹمچینکو کے موناکو میں خفیہ اثاثے ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔

فہرست میں بین الاقوامی جرائم پیشہ تنظیم کے رہنما بھی شامل ہیں، جیسے کہ رافیلے آماتو، آماتو پاگانو قبیلے کے باس، کیمورا کے اندر ایک قبیلہ، جو منشیات کی بین الاقوامی اسمگلنگ کے لیے بدنام ہے۔ آماتو نے اسپین میں زمین خریدنے کے لئے برطانیہ میں ایک شیل کمپنی کا استعمال کیا اور جرائم کی دنیا کے بادشاہ جیسے رافیل اماتو، اطالوی کیمورا مافیا باس جنہوں نے فلم گومورا کو متاثر کیااور جنہیں 2009 میں ہسپانوی شہر ملاگا سے گرفتار کیا گیا، مفرور ڈائمنٹائر نیرو مودی کی بہن پوروی مودی، ڈارک ویب سائٹ الفا بے کے بانی الیگزنڈر کیز و دیگرغیر قانونی منشیات کے کرتا دھرتا بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

فیشن اور تفریحی دنیا کے ستارے جولیو اگلیسیاس اور شکیرا کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ ماڈل کلاڈیا شیفر؛ ہندوستانی کرکٹ کھلاڑی سچن ٹنڈولکر، بھارتی ارب پتی انیل امبانی،چینل ون روس کے سی ای او کونسٹانٹن ارنسٹ۔ میگوئل بوسے، پیپ گارڈیولا اور جولیو ایگلسیاس کے نام بھی مشکوک مالیاتی سرگرمیوں کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔

ٹیکس ہیون‘ یا ’ٹیکس چوری کرنے کی پناہ گاہ‘ دراصل ایسے ممالک یا مقامات کو کہا جاتا ہے جو سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم ماحول میں غیر ملکی کاروباری سرگرمیوں اور افراد کو ان کے خفیہ یا علانیہ بینک ڈپازٹس کے لیے با سہولت خدمات پیش کرتا ہے۔ ان آف شور کمپنیاں ایسے اُصول ضوابط کے تحت کام کرتی ہیں جن کے ذریعے ان کی خدمات حاصل کرنے والوں کے لیے ٹیکس بچانے ، غیرقانونی دولت کو چھپانے اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے انتہائی پُر کشش مواقع موجود ہوتے ہیں۔

دولت مند افراد عموماً امریکہ اور دیگر ممالک میں زیادہ ٹیکسوں سے گریز کرتے ہوئے بیرون ملک کمائی گئی رقم کو محفوظ کرنے کے لیے قانونی طور پر ٹیکس پناہ گاہوں کا استعمال تو کر تے ہی ہیں۔ یہ ’ٹیکس کی پناہ گاہیں غیر قانونی طور پر اندرون ملک ٹیکس حکام سے رقم چھپانے کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ ٹیکس ہیون کہلانے والے ممالک غیر ملکی ٹیکس حکام کے ساتھ تعاون نہ کر کے اپنے گاہکوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ٹیکس پناہ گاہوں پر غیر ملکی ٹیکس فراڈ کی تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے بین الاقوامی سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ٹیکس پناہ گاہیں کارپوریشنوں اور بالادست طبقات کو ٹیکس چوری میں سہولت فراہم کر کے غیر ملکی گاہکوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ان ممالک نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جو ان کے غیر ملکی گاہکوں کے مالی معلومات کو رازداری کے نام پر اُن ممالک کے حکام سے مخفی رکھنے کا جواز فراہم کرتے ہیں جہاں سے رقم چرائی گئی ہوتی ہے۔ ٹیکس پناہ گاہ میں رقم جمع کرانے کو اس وقت تک قانونی تصور کیا جاتا ہے جب تک جمع کنندہ اُس ملک کا مطلوبہ ٹیکس ادا کرتا رہے۔

سادہ لفظوں میں ٹیکس پناہ گاہوں کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ اپنے دائرہ اختیار میں بہت کم شرح ٹیکس کے عوض اپنے گاہکوں کو ان کے اپنے ملکوں سے کمائی ہوئی یا چرائی ہوئی دولت کو اپنے ملکوں کی زائد شرح ٹیکس اور سخت مالیاتی قوانین سے تحفظ فراہم کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں، اور ان آف شور کپمنیوں میں اپنی کالی کمائی چھپانے اور استعمال کرنے کے لئے انہیں آف شور کمپنی والے ملک میں رہائش رکھنے کی بھی ضروت نہیں ہوتی۔ موافق ضوابط اور منفی رازداری کا امتزاج کارپوریشنوں اور افراد کے لئے ان آف شور کپمنیوں کو انتہائی پُر کشش بنا دیتی ہیں اور وہ اپنی دولت اپنے ملک کے بجائے یہاں منتقل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب تک سب سے زیادہ رقوم برٹش ورجن آئی لینڈ، کیمن آئی لینڈز اور برمودا میں چھپائی گئی ہیں۔

ٹیکس پناہ گاہیں دوسرے ممالک میں یا ان ممالک کے ماتحت کسی الگ قانونی دائرہ اختیار کے تحت قائم علاقوں میں کام کرتی ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی ٹیکس پناہ گاہیں بھی موجود ہیں جیسے کہ کچھ امریکی ریاستوں میں دولت پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت ان ریاستوں کو دولت چھپانے والوں کے لیے پُرکشش بناتی ہے، حالانکہ اس سے انہیں امریکہ کے وفاقی ٹیکسوں سے بچنے میں مدد نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر، ریاستہائے متحدہ میں، الاسکا، فلوریڈا، نیواڈا، نیو ہیمپشائر، ساؤتھ ڈکوٹا، ٹینیسی، ٹیکساس، واشنگٹن اور وومنگ میں ریاستی انکم ٹیکس کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک امریکی کے نقطہ نظر سے، ”آف شور” کہیں بھی امریکی دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

جن غیر ملکوں کی ٹیکس پناہ گاہوں میں یہ سرمایہ چھپایا یا رکھا جاتا ہے اُس سرمائے سے یہی ملک معاشی فائدہ حاصل کرتے ہیں جبکہ جن ملکوں سے یہ سرمایہ بھیجا جاتا ہے وہ غریب سے غریب تر ہوتے جاتی ہیں۔ دوسری جانب آف شور کپمنیوں میں سرمایہ رکھنے والے افراد اور کارپوریشنز اپنے ملک کے نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر انفرادی فائدے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیںاور خصوصی ٹیکس تحفظات کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

دنیا بھر میں ٹیکس ہیون ممالک کی درجہ بندی کے لیے کوئی جامع معیار نہیں ہے لیکن کئی ریگولیٹری ادارے ٹیکس پناہ گاہ والے ممالک کی نگرانی کرتے ہیں جن میں آرگنائزیشن آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) اور یو ایس گورنمنٹ اکاؤنٹیبلٹی آفس (جی اے او) شامل ہیں۔ ٹیکس کی پناہ گاہیں دنیا بھر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہیں۔ لہذا جو مواقع یہ کمپنیاں فراہم کرتی ہیں ان کی وجہ سے ترقی پذیر ملکوں میں اپنی دولت کو باہر چھپا کر رکھنے کے رحجان میں اضافہ ہوتا ہے۔

منی لانڈرنگ کے پیچیدہ عمل میں یہ کپمنیاں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ منی لانڈرنگ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے کسی ملک میں غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی بلیک منی کو ان شیل کمپنیوں ( انہیں شیل کمپنیاں اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سیپی کی طرح دولت کو پوشیدہ رکھنے کا کام کرتی ہیں) میں گھمایا جاتا ہے۔ یعنی دولت ایک کمپنی سے دوسری اور تیسری میں زیر گردش رہتی ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کا کھوج لگانا آسان نہ رہے۔ ایسا کرنے والوں نے ان ملکوں میں اپنا جھوٹا سچا بزنس آفس یا کوئی کور بھی بنا رکھا ہوتا ہے۔

انہیں جب ضرورت ہوتی ہے وہ اپنے ان بظاہر جائز ذرائعے کے توسط سے یہ رقم واپس منگو کر استعمال کر لیتے ہیں۔ ٹیکس کی وصولیوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے بہت اکثر ممالک کی حکومتیں ٹیکس کی پناہ گاہوں پر مسلسل دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ انہیں آف شور سرمایہ کاری اکاؤنٹس سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل رہے۔ تاہم، مالیاتی بوجھ کی وجہ سے ریگولیٹری نگرانی ہمیشہ ہر ملک کی قومی ترجیح نہیں رہ سکتی۔دنیا بھر میں، غیر ملکی سرمایہ کاری کی جان کاری کو مربوط اور مسلس بنانے کے لیے کچھ پروگرام موجود ہیں۔ مالیاتی معلومات کا خودکار تبادلہ ایک مثال ہے جس کی نگرانی آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (OECD) کرتی ہے۔

پروگرام میں حصہ لینے والے ممالک کے لئے لازم ہے کہ وہ غیرملکی کھاتا داروں کی ٹیکس سے متعلق بینکنگ معلومات بغیر کسی تقاضے کا انتظار کئے خوداُن ممالک کو بھیجیں جن کے وہ شہری ہیں۔

اس وقت دنیا کی دس10 بڑی بیرون ملک ٹیکس پناہ گاہوں میں برمودا، نیدرلینڈز، لکسمبرگ، جزائر کیمین، سنگاپور، چینل آئی لینڈ، آئل آف مین، ماریشس، سوئٹزرلینڈ اور آئرلینڈ شامل ہیں۔ ایپل اور نائیکی جیسی امریکی کمپنیاں سب سے زیادہ ٹیکس پناہ گاہیں استعمال کرتی ہیں جبکہ گولڈ مین سیکس کے پاس بیرون ملک سب سے زیادہ نقد رقم کا اندازہ ہے۔

صرف ایپل کاآئرلینڈ میں تقریباً 215 بلین ڈالر کا بینک اکاونٹ ہے۔اس کے علاوہ آف شور اکاؤنٹس والے دیگر بڑے کاروباروں میں مائیکروسافٹ، آئی بی ایم، جنرل الیکٹرک، فائزر، ایگزون موبائل، شیورون، اور والمارٹ شامل ہیں۔ کارپوریشنز اور دولت مند افراد بنیادی طور پر غیر ممالک میں اپنی آمدنی پر کم یا ٹیکس بالکل نہ ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے، کریڈٹ، یا دیگر خصوصی ٹیکس تحفظات جائز طریقے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔

ٹیکس کی پناہ گاہیں کریڈٹ کے شعبے میں بھی فوائد مہیا کر سکتی ہیںکیونکہ امریکہ میں قائم کمپنیوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر فنڈز لینا کم مہنگا ہو سکتا ہے۔ ٹیکس کی پناہ گاہوں کو چلانے والے بہت تیز طرار اور سمجھدار ہوتے ہیں، وہ غیر ملکی ٹیکس حکام کو اپنے گاہکوں کی بہت محدود یا کوئی بھی مالی معلومات مہیا نہیں کرتے۔ جن ملکوں میں یہ کپمنیاں کام کرتی ہیں ان ممالک کی معیشتوں کو بہت فائدہ پہنچتا ہے، وہ اس طرح کہ جب ان کے مالیاتی ادارے بہت زیادہ رقم لاتے ہیں۔

اس رقم کو پھر منافع حاصل کرنے کے لئے سرمایہ کاری میں لگا دیا جاتا ہے۔ یوں اپنے گاہکوں کو فراہم کی جانے والی ٹیکس میں چھوٹ اس سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے سود کے ذریعے کئی گنا بڑھا کر حاصل کر لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی 50 امریکی کمپنیوں کے پاس اس وقت تقریباً 1.6 ٹریلین ڈالر جمع ہیں۔

یہاں پر آف شور کمپنیاں کا ذکر کرنا بے حد ضروری ہے جو ایک ایسے ملک میں بنائی جاتی ہیں جو اس ملک سے مختلف جگہہ ہوتی ہے جس میں ان کے فائدہ اٹھانے والے مقیم ہوتے ہیں۔ عالمی معیشت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ان کا واضح مقصد ہے۔ ان کمپنیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کم یا صفر ٹیکس کی شرح اور رازداری فراہم کرنے کے مقصد سے قائم کیا جاتا ہے لہذا ان کے دائرہ کار کو بھی مبہم رکھا جاتا ہے۔ ان کمپنیوں کی ان ممالک میں کوئی حقیقی سرگرمی نہیں ہے جہاں وہ رجسٹرڈ ہیں۔

انہیں نہ دفتر کی ضرورت ہے اور نہ ملازمین کی۔ ان کا استعمال عام طور پر، اثاثوں کے حقیقی مالک کے لیے مالی یا قانونی ذمہ داریوں کو چھپانے اور ان سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے جو کہ مالیاتی ہو سکتا ہے۔ انہی کمپنیوں جائیداد اور دیگر اثاثوں کی خرید میں اپنی پہچان مخفی رکھنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا کہ عالمی جی ڈی پی کا 10 فیصد آف شور کمپنیوں میں موجود ہے۔

ٹیکس ہیون میں کمپنی رکھنا قانونی ہو سکتا ہے بشرطیکہ اثاثے اور ان کی سرگرمی سے حاصل ہونے والی آمدنی حکام کو بتائی جائے جہاں فائدہ اٹھانے والا عام طور پر رہتا ہے۔ درحقیقت عالمی مارکیٹ میں کام کرنے والی بڑی کمپنیوں کے لیے تو یہ معمول کی بات ہے کہ وہ اپنے ذیلی اداروں کو ان میں سے کچھ علاقوں میں قائم کرکے اپنے ٹیکسوں کے بوجھ کو ہلکا کر سکیں۔ لیکن مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ان کمپنیوں اور ان کے منافع کو جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے، ان کے وجودکا حکام کے سامنے اعلان نہیں کیا جاتا اور یہی کچھ پنڈورا پیپرز کے بہت سے معاملات نظر آتا ہے۔ ان مشکوک معاملات میں ناجائز سمائے کی آمد و رفت پوشیدہ رکھی جاتی ہے جس کی وجہ سے رشوت، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری یا دہشت گردی کی مالی معاونت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

یہ بات بڑی توجہ کی حامل ہے کہ پنڈورا پیپرز میں پاکستان کے وزیروں، مشیروں عہدے داروں سمیت 700 سے زائد شہریوں کی دولت کا انکشاف کیا گیا ہے جن میں موجودہ حکومت کے سیاسی حلیفوں اور سول اور فوجی بیورو کریسی کے خاندانوں کے بعض افراد کے نام بھی شامل ہیں۔

اگرچہ کہ موجودہ حکومت نے پینڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے تمام پاکستانیوں کے خلاف ایک شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کا عزم کیا ہے جو کہ ایک احسن اقدام ہے لیکن یہ انتہائی حساس معاملہ ابھی تک عدم توجہی اور التواء کا شکار ہے اور تاحال اس پر موثر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف پاکستانی شہریوں پر لگنے والے الزامات کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنایا جائے بلکہ عالمی سطح پر بھی کوشش کی جائے کہ آف شور کمپنیوں میں چھپائی جانے والی ناجائز دولت کو تحفظ فراہم کرنے کی روش کے خاتمے کے لئے عالمی سطح پر موثر قانون سازی ممکن ہو سکے۔ ملوث پائے جانے والے افراد کے خلاف حقیقی قانونی چارہ جوئی اس لئے بہت ضروری ہے کہ مستقبل میں ملک سے دولت چوری کر کے باہر بیھجنے کے رحجان کی حوصلہ شکنی ہو اور منی لانڈرنگ کی سرگرمیوں کا مستقل قلع قمع ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بے دردی سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا سکے جس سے قومی و فلاحی کام کیے جائیں جوغربت، افلاس،بے روزگاری اور مہنگائی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں اور ملک و قوم ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔