مارگلہ ہلز تعمیرات کیس کا تفصیلی فیصلہ،وزارت دفاع کوانکوائری کا حکم

ویب ڈیسک  بدھ 13 جولائی 2022
یہ قانون کی حکمرانی کو کمزورکرنے اوراشرافیہ کی گرفت کا مثالی کیس تھا،اسلام آباد ہائیکورٹ:فوٹو:فائل

یہ قانون کی حکمرانی کو کمزورکرنے اوراشرافیہ کی گرفت کا مثالی کیس تھا،اسلام آباد ہائیکورٹ:فوٹو:فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تعمیرات سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیوی گالف کورس کی تعمیر کوغیرقانونی قراردیتے ہوئے وزارت دفاع کو انکوائری کا حکم دیا۔ عدالت نے سیکریٹری دفاع کو فرانزک آڈٹ کرا کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ  لگانے کا بھی حکم دیا۔

عدالت نے نیشنل پارک کی 8068 ایکٹر اراضی پر پاک فوج کے ڈائریکٹوریٹ کا ملکیتی دعویٰ بھی مسترد کردیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں پاک فوج کے فارمز ڈائریکٹوریٹ کا مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ لیز معاہدہ بھی غیرقانونی قراردے دیا گیا۔

ایک سو آٹھ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں اسلام آباد انوائرمنٹل کمیشن کی رپورٹ کو بھی حصہ بنایا گیا ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ ریاست اور حکومتی عہدیداران کا فرض ہے کہ وہ مارگلہ ہلز کا تحفظ کرے۔عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مارگلہ ہلز کے محفوظ نوٹیفائیڈ ایریا کی بے حرمتی میں ریاستی اداروں کا بھی ملوث ہونا ستم ظریفی ہے۔

عدالت نے مزید کہا ہے کہ پاک بحریہ اور پاک فوج نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر نافذ شدہ قوانین کی خلاف ورزی کی۔ یہ قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے اور اشرافیہ کی گرفت کا ایک مثالی کیس تھا۔عدالت نے کہا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ مارگلہ ہلز کو پہنچنے والے نقصان کے ازالہ کے لیے اقدامات کرے تاکہ اسے مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔

عدالت نے کہا کہ پاکستان نیوی نے جاننے کے باوجود مارگلہ ہلز کے تقدس کو پامال کیا قانون کی خلاف ورزی کی۔ سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر تجاوزات کا جواز پیش کرنے کی دلیل بے بنیاد ہے۔ کوئی قانون سے بالاتر نہیں کسی کو قانون کی خلاف ورزی کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا۔نیوی حکام نے ریاستی زمین پر تجاوزات کرکے تادیبی کاروائی کے لیے خود کو ایکسپوز کیا۔

عدالت نے مزید کہا کہ ریاستی اداروں کا اختیار کا غلط استعمال خلاف قانون اور بنیادی آئینی حقوق کی سنگین کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے کہا کہ آئین کے تحت تینوں مسلح افواج وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں اور صدر پاکستان سپریم کمانڈر ہے۔آرمڈ فورسز کو اپنے دائرہ کار سے باہر  بالواسطہ یا بلواسطہ کسی کاروباری سرگرمی میں حصہ لینے کا اختیار نہیں اورپاک آرمی کسی اسٹیٹ لینڈ کی ملکیت کا بھی کوئی دعویٰ نہیں کر سکتی۔  مسلح افواج کا کام بیرونی جارحیت سے ملک کا دفاع اور طلب کئے جانے پر سول اداروں کی معاونت ہے۔مسلح افواج دونوں ذمہ داریاں وفاقی حکومت کی اجازت سے سر انجام دے سکتی ہے خود سے نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی ان کے آئینی حلف کی خلاف ورزی ہے اور ان کی طے شدہ زمہ داریوں سے انحراف ہے۔آرمڈ فورسز ملکیت ، حصول یا کسی اور صورت میں پراپرٹی کو ڈیل نہیں کر سکتیں۔ زمین حکومت کی ملکیت ہے اداروں اورافسران کو اس کا انتظام سنبھالتے کی زمہ داری دی جاری ہے۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے نوٹیفیکیشن اور سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد گھوڑوں کی گھاس سمیت کسی قسم کی کوئی ایکٹیوٹی نہیں ہو سکتی۔

عدالت نے سی ڈی اے اور وائلڈ لائف مینجمنٹ کو نیوی گالف کورس کوقبضے میں لینے کا حکم بھی دیا۔عدالت نے اس سے قبل 11 جنوری 2022 کو شارٹ آرڈر جاری کیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔