16دسمبر 1971 ...اور پھر 9 مئی 2023

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 17 مئ 2023
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

پچھلے کالم میں تجویز کیا گیا تھا کہ کاشتکاروں کو عشر ادا کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے جس میں علمائے کرام اور معاشرے کے پڑھے لکھے افراد خصوصاً نوجوانوں کا بڑا اہم کردار ہونا چاہیے۔

اسی پر مزید لکھنے کا ارادہ تھا مگر پھر 9مئی ہوگیا، قائدؒ کی نشانی جناح ہاؤس کو جلتے دیکھا تو دل کٹ کر رہ گیا ، شہداء کی مقدس شبیہوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے دیکھا تو ایسے لگا کسی نے جگر میں خنجر اتار دیاہے، چوبیس گھنٹے تک ایک لقمہ نہ کھاسکا۔

ملک کا درد رکھنے والے والوں کا کہنا ہے کہ پاک فوج اور خود ریاستِ پاکستان پہلی بار16 دسمبر 1971کو عزت وناموس سے محروم ہوئی تھی اوراس کے بعد اب 9مئی 2023 کو اُسی طرح بے توقیر ہوئی ہے۔

پچھتّر سالوں میں ایسا شیطانی کھیل کبھی نہیں کھیلا گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اور الطاف حسین نے بھی اپنے پیروکاروں کو کور کمانڈرز کی رہائش گاہوں اور قومی سلامتی سے جڑی عمارتوں پر حملے کے لیے نہیں اُکسایا۔

سوال یہ ہے کہ کیا حملہ آوروں کے لیڈر کے ساتھ، عسکری ادارے نے کوئی ایسی غیر معمولی زیادتی کی تھی، جس کا اتنا پرتشدد ردعمل ہوا اور کیا یہ سیاسی ورکروں کا قدرتی رد عمل تھا؟ نیب کی طرف سے گرفتاری کو زیادتی یا ظلم تب مانا جائے اگر کوئی سیاسی لیڈر پہلے گرفتارنہ ہوا ہو۔ اس ملک کا ہر بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر گرفتار ہوچکا ہے۔

لہٰذا گرفتاری کو کسی لیڈر کے ساتھ زیادتی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیا یہ گرفتاری کوئی جھوٹا یا بے بنیاد کیس بنا کر کی گئی تھی؟ نہیں ایسا نہیں ہے، یہ ایک مضبوط کیس ہے جس کے حقائق کو خود عمران خان کے وزراء تسلیم کرچکے ہیں، پاکستانی قوم کے خزانے پر تقریباً 60ارب روپے کا ڈاکا ڈالنے یا ریاستِ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا اگر کوئی واضح کیس ہے تو یہ ہے۔

یہ رقم حکومتِ پاکستان کے خزانے میںجانی چاہیے تھی مگر عمران خان نے اپنی کابینہ سے انتہائی مشکوک انداز میں اس طرح منظوری لی کہ بند لفافہ لہرادیا گیا، دو تین وزراء نے اس کی تفصیل جاننا چاہی مگر یہ کہہ کرتفصیل بتانے سے انکار کردیا گیا کہ یہ State Secret ہے۔

اس کی تفصیل نہیں بتائی جاسکتی۔ چند روز پہلے لَمز یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب نے اپنی کلاس (جس میں نوّے فیصد طلباء عمران خان کے حامی ہیں) میں القادر یونیورسٹی کا کیس پیش کیا اور اسٹوڈنٹس سے ان کی رائے پوچھی، پچانوے فیصد نے اسے عمران خان کا غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل قرار دیا۔

تمام حقائق چیخ چیخ کر بدنیتی کی نشاندہی کررہے ہیں۔ کیا انسدادِ کرپشن کے لیے بنائے گئے سب سے بڑے ادارے کا یہ حق بلکہ ذمے داری نہیں تھی کہ قومی خزانے کو 60 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے بارے میں پوچھ گچھ کرے۔ اگر تفتیش کے لیے ملزم پیش نہیں ہوتا تو تفتیشی ایجنسی عدالت سے رجوع کرتی ہے۔ عدالت نے گرفتاری کا اجازت نامہ (وارنٹ) جاری کیا تو متعلقہ ادارے نے انھیں گرفتار کرلیا۔

اس میں کوئی غیر معمولی یا انہونی چیز ہرگز نہیں تھی، تو پھر سوال یہ ہے کہ ایک متوقع گرفتاری پر ورکروں میں اس قدر غم وغصہ پیدا ہو سکتا تھا؟ ہر گز نہیں۔ گرفتاری پر قدرتی ردِّعمل زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ کچھ لیڈر پریس کانفرنس کرتے، کچھ جلسے یا ریلیاں کرلیتے اور پھر ان کی ضمانت کے لیے کوشش کرتے۔ دو سابق وزرائے اعظم گرفتاری کے بعد ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔تو کیا صرف گرفتاری پر ایسا ’’غم وغصہ‘‘ قدرتی تھا؟

میں نے اپنی سروس میں سیکڑوں جلوسوں سے ڈیل کیا ہے، سب سے شدید غم وغصہ اس جلوس کے شرکاء میں ہوتا ہے جس نے جنازے اٹھائے ہوں، مخالف فریق کے بجائے پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اٹھائے ہوئے جلوسوں کے شرکاء بھی ضلعی پولیس افسروں کے گھروں پر حملے نہیں کرتے۔ مذہبی ایشوز میں توہین رسالتؐ ایسا معاملہ ہے جس پر اگر جذبات برانگیختہ ہوجائیں تو پھر انھیں کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوتا مگر نو اور دس مئی کے جلوسوں میں یہ عوامل بھی نہیں تھے، عمران خان کے ساتھ پچھلے ایک سال میں تین واقعات ایسے پیش آئے ہیں جن پر ان کے ورکروں نے react  کیا۔

سب سے پہلے اپریل 2022  میں عدمِ اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ان کے پیروکاروں کو بہت صدمہ پہنچا، وہ بڑی تعداد میں باہر نکلے مگر کہیں بھی فوجی تنصیبات پر حملے نہیں ہوئے، اور نہ ہی جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ہوئے۔ دوسرا واقعہ بہت سنگین تھا جب وزیرآباد میں ان پر فائرنگ ہوئی جس سے وہ زخمی بھی ہوئے۔

اگر کوئی واقعہ ان کے ورکروں میں شدید غم وغصے کا موجب بن سکتا تھا تو ان پر حملے کا واقعہ تھا، مگراس واقعہ کے بعد پورے ملک میں کہیں بھی پرتشدد ہنگامے نہیں ہوئے۔ کسی فوجی افسر کے گھر پر یا کسی عسکری عمارت پر حملہ نہیں ہوا۔

تیسرا واقعہ ان کی گرفتاری کا ہے۔ اس میں زیادتی کا عنصرپہلے دونوں واقعات سے کم ہے مگر سیاسی مبصرین کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ جب زیادتی کا عنصر قدرے زیادہ تھا اور ان کے ورکروں کو زیادہ مشتعل ہونا چاہیے تھا اس وقت پرتشدد واقعات نہیں ہوئے۔ مگر محض گرفتاری سے ان کے ’’پیروکار‘‘اتنے ’’مشتعل‘‘ہوگئے کہ قومی سلامتی کے حساس ترین مقامات کو جلادیا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سیاسی ورکروں کا قدرتی ’’ردعمل‘‘ ہرگز نہیں تھا یہ بڑی منصوبہ بندی اور motivation  سے تیار کردہ تربیّت یافتہ گروپ تھے جنھیں ٹارگٹ دیے گئے تھے اور آگ لگانے کی تربیت دی گئی تھی۔ ایسا کب ہوا؟ انتہائی باخبر اور قابلِ اعتماد ذرایع نے بتایا کہ عمران خان وزیرآباد فائرنگ کے بعد چند روز تو خوفزدہ رہے۔

اس کے کچھ روز بعد جب وہ اسپتال سے فارغ ہو کر زمان پارک آئے تو انھوں نے پارٹی لیڈروں کو بلا کر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر فائرنگ کے بعد تم لوگوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔

تمہیں ہر چیز اُسی طرح تہس نہس کر دینی چاہیے تھی جس طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہوا تھا۔ چنانچہ لیڈروں اور ورکروں کو ٹاسک دے دیا گیا کہ ٹکٹ چاہیے تو عمران خان کو گرفتاری سے بچانا ہوگا اور اگر گرفتاری ہوئی تو اِن اہداف کو جلانا ہوگا، لہٰذا ان ہدایات پر من و عن عمل ہوا۔

حالیہ دنوں میں چار کلپس موصول ہوئے ہیں، کوئی بھی پورا دیکھنے کا حوصلہ نہ ہوا، ایک پر تبصرہ فرمایا گیا تھا ’’ایک محافظِ وطن کے ساتھ پولیس والے بدتمیزی کر رہے ہیں‘‘ اس میں ایک عسکری ادارے کا ریٹائرڈ افسر ، پولیس افسر سے کہہ رہا ہے، ’’میں نے اس ملک کو بچایا تھا‘‘ پولیس افسر کی ’بدتمیزی‘ یہ تھی کہ اس نے بڑے دکھ سے جواب دیا ، ’’آپ کے لوگوںنے آپ کے سامنے پاکستان کا ماڈل جلادیا ہے اور آپ نے روکا تک نہیں۔‘‘ دوسرے کلپ میں حملہ آور وں کا لیڈر گیٹ پر لگی ہوئی تختی پڑھتا ہے ’’جناح ہاؤس‘‘ اور پھر گیٹ کے اندر کھڑے فوجی کو دھمکی دیتے ہوئے کہتا ہے۔

’’ہم تمہیں گنگا اور جمنا میں بہادیں گے۔‘‘ کیا یہ فقرہ کوئی پاکستانی اور گنگا جمنا کی غلامی سے آزادی دلانے والے محمد علی جناحؒ سے معمولی سی عقیدت رکھنے والا کوئی شخص بول سکتا ہے؟ بابا کی روح تڑپ رہی ہوگی اور جناح ہاؤس کی راکھ قوم سے انصاف مانگ رہی ہے! قانون کا دیا ہوا حق استعمال کرتے ہوئے ہر قیمت پر جناح ہاؤس کو بچانا چاہیے تھا، شیلنگ اور ہوائی فائرنگ سے بلوائیوں کو بھگایا جاسکتا تھا۔

ایسا نہ کرکے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا گیا۔ تیسرے کلپ میں ہمارے ہیرو ایم ایم عالم کے اُس جہاز کو، جسے دشمنوں کی پوری ایئرفورس مل کر نہ گرا سکی تھی، عمران خان کے پیروکار جلارہے ہیں، بخدا یہ دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔ چوتھے کلپ میں جس شبیہ کو پیروں تلے روندنے کے بعد آگ لگائی گئی وہ ہمارے قابلِ فخر شیر کیپٹن شیرخان کی ہے جس کی غیر معمولی جرأت اور بہادری کو دشمن ملک کا جرنیل بھی خراجِ تحسین پیش کیے بغیر نہ رہ سکا۔ او بدبختو! جانتے ہو شہید کا کیا مقام ہوتا ہے۔

زندہ قوموں کے راہنما اپنے شہیدوں کی وردیوں اور تصویروں ہی نہیں ان کی نسلوں کو بھی جھک کر سلام کرتے ہیں اور تم ان کی شبیہوں کو جلارہے ہو، جنھوں نے تمہیں بچانے کے لیے اپنا آپ قربان کردیاتھا۔ او ظالمو! ایسی گھناؤنی حرکت تو ملک کے غدار اور باغی بھی نہ کرسکے۔

شہیدوں کے خون اور وطنِ عزیز کی مٹی کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں ان شہروں کا پولیس افسر ہوتا تو قومی افتخار اور وقار کی لازوال علامتوں کو جلانے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیتا۔ حملہ آوروں کے لیڈر نے اس قدر گھناؤنا اور ناقابلِ معافی جرم کرنے والوں کی نہ صرف مذمت نہیں کی بلکہ رعونت کے ساتھ کہا کہ ردعمل تو ہونا تھا… مگرمجھے یقین ہے کہ اس شیطانی کھیل میں حصہ لینے والے اور اس کے متکبرمنصوبہ ساز اور ڈائریکٹراِسی ملک میں ہمیشہ کے لیے خوار و رسوا ہوںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔