ہر عہد کا شاعر، ناصر کاظمی

زبان و بیان کے لحاظ سے بھی ناصر کی غزلوں میں بڑی دلکشی ہے


صدام ساگر February 09, 2025

قیام پاکستان کے بعد اُردو غزل کے میدان میں کئی ایک نئی آوازیں ابھریں، مگر جو آواز اپنی انفرادیت تسلیم کروانے میں کامیاب ٹھہری وہ ناصر کی آواز تھی۔ ناصر رضا نام، ناصر تخلص اور کاظمی نسبت ہے جو ۸ دسمبر ۱۹۲۵ء کو مشرقی پنجاب کے شہر انبالہ میں محمد سلطان کے ہاں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم انبالہ اور ثانوی تعلیم شملہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آگئے اور ۱۹۴۰ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں ایف اے میں داخلہ لیا، اسی دوران پاکستان معرض وجود میں آیا اور شاعری کا باقاعدہ آغاز اسی دور میں ہُوا۔ تعلیم سے کنارہ کش ہوکر تلاش معاش میں سرگرداں ہوگئے اور کچھ مدت کے لیے ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں ملازم رہے لیکن مزاج کی ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب علیحدہ ہوگئے اور صحافتی زندگی کو اپنا لیا۔

معروف ادبی جریدوں ’اوراقِ نو‘ اور ’ہمایوں‘ کے مدیر رہے۔ ۱۹۵۷ء میں خود بھی ایک ادبی جریدہ ’’خیال‘‘ شایع کیا۔ مختلف حکومتی اداروں کے ادبی جریدوں کے مدیر بھی رہے۔ بالآخر اگست ۱۹۶۴ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہو گئے اور تا دمِ آخر وہیں رہے۔

ناصر کاظمی نے بہت کم عمر پائی لیکن اس عمر میں جتنی شہرت ناصر کو نصیب ہوئی، بطور مثال کسی اور شاعر کو پیش کرنا مشکل ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ شاعر پیدا ہوتے ہیں بنائے نہیں جاتے تو عہد حاضر میں قدرت نے اس فن کی بیاضوں کے ساتھ جن لوگوں کو شاعر ہونے کا شرف عطا کیا، ان میں ناصر کاظمی سرفہرست ہے۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے خواص و عوام میں مقبول شاعر بن گئے، سونے پر سہاگہ کا کام ان معروف مغنیوں نے کیا جنھوں نے ان کی غزلوں کو ساز و آواز سے سنوارا۔

ناصر کاظمی جدید اُردو غزل کے نمایندہ شاعر ہے۔ ان کے ہاں نظمیں بھی ملتی ہیں لیکن غزل میں اس کا منفرد مقام ہے۔ ان کے کلام میں میر تقی میر کا سوز و گداز، محرومی، اداسی اور تنہائی نظر آتی ہے اور اس مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ ناصر کا زمانہ بھی ویسا ہی پُر آشوب، جبر و استبداد اور اضطراب و بے یقینی کا زمانہ تھا جیسا کہ میر تقی میر کا زمانہ تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ناصر کے کلام میں اداسی، محرومی اور تنہائی کا احساس شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ ناصر کے شعری اثاثہ میں برگِ نے (غزلیں)، دیوان (غزلیں)، پہلی بارش (غزلیں)، نشاطِ خواب (نظمیں)، سُر کی چھایا (منظوم ڈرامہ) اور کلیات جب کہ نثری کتب میں ’’خشک چشمے کے کنارے‘‘ اور ’’ڈائری۔ چند پریشاں کاغذ‘‘ شامل ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’ برگِ نے‘‘ ۱۹۵۲ء میں دو بار چھپا جس کے ’’ اعتبارِ نغمہ‘‘ میں بہت سی محرومیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

مگر اس کتاب کے ’’ حرفِ مکرر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ محفلِ مشاعرہ میں جب شاعر سے شعر پڑھنے کی دوبارہ فرمائش کی جاتی ہے تو وہ اسے مکرر سنا دیتا ہے، مگر جب پوری کتاب کے بارے میں پڑھنے والوں کا تقاضا مکرر ہو تو صورت کچھ مختلف ہو جاتی ہے۔ اس خیال سے نئے ایڈیشن میں چند تازہ غزلیں اور اشعار شامل کر دیے ہیں کہ کتاب کا مجموعی تاثر تازہ تر ہو جائے۔ ’’ برگِ نے‘‘ جب پہلی مرتبہ شایع ہوئی تو یہ میرا ’’ شوقِ فضول‘‘ تھا۔ اب میرے پڑھنے والوں کی محبت ہے۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے وقت ناصر بائیس سال کے باشعور نوجوان تھے، انھوں نے جدوجہد آزادی اور تقسیم ہند سے پیدا ہونے والے اثرات، ہندوؤں اور سکھوں کی شقاوت خصوصا مشرقی پنجاب میں جو آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اس کو ناصر نے اپنی آنکھوں سے نہ صرف دیکھا بلکہ اسے اپنے اشعار میں بھی بیان کیا۔

محرومِ خواب دیدئہ حیراں نہ تھا کبھی

تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی

ہر چند غم بھی تھا مگر احساسِ غم نہ تھا

درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی

غمِ حالات کی رنجشوں ، ہجر کی محرومیوں میں ترکِ محبت کا دوستوں سے یوں گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ:

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

ناصر کو اگرچہ زمانے نے بہت دکھ دیے جس کا اظہار اس نے جا بجا کیا ہے تا عمر غم زمانہ اور غم زندگی اس کے ساتھ ساتھ رہے پھر بھی ناصر غزل کا شاعر ہے جس میں حسن رنگینیاں، عشق کی کسک، ہجر و فراق لی لذتیں ہوتی ہیں۔

ناصر کی غزل گوئی کے حوالے سے سراج الاسلام لکھتے ہیں کہ ’’ ناصر کا لب و لہجہ جدید ہے لیکن اس جدیدیت کے باوجود اس کے یہاں شعریت پوری آب و تاب نظر آتی ہے۔ ناصر نے زندگی کی بے چینیوں اور محرومیوں کو شاعرانہ سلیقہ سے بیان کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے عہد کا سارا درد اپنی غزلوں میں سمونا چاہتا ہے اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔ اسی شعریت سے اس کی غزلوں میں جاذبیت پیدا ہوئی ہے۔‘‘

ناصر کاظمی ذہنی کرب اور روحانی بے کیفی کو خارجی ماحول کے حوالے سے بیان کرنے میں خاص ملکہ رکھتے۔ اپنی اُداسی اور تنہائی کا اظہار کچھ یوں کرتے۔

دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

زبان و بیان کے لحاظ سے بھی ناصر کی غزلوں میں بڑی دلکشی ہے۔ غزلوں کو یہ دلکشی اس نے اپنی مترنم سادہ اور رواں زبان کے ذریعے بخشی ہے۔ ان کے اشعار میں بے ساختگی اور پکا پھلکا انداز بیان، شیریں لب و لہجہ، سب مل کر ایک عجیب سا سماں پیدا کر دیتے ہیں کہ پڑھنے یا سننے والے پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے جب کہ ان کے کلام میں کہیں کہیں تو ایسی روانی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے کہ قاری کہہ اٹھے کہ یہی تو میری آواز ہے۔ ان کی مشہورِ زمانہ غزل کے چند اشعار دیکھے۔

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اُٹھاؤں کس کے لیے

اس غزل میں ناصر کی سادگی کا کیا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے کلام میں حسن و عشق اور واردات قلبی کی کیفیات اپنے عہد کے حالات اور ترقی پسند خیالات کا حسین مجموعہ ہے۔ اس نے اپنے دورکے مایوس کر دینے والے حالات کو بڑی خوبی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمیٹا ہے۔

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا، کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا، مجھے تو حیران کر گیا وہ

ناصر کاظمی اپنے دوستوں کے ہمراہ لاہور کے ’’ پاک ٹی ہاؤس‘‘ میں وقت گزارتے اور تا دیر شعر و سخن کی محفلیں جما کرتی۔ ناصر کاظمی ایک عہد کا نہیں بلکہ ہر عہد کا شاعر ہے، جن کا طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد ۲ مارچ۱۹۷۲ء کو انتقال ہُوا۔ ان کی لحد کے کتبے پر آج بھی یہ شعر کچھ اس طرح سے درج ہے جس کا حرف حرف صدا دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ:

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں