عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کا حکم نامہ جاری

ویب ڈیسک  بدھ 26 اکتوبر 2022
اپنے قلم کو چھڑی نہیں بنائیں گے، چیف جسٹس کے ریمارکس (فوٹو فائل)

اپنے قلم کو چھڑی نہیں بنائیں گے، چیف جسٹس کے ریمارکس (فوٹو فائل)

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس میں وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ لانگ مارچ سے متعلق ایجنسیوں کی رپورٹ عمران خان، بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو فراہم کریں اور پھر تینوں فریقین اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو جواب جمع کروائیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق پی ٹی آئی نے ریلی کو پر امن رکھنے کی یقین دہانی کروائی ہے، عمران خان اور اُن کے وکلا  نے یقین دہانی کو توڑ پھوڑ نہیں کی جائے گی اگر ایسا ہوا تو توہین عدالت ہوگی۔

حکم نامے کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی چلانے کی استدعا کی مگر اس کارروائی سے پہلے ضروری ہے کہ یقین دہانی توڑنے کے حقیقی پہلوؤں کو جانچا جائے، عمران خان ،بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو ایجنسیوں کی رپورٹس فراہم کی جائیں اور تینوں فریقین رپورٹس پڑھنے کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے الزامات کا بھی جواب دیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تینوں فریقین جوابات 31 اکتوبر کی تاریخ تک جمع کروائیں، کیس کو 31 اکتوبر سے شروع ہونے والے ہفتے میں دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کرنے پر حکم امتناع جاری کرنے کی حکومتی درخواست مسترد کردی جب کہ توہین عدالت کی درخواست پر عمران خان کو نوٹس جاری کیا۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ پولیس اور حساس اداروں کی رپورٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔  پولیس، آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹس ہی پر سب اداروں کا انحصار ہے۔ عدالت کا پہلا سوال تھا کہ عمران خان نے ڈی چوک آنے کی کال کب دی تھی۔عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا تھا، عمران خان نے 6 بج کر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا۔عمران خان نے دوسرا اعلان 9 بج کر 54 منٹ پر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی درخواست مسترد؛ سپریم کورٹ کا لانگ مارچ کے خلاف کسی بھی کارروائی سے انکار

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت  میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے سرینگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی تھی، عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا، عمران خان کے بعد شیری مزاری،فواد چودھری،صداقت عباسی نے بھی ڈی چوک کی کال دی۔عثمان ڈار ،شہباز گل اور سیف اللہ نیازی نے بھی ڈی چوک کی کال دی۔عمران خان کی ڈی چوک کال توہین عدالت ہے۔عمران خان مختص جگہ سے آگے آئے اور ریلی ختم کی۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلا نے دی تھی۔عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا۔عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے۔عمران خان کو کیا بتایا گیا اصل سوال یہ ہے۔عمران خان آکر عدالت کو واضح کردیں کس نے کیا کہا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بابر اعوان، فیصل چودھری نے عمران خان کی طرف یقین دہانی کروائی تھی۔یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نوٹس میں یقین دہانی کا ذکر ہے لیکن تحریری طور پر کہاں ہے؟۔عامر رحمن نے کہا کہ عدالت نے فیصل چودھری اور بابر اعوان کو عمران خان سے ہدایات لینے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مناسب ہو گا حکومتی الزامات پر یقین دہانی کرانے والوں سے جواب مانگ لیں۔تحریری مواد نہ ہوتو کسی کو بلانے کا فائدہ نہیں۔رپورٹس میں اتنا جواز موجود ہے کہ عمران خان سے جواب مانگا جائے۔اگر نوٹس بھی کریں تو عمران خان کا پیش ہونا ضرور ی نہیں۔سرخیاں نہیں بنوانا چاہتے،قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔سول نوعیت کی توہین عدالت میں شوکاز پر ہی پیش ہونا پڑتا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں جواب کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے جمعہ کے روز لانگ مارچ کے اعلان پر نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ فی الحال توہین عدالت کا نوٹس یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے۔ عمران خان کا جواب آ جائے پھر جائزہ لیں گے کہ توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جائزہ لینا ہے کیا یقین دہانی ڈی چوک نہ آنے کی کرائی گئی تھی یا نہیں۔ حکومتی الزامات پر بھی عمران خان کا مؤقف سننا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے پاس قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار ہے۔عدالت صرف چاہتی تھی کہ کوئی ظالمانہ اقدام نہ کیا جائے۔قانون کے مطابق احتجاج سب کا حق ہے۔حفاظتی اقدامات کرنا حکومت کا کام ہے وہ کرے۔اپنے قلم کو چھڑی نہیں بنائیں گے۔ عدالت نے عمران خان، بابر اعوان اور فیصل چودھری کو جواب کے لیے خفیہ رپورٹس فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ رپورٹ کی روشنی میں جواب جمع کروایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔