الیکشن کمیشن گورنر پنجاب کو چھوڑے، خود ہی انتخابات کی تاریخ دیدے،لاہور ہائیکورٹ

محمد ہارون  جمعـء 3 فروری 2023
پنجاب میں الیکشن کی تاریخ مقرر نہ کرنے کے خلاف درخواست پر گورنر پنجاب کو جواب جمع کرانے کی مہلت

پنجاب میں الیکشن کی تاریخ مقرر نہ کرنے کے خلاف درخواست پر گورنر پنجاب کو جواب جمع کرانے کی مہلت

لاہورہائیکورٹ نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ مقرر نہ کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت 9 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے گورنر پنجاب کے وکیل کو جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔

عدالت نے آئندہ سماعت سے قبل فریقین کو تفصیلی جواب عدالت میں جمع کرانے کی بھی ہدایت کردی ۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے الیکشن ہونے ہیں ، کوئی سنجیدہ نہیں لے رہا۔

جسٹس جواد حسن نے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی درخواست پر سماعت کی۔ اسدعمر،شبلی فراز ، اعظم سواتی،میاں اسلم اقبال اور سبطین خان عدالت میں پیش ہوئے ۔

سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر نے الیکشن کمیشن ، پارلیمانی لیڈر اور اسپیکر کے خط کا جواب دے دیا ہے ۔

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ گورنر نے پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے کوئی تاریخ نہیں۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کب کرائیں گے الیکشن۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم الیکشن کرانے کےلیے تیار ہیں کل اس حوالے سے نئی پیش رفت ہوئی ہے گورنر نے الیکشن کمیشن کے خط کا جواب دیا ہے گورنر نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے ۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں درج ہے کہ الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ معاشی صورتحال خراب ہوچکی ہےاس سے پہلے بھی معاشی صورتحال خراب تھی مگر الیکشن تو ہوئے تھے اعلی عدلیہ کے اس حوالے سے متعدد فیصلے ہیں.

عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ گورنر کو چھوڑیں آپ تاریخ دے دیں ،آپ اتنا کام کر رہے ہیں، چھوڑیں گورنر کو آپ خود الیکشن کی تاریخ دے دیں ۔

جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ ہر روز الیکشن کمیشن کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ اچھا کام کریں اور تاریخ دیں ۔ وفاقی حکومت کے وکیل کا موقف تھا کہ 90روز پورے ہونے میں ابھی کافی وقت ہے ۔

عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تاریخ تو دیں کہ الیکشن کب کرائیں گے. وفاقی حکومت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ کیا عدالت الیکشن کی تاریخ دے گی ۔

جسٹس جواد حسن نے باور کرایا کہ یہ صرف عدالت نہیں بلکہ آئینی عدالت ہے ہم تو وہ بات کررہے ہیں جو آئین میں درج ہے۔ وفاقی حکومت کے وکیل کا موقف تھا کہ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ الیکشن نہیں ہونگے۔

تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90روز میں الیکشن ہونے ہیں لیکن گورنر نے تاحال الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا اعلی عدلیہ کے متعدد فیصلے موجود ہیں 90روز کا مطلب 90 روز ہے۔

اسد عمر نے موقف اختیار کیا الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے شیڈول جاری کردیا ہے ، اس وقت معاشی صورتحال کا خیال ذہن میں نہیں آیا ۔

عدالت نے اسد عمر سے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں فل بینچ بنا دیں ۔ تو پی ٹی آئی نے فل بینچ نہ بنانے کی استدعا کردی۔ گورنر کے وکیل نے جواب جمع کرانے کی مہلت مانگ لی ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اپ کو کتنا وقت درکار ہے یہ پاکستان کا معاملہ ہے ۔

وکیل گورنر کا موقف تھا کہ کم ازکم سات روز کا وقت درکار ہے ۔

اسد عمر نے سات روز کا وقت دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سات روز کا وقت دینے کا مطلب ہے اسمبلی تحلیل کو 22روز ہوچکے ہونگے ۔

جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ عدالت آگئے ہیں تو بے فکر ہو جائیں چار پانچ روز سے کچھ نہیں ہوتا ۔ عدالت نے سماعت 9فروری تک ملتوی کردی.

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔