سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ کہ ایف بی علی کیس کلاز ڈی کی بات کرتا ہے کہ اس کے تحت سویلین کو بنیادی حقوق حاصل ہونگے، تو پھر ایف بی علی کیس کے تناظر میں کلاز ڈی کے ہوتے ہوئے سویلینز کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے، یہی وہ سوال ہے جو میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ سماعت کر رہا ہے، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ سلمان اکرم راجہ اور اور وزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل میں ایف بی علی کیس پر بات کی، میں ایف بی علی کیس کا وہ متعلقہ پیراگراف آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کے تحت ہوا، ایف بی علی کیس کو 1973 کے آئین کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔
خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ ایف بی علی کیس میں دوسری طرف سے جس پیراگراف کو بنیاد پر کر دلائل دئیے جاتے رہے وہ بے اثر ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی بی علی کیس کو چیلنج کرہے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جس فیصلہ کیخلاف اپیل سنی جارہی ہے اس میں بھی یہی درج ہے،
ایف بی علی کیس میں کہا گیا تھا کہ فوجی ٹرائل ٹھیک ہے اور فئیر ٹرائل کا حق ملتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8(3) اے کے تحت جو قوانین ہیں ان میں بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، اس کے تحت وہ قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں کالعدم نہیں قرار دئیے جاسکتے، 1962 کے آئین میں آرٹیکل 6 جبکہ 1973 کے آئین میں آرٹیکل 8 ہے، ایف بی علی کیس نے کہا کہ آرمڈ فورسز کے ممبران پر بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی علی کیس کلاز ڈی کی بات کرتا ہے کہ اس کے تحت سویلین کو بنیادی حقوق حاصل ہونگے، تو پھر ایف بی علی کیس کے تناظر میں کلاز ڈی کے ہوتے ہوئے سویلینز کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے، یہی وہ سوال ہے جو میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آپ فرض کریں کہ اگر سویلینز پر بھی آئین کے آرٹیکل 8(3) اے کا اطلاق ہوتا ہے، تو پھر ان سویلینز کو بھی بنیادی حقوق حاصل نہیں ہونگے، اس تناظر میں تو سپریم کورٹ میں یہ 184(3) کی درخواست ہی ناقابل سماعت تصور ہوگی، ایف بی علی کیس کو جس طرح سے دوسری طرف نے اپنے دلائل میں بیان کیا وہ کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کسی پارٹی کے دلائل پر انحصار کرنا لازمی نہیں ہوتا ، جب سپریم کورٹ بیٹھ جائے تو پھر وہ مکمل انصاف کا اختیار بھی استعمال کرسکتی ہے۔
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے درمیان اہم مکالمہ ہوا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ دلیل دی گئی ایف بی علی کیس میں 1962 کی آئینی شق 6 کی زیلی شق تین اے پر بحث ہوئی۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں اس پر بحث نہیں ہوئی تھی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آآپ زرا سنجیدگی سے دوبارہ پڑھ لیں، خواجہ حارث نے کہا کہ میں یہاں صرف عدالت کی معاونت کرنے آیا ہوں، آپ نے میرے بارے کہا میں غلط بیانی کر رہا ہوں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر میرے الفاظ سے آپکو خفگی ہوئی تو میں معذرت چاہتا ہوں، ہماری پشتو میں کہاوت ہے جب برتن ساتھ ہوں تو آواز نکل ہی آتی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ محاورہ یوں ہے کہ جب برتن ٹکراتے ہیں تو آواز آتی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ یہ قابل ستائش ہے کہ عدالت بہت محتاط انداز میں کیس کو دیکھ رہی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ مستقبل کیلئے بہت اہم کیس ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ میں کیس سے ہٹ کر کبھی کوئی بات نہیں کرتا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ہمارے سینئر ہیں، دوسری طرف سے آرٹیکل 10 اے ، آرٹیکل 25 کی بات کی گئی، ہمارے لیے سب سے محترم پارلیمنٹ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ پر حملہ ہو تو ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گا، لیکن اگر حملہ فوجی تنصیب پر ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیوں چلے گا، یہ تفریق کس اصول کے تحت کی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔