کراچی؛ ریلے میں بہنے والی کار کے مزید تین سواروں کی لاشیں برآمد، تعداد 5 ہوگئی

ویب ڈیسک  جمعـء 19 اگست 2022
حادثے کے بعد امدادی ٹیم کی کار کے ساتھ ایک تصویر (فوٹو: ایکسپریس نیوز)

حادثے کے بعد امدادی ٹیم کی کار کے ساتھ ایک تصویر (فوٹو: ایکسپریس نیوز)

 کراچی: نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے لنک روڈ پر سیلابی ریلے میں بہنے والی کار میں سوار 7 افراد میں سے مزید 3 افراد کی لاشیں مل گئیں جس کے بعد لاشوں کی تعداد 5 ہوگئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق بدھ اور جعمرات کی درمیانی شب حیدرآباد کا رہائشی 45 سالہ ذیشان اپنی اہلیہ اور 4 بچوں کے ہمراہ رینٹ اے کار میں واپس اپنے گھر جارہا تھا کہ ملیر ندی میں ڈملوٹی کے مقام پر کار حادثے کا شکار ہوگئی۔

گاڑی میں ڈرائیور سمیت 7 افراد سوار تھےجن میں ذیشان، اس کی اہلیہ 40 سالہ رابعہ ، ان کے بچے 15 سالہ حمنہ، 12 سالہ ایان ، 10 سالہ عباد الرحمن اور 8 سالہ موسیٰ شامل تھے۔

واقعے کے بعد سے ملیر ندی میں ڈوبنے والے افراد کی تلاش جاری ہے، آج جمعہ کو ذیشان انصاری، اس کے بیٹوں عباد اور ایان کی لاشیں ملی گئیں جب کہ قبل ازیں بچوں حمنہ اور موسیٰ کی لاشیں مل چکی ہیں۔

ایدھی حکام کے مطابق مجموعی طور پر پانچ لاشیں مل چکی ہیں جب کہ بچوں کی والدہ رابعہ اور ڈرائیور عبدالرحمن کا تاحال کچھ پتا نہیں چل سکا۔

واقعے کا پس منظر

بدھ اور جعمرات کی درمیانی شب کار ریلے میں بہتے ہی امدادی اداروں کو اطلاع دے دی گئی۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی اور ان کے صاحبزادے سعد ایدھی کی موجودگی میں ایدھی کے غوطہ خوروں نے ریسکیو آپریشن شروع  کیا، جمعرات کو علی الصباح کار تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر مل گئی لیکن کار میں کوئی نہ ملا۔

ایدھی غوطہ خوروں کو کئی کلومیٹر دور تک تلاش جاری رکھنے کے جمعرات کی دوپہر ہاشم علی گوٹھ کے قریب سے آٹھ سالہ موسیٰ اور پھر کچھ دیر بعد درسانو چھنو کے قریب پندرہ سالہ حمنہ کی لاش مل گئی۔

جائےحادثہ پر موجود رابعہ کے بھائی حمزہ اور سلمان نے بتایا کہ ان کے بہن بہنوئی لانڈھی میں ایک عقیقہ کی تقریب میں شرکت کے لیے کراچی آئے تھے، بہنوئی کا آبائی تعلق حیدرآباد سے تھا اور وہ پیشے کے اعتبار سے ٹیلر ماسٹر تھے، گاڑی کا ڈرائیور عبدالرحمن جامی بھی حیدرآباد میں ان کے گھر کے قریب ہی رہائش پذیر ہے جسے فون کرکے بلایا گیا اور وہی انھیں حیدرآباد لے کر جارہا تھا۔

ڈرائیور کو لوگوں نے منع کیا لیکن وہ نہیں مانا

انہوں نے بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی وہ کراچی پہنچے، معلومات حاصل کرنے پر مقامی افراد نے بتایا کے بتایا کہ واقعے کے وقت ملیر ندی میں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا اور یہاں سے گزرنے والے ٹرک اور ٹریلر کھڑے ہوئے تھے کہ کار کے ڈرائیور نے جلد بازی کی اور گاڑی ندی کی طرف بڑھانے لگا جس پر اسے قریبی موجود ڈرائیوروں نے منع کیا لیکن وہ نہ مانا اور گاڑی تیز بہاؤ کی نذر ہوگئی۔

جائے حادثہ پر موجود گاڑی کے ڈرائیور عبدالرحمن جامی کے ورثا نے بتایا کہ عبدالرحمن رینٹ اے کار کی گاڑی چلاکر اپنی گزر بسر کر رہا تھا، زیادہ تر کراچی سے حیدرآباد اور حیدرآباد سے کراچی ہی مسافروں کو لاتا لے جاتا تھا،اپنی ٹریول ایجنسی کھولنا چاہ رہا تھا اور لائسنس کے حصول کے لیے کراچی پہنچا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عبدالرحمٰن کراچی سے کام  کام نمٹا چکا تھا کہ اسی دوران اسے ذیشان کو واپس لانے کے لیے ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس کے بعد حیدرآباد واپسی پر ڈملوٹی کے مقام پر یہ حادثہ پیش آگیا۔

فیصل ایدھی نے بتایا کہ ان کے غوطہ خور ڈوبنے والے تمام افراد کی تلاش میں مصروف ہیں، ندی میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تیز ہونے کے باعث غوطہ خوروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، ندی میں کہیں پانچ فٹ کی گہرائی ہے اور کہیں پندرہ فٹ تک گہرائی جبکہ جگہ جگہ پتھر بھی ہیں جس کی وجہ سے ریسکیو بوٹ کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

علاوہ ازیں جائے حادثہ پر ڈپٹی کمشنر ملیر عرفان معرفانی، ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر، علاقے کے رکن اسمبلی ساجد جوکھیو اور دیگر حکام بھی پہنچے ، موقع پر موجود ورثا کو تسلی دی اور ریسکیو آپریشن کا جائزہ بھی لیا ، امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لیے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے تیراک بھی موجود  تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔