سولر پینل کی آڑ میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے ذمہ دار 6 نجی بینک ہیں، ایف بی آر

ارشاد انصاری  بدھ 29 نومبر 2023
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

 اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سولر پینلز درآمد کرنے کی آڑ میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ذمہ داری بینکوں پر عائد کر دی ہے اور کہا کہ 6 مقامی بینکوں نے مشکوک ترسیلات کو روکنے کیلئے درکار شرائط پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا۔

سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کسٹمز حکام نے سولر پینل کی امپورٹ کی آڑ میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ذمہ داری 6 نجی بینکوں پر عائد کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ  اسٹیٹ بینک نے بھی بینکوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

سینٹ کمیٹی نے مرکزی بینک سے آئندہ اجلاس میں تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ ایف بی آر کی تحقیقات میں 63 درآمدکنندگان کا سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں اوورانوائسنگ کے ذریعے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے تحقیقات میں سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں منی لانڈرنگ کرنے والے 63 درآمد کندگان کا سراغ لگالیا ہے۔

ایف بی آر نے مزید انکشاف کیا ہے کہ منی لانڈرنگ بینکوں کے ذریعے کی گئی جبکہ اسٹیٹ بینک حکام کا کہنا ہے کہ نجی بینکوں کو جرمانہ کیا ہے۔

چیئرمین ایف بی آرکا کہنا ہے کہ ملک میں انکم ٹیکس دہندگان ایک کروڑ 14 لاکھ ہیں جبکہ 3 لاکھ 55 لاکھ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں گزشتہ ایک سال میں مقامی ٹیکسوں سے 60 فیصد جبکہ درآمدات سے 40 فیصد وصولی ہوئی ہے، رواں سال ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی 46 فیصد ہو گئی ہے۔

رواں مالی سال میں 20 لاکھ نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹر کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس کیلئے ساڑھے 4 لاکھ لوگوں بارے مکمل معلومات ہیں جبکہ ساڑھے 5 لاکھ کی معلومات نادرا نے فراہم کر دی ہیں۔

بدھ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس کمیٹی کے سربراہ چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا، جس میں کسٹمز حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیس پر اکتوبر 2022 میں تحقیقات شروع ہوئیں، زائد انوائسنگ میں 63 درآمد کندہ ملوث پائے گئے۔

حکام نے بتایا کہ منی لانڈرنگ بینکوں کے ذریعے کی گئی سولر پینلز کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ کسٹمز حکام کے پاس تو صرف درآمد کی جی ڈی آتی ہے باقی رقم تو بینک کے ذریعے جاتی ہے پشاور کی دو اور کوئٹہ کے تین درآمد کنندہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ ایف بی آر تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ چھ بینکوں کے ذریعے رقم ملک سے باہر بھیجی گئی، بینکوں نے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی ہدایات کے برخلاف کیش رقم جمع کروانے والے افراد کی چھان بین نہیں کی، چین سے درآمدی مال کی دیگر ممالک میں خلاف قانون ادائیگی کی کمیٹی نے ایف بی آر کی تحقیقات کو سراہا ۔

کمیٹی نے مرکزی بینک کی طرف سے بینکوں کیخلاف کارروائی نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں جبکہ چیئرمین ایف بی آر نے مزید کہا کہ یہ ساری معلومات ڈسٹرکٹ ٹیکس افسران کو مزید کارروائی کیلئے فراہم کر دی ہیں۔

اجلاس میں سینٹر مصدق ملک نے کہا کہ میں تیسرے اجلاس میں شرکت کر رہا ہوں مگر حکام جواب دینے کو تیار نہیں ہیں، جس پر کمیٹی کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ میں نے گزشتہ اجلاس میں ایف آئی اے کو کیس کی تحقیقات کیلئے تجویز دی تھی جبکہ کسٹمز حکام نے کمیٹی کے شرکاء کو بتایا کہ اس کیس پر اکتوبر 2022 میں تحقیقات شروع ہوئی اوور انوائسنگ میں 63 درآمد کندہ ملوث پائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ بینکوں کے ذریعے کی گئی سولر پینلز کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہیں ہے ہمارے پاس تو صرف درآمد کی جی ڈی آتی ہے باقی رقم تو بینک کے ذریعے جاتی ہے۔

سینٹر مصدق ملک نے کہا کہ کسٹمز کے پاس ہر طرح کی مصنوعات کی درآمدی قیمت ہوتی ہے ۔ اس پر کسٹمز حکام نے بتایا کہ کسٹمز حکام صرف درآمدی مال کو دیکھتے ہیں انکو پتہ نہیں ہوتا کہ کتنی رقم باہر بھجوائی گئی۔

اس پر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایف بی آر کی سولر پینلز میں منی لانڈرنگ کی تازہ رپورٹ میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس موقع پر اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ ہم نے بینکوں کو جرمانہ کیا ہے جس پر رکن کمیٹی مصدق ملک نے کہا کہ جو رپورٹ ہمیں دی گئی ہے اس میں کسی بینک کا نام نہیں دیا گیا۔

رکن کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ سولر پینلز اس وقت درآمد ہوئے جب ضروری اشیاء کی درآمد پر بھی پابندی تھی۔ اس پر مصدق ملک نے کہا کہ اس رپورٹ میں بنیادی الزام یہ تھا کہ ملک سے درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کی گئی۔

کمیٹی کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس معاملے پر تیسری دفعہ اجلاس کر رہے ہیں مگر کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہی جس پر کسٹمز حکام نے کہا کہ سولر پینلز کی درآمد ڈیوٹی اور ٹیکس فری ہے، کسٹمز حکام کو مال چیک کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔