گلوکارغلام عباس

یونس ہمدم  جمعـء 27 مئ 2022
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہنشاہ غزل مہدی حسن خاں صاحب شدید بیمار ہونے کے بعد چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے اور پھر یہ وہیل چیئر پر آگئے تھے انھی دنوں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس نے اسلام آباد میں مہدی حسن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک محفل موسیقی کا اہتمام کیا تھا اور ان کے مشہور ترین فلمی گیت اور غزلوں پر مبنی ایک پروگرام بھی پیش کیا جانا تھا۔

اس سلسلے میں کونسل آف آرٹس کے کرتا دھرتا چند افراد نے مہدی حسن سے مشورہ کیا کہ اس موسیقی کے پروگرام میں آپ کے گیت کس کس گلوکار سے گوائے جائیں کیا آپ کے صاحبزادگان میں سے بھی کوئی پرفارمنس میں حصہ لے گا تو مہدی حسن نے کچھ دیر تک سوچا اور پھر فیصلہ کن انداز میں بولے ، اس پروگرام میں صرف ایک ہی گلوکار میری غزلیں اور گیت گائے گا اور اس کا نام ہے غلام عباس۔ یہ میرے گیتوں کو سب سے اچھے انداز میں پیش کرے گا اور پھر ٹریبیوٹ ٹو مہدی حسن کے پروگرام میں غلام عباس نے مہدی حسن صاحب کے چنیدہ چنیدہ سپرہٹ فلمی گیت اور دل میں اتر جانے والی غزلوں کا انتخاب پیش کیا تھا اور جتنی دیر وہ گاتا رہا مہدی حسن وہیل چیئر پر بیٹھے داد دیتے رہے اور کبھی کبھی ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔ پھر وہ درمیان میں اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے تھے اور غلام عباس کی آواز کو سراہتے بھی جاتے تھے اور موسیقی کی وہ محفل ایک یادگار صورت اختیار کر گئی تھی۔

اب میں آتا ہوں غلام عباس کی ابتدائی زندگی اور اس کے گائیکی کے سفر کی طرف، جو بہت کم عمری کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ غلام عباس کا تعلق داؤد زئی قبیلے سے ہے اور اس کے خاندان میں دور دور تک موسیقی کا کوئی نہ دخل تھا نہ تصور تھا مگر غلام عباس کو کمسنی ہی سے گانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔

قدرت نے اس کو بڑی سریلی آواز سے نوازا تھا اور یہ ریڈیو سے چاہے وہ پاکستان کا ہو یا ہندوستان کا جب بھی موقع ملتا تھا مختلف گلوکاروں کے گیت اور غزلیں سنا کرتا تھا اور اپنی تعلیم سے بھی غافل نہیں رہا۔ کیونکہ اس کا سارا گھرانہ کافی پڑھا لکھا تھا۔

اس زمانے میں فیصل آباد میں ایک میوزک کانفرنس ہوئی تھی جس میں بہت سے شوقیہ گانے والوں نے حصہ لیا تھا۔ لاہور سے غلام عباس بھی اپنے اسکول کی طرف سے گائیکی کے مقابلے میں حصہ لینے گیا تھا۔

اس نے چھوٹی عمر ہونے کے باوجود ایک غزل بڑی عمدگی سے گا کر بڑے بڑے سنگرز کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اور اپنی سحر انگیز آواز کی بدولت وہ مقابلہ جیت لیا تھا۔ گائیکی کے سفر کی اس کی یہ پہلی کامیابی تھی جس نے اس کے حوصلوں کو بڑی توانائی بخشی تھی اور پھر یہ ریڈیو لاہور کے موسیقی کے پروگرام میں بک کر لیا گیا تھا۔

اس کو ابتدا میں جس موسیقار نے موسیقی کی تعلیم دی ان کا نام استاد اسمٰعیل خان تھا اور ان استاد سے بھی غلام عباس کی ملاقات مہدی حسن نے اپنے گھر بلا کر کرائی تھی اور غلام عباس کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے کر کہا تھا ’’ خان صاحب میں آپ کو یہ ایک ہیرا دے رہا ہوں اب آپ نے اس ہیرے کو مزید تراشنا ہے یہ کل میرا بھی اور آپ کا بھی خوب نام روشن کرے گا۔‘‘ اس طرح غلام عباس بتدریج کامیابی کی طرف بڑھتا چلا گیا اور ایک بڑی بات یہ بھی ہے کہ غلام عباس پاکستان کی فلمی دنیا کا یہ واحد گلوکار ہے جس نے اردو ادب میں اور فلسفہ میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں میرے خیال میں یہ اعزاز تو شاید ہندوستان کے کسی گلوکار کو بھی حاصل نہیں ہوا ہوگا اور پھر موسیقی میں اس کی گرومنگ استاد اسمٰعیل خان اور مہدی حسن نے مل کر کی تھی پھر آہستہ آہستہ شہرت کی دیوی غلام عباس پر نثار ہوتی چلی گئی تھی۔

غلام عباس کی آواز کی چمک بھی لاہور فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی تھی اس نے اپنا پہلا فلمی گیت پنجابی فلم ’’ عاشق لوگ سودائی‘‘ کے لیے ریکارڈ کرایا تھا۔ مگر اس کی آواز کا حسن اردو فلموں کے لیے زیادہ موزوں تصور کیا گیا اسی لیے موسیقار نثار بزمی نے اس کو فلم ’’ اجنبی‘‘ کے لیے منتخب کیا اور غلام عباس کی آواز میں جو پہلی غزل ریکارڈ کی گئی اس کا مطلع تھا:

وہ آ تو جائے مگر انتظار ہی کم ہے

وہ بے وفا تو نہیں میرا پیار ہی کم ہے

ریکارڈنگ کے بعد ریکارڈنگ ہال میں ہر شخص نے یہ غزل سن کر کہا کہ غلام عباس کی آواز میں مہدی حسن صاحب کی جھلک صاف نظر آ رہی ہے۔ پھر موسیقار روبن گھوش بھی غلام عباس کی اس غزل سے بڑے متاثر ہوئے اور روبن گھوش نے فلم ساز، اداکار و ہدایت کار رحمن کی فلم ’’دو ساتھی‘‘ کے لیے اختر یوسف کا لکھا ہوا ایک گیت ریکارڈ کیا جو شبنم اور رحمان پر فلمایا گیا تھا اور یہ گیت فلم کا ہائی لائٹ تھا اور بہت مقبول ہوا تھا۔

اس گیت کے بعد گلوکار غلام عباس کی آواز کے چرچے ہر طرف پھیل گئے تھے اور پھر لاہور کے ہر موسیقار نے غلام عباس کی آواز سے فائدہ اٹھایا اور اس دور کی ہر دوسری فلم میں غلام عباس کے گیت ریکارڈ ہونے لگے تھے اور خاص طور پر میڈم نور جہاں کے ساتھ غلام عباس کے ڈوئیٹ بہت پسند کیے گئے تھے میڈم کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کے ساتھ کوئی گیت ہو تو بس غلام عباس کی آواز ہی میں ریکارڈ ہو۔ مہدی حسن کے بعد میڈم نور جہاں بھی غلام عباس کی آواز کی بڑی قدر دان تھیں۔ فلم ’’ دو ساتھی ‘‘ کے گیت کے بول تھے۔

ایسے وہ شرمائے جیسے میگھا چھائے

اس گیت کے بارے میں میڈم نور جہاں کے ساتھ ساتھ ہر موسیقار کی یہ رائے تھی کہ غلام عباس کے گلے میں بھی ایک مہدی حسن موجود ہے۔ غلام عباس پھر دیکھتے ہی دیکھتے صف اول کے گلوکاروں میں نمایاں نظر آتا تھا۔

1975 سے 2004 تک کا دور غلام عباس کی گائیکی کا دور تھا۔ اس دوران غلام عباس نے جتنی بھی غزلیں اور گیت گائے انھیں بڑی شہرت ملی اور فلم بینوں میں بہت ہی پسند کیے گئے۔ غلام عباس کو فلم ماضی، حال، قربانی، انسانیت اور رانی بیٹی راج کرے گی جیسی فلموں میں نگار ایوارڈز اور ملک کے دیگر بیشتر ایوارڈز سے نوازا گیا اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کی طرف سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ غلام عباس کو امریکا، کینیڈا اور یورپ میں بھی بارہا مدعو کیا گیا اور اس نے جہاں بھی گایا میوزک کنسٹرٹ میں مہدی حسن کے گیت اور غزلیں گا کر لاکھوں دلوں کو موہ لیا تھا۔

اور سب نے یہی کہا کہ خان صاحب مہدی حسن کی آواز کی خوشبو ہمیں غلام عباس کی آواز میں محسوس ہوتی ہے۔ ایک خوبی غلام عباس کی یہ بھی رہی ہے کہ اپنی فلمی مصروفیات کے باوجود غلام عباس کو جب بھی ریڈیو اور ٹیلی وژن کی طرف سے بلایا گیا یہ جی جان سے گیا اور ریڈیو ٹیلی وژن کے لیے بھی فریش ریکارڈنگ کرانے میں ہر پروڈیوسر سے بڑا تعاون کیا۔

اسی طرح جب میں لاہور کی فلم انڈسٹری چھوڑ کر کراچی آ گیا اور پھر ریڈیو ٹیلی وژن کے لیے لکھنے لگا تھا تو اسی دوران ایک بار غلام عباس سے ریڈیو پاکستان کراچی میں ملاقات رہی اسی دوران اس نے کہا ہمدم صاحب آپ فوراً ایک غزل لکھ کر دیں، میں فریش ریکارڈنگ کے ساتھ آپ کی غزل بھی گاؤں گا۔ اس وقت ریڈیو کینٹین میں ہمارے ساتھ موسیقار نیاز احمد بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے اس دھن کا ایک میٹر دیا اور میں نے کچھ دیر کی کاوش کے بعد ایک غزل لکھ دی جو دوسرے دن غلام عباس کی آواز میں ریڈیو کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی جس کا مطلع تھا۔

دل کا یہ فیصلہ ہے تجھے بھول جائیں گے

ہم اپنے آنسوؤں کی ہنسی خود اڑائیں گے

یہ غزل ان دنوں ریڈیو پر کافی مشہور ہوئی تھی۔ غلام عباس کے لیے ایک اور اعزاز کی بات یہ تھی کہ لاہور میں جب کبھی فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، منیر نیازی اور حبیب جالب کی موجودگی میں کوئی نجی موسیقی کی محفل ہوتی تھی تو غلام عباس کو مدعو کیا جاتا تھا کہ وہ اس محفل میں اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے اور پھر ان نامور ادبی شخصیات کی موجودگی میں غلام عباس کی آواز ایک سماں باندھ دیتی تھی۔ غلام عباس نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر اساتذہ کی بے شمار خوبصورت غزلوں کے علاوہ علامہ اقبال کی ایک مشہور نظم کو بھی بہت ہی متاثر کن آواز میں گایا تھا اور وہ نظم ایک قیمتی اثاثہ ہے جس کے بول ہیں:

خودی کا سر نہاں لاالہ الااللہ

اس کے علاوہ بھی غلام عباس نے ریڈیو، ٹیلی وژن پر موسیقی کے مختلف پروگراموں میں خوبصورت پرفارمنس دی ہے اور قومی گیت بھی گائے ہیں۔ ایک گیت کو بڑی شہرت ملی:

اے پاک وطن اے پاک وطن

گلوکار غلام عباس کی آواز میں سروں کا رچاؤ اور جادو ہے وہ بہت کم گلوکاروں کو نصیب ہے اس کی گائیکی کا انداز ہی اس کی پہچان ہے اور خوب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔