پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور سرحدوں کی صورتحال پر حکومت اور فوج کی جانب سے ایک مشتر کہ سیکیورٹی بریفنگ کا انتظام کیا گیا۔ اس بریفنگ کا مقصد سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو موجودہ صورتحال کے حوالے سے مکمل بیک گراؤنڈ بریفنگ دینا تھا تاکہ انھیں صورتحال کا مکمل اندازہ ہو سکے۔ انھیں بھارت کی جارحیت، جنگ کے خطرات اور دیگر سیکیورٹی کے معاملات کے بارے میں بتایا جا سکے۔
جواب میں پاکستان کے اقدامات کے بارے میں بھی بتایا جا سکے۔ حسب معمول اور توقع کے عین مطابق تحریک انصاف نے اس اہم بریفنگ کا بھی بائیکاٹ کر دیا اور کہا کہ جب تک ان کے بانی کو جیل سے نہیں نکالا جاتا تب تک وہ بریفنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس سے پہلے بھی وہ اہم بریفنگ کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔
اس سے پہلے جب دہشت گردی پر قومی اسمبلی کی قومی سلامتی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی تو تب بھی تحریک انصاف نے پہلے شرکت کے لیے ارکان کی لسٹ اسپیکر کو بھجوائی لیکن بعد میں جب سوشل میڈیا کا پریشر آیا تو بائیکاٹ کر دیا۔اس کے بعد یہ بائیکاٹ مسلسل ہو گیا ہے۔ اس لیے اب جب حکومت کو کہا جاتا ہے کہ کسی اہم مسئلہ پر اے پی سے بلائی جائے تو اسی لیے نہیں بلائی جاتی کہ تحریک انصاف نے تو بائیکاٹ ہی کرنا ہے۔ اس لیے اسے پی سی کا کیا فائدہ۔
تحریک انصاف کی سیاست کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ ان کے ارکان پارلیمان کے ممبر ہیں۔ بطور ممبر وہ سب مراعات لے رہے ہیں پارلیمان میں کمیٹیوں کی سربراہی بھی ان کے پاس ہے، ان کے پاس سرکاری گاڑیاں بھی ہیں، سرکاری گھر بھی ہیں، تنخواہیں، پٹرول اور مراعات سب لے رہے ہیں۔ کے پی میں حکومت ہے وہاں بھی سب مراعات لی جا رہی ہیں۔ حکومت کی موج مستیاں جاری ہیں، بجٹ لے رہے ہیں، ٹرانسفر پوسٹنگ کروائی جا رہی ہے۔ غرض کہ ایک نظام حکومت میں جو بھی مراعات لی جا سکتی ہیں وہ تحریک انصاف کے ارکان لے رہے ہیں، فل انجوائے کر رہے ہیں، بطور ارکان پارلیمان جو فری ٹکٹیں ملتی ہیں وہ بھی لے رہے ہیں۔
لیکن جب اسی پارلیمان میں جہاں سے مراعات لی جا رہی ہیں، وہاں قومی سلامتی کا کردار ادا کرنے کی باری آتی ہے تو بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ یہ کیا سیاست ہے۔ اگر بانی تحریک انصاف کی رہائی تک اہم ملکی سلامتی کے معاملات میں تعاون نہیں ہو سکتا، اہم قومی سلامتی کے معاملات کے حامل اجلاسوں میں شرکت نہیں ہو سکتی تو پھر مراعات کیوں لی جا سکتی ہیں، تنخواہیں کیوں لی جا رہی ہیں۔ وہ بھی لینا بند کر دیں تب تک جب تک ان کا بانی رہا نہیں ہوتا ۔
ایک اور بات کہ اگر آج بانی تحریک انصاف جیل سے باہر ہوتے تو کیا پاک بھارت کشیدگی پر ہونے والے کسی بھی اجلاس میں شرکت کرتے۔ بالکل نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب بانی تحریک انصاف وزیر اعظم تھے، ملک میں ان کا اقتدار تھا۔ تب جب بھارت کے ساتھ کشیدگی ہوئی تھی اور تب جب ارکان اسمبلی اور سیاسی جماعتوں کے لیے بریفنگ کا پاک فو ج نے اسی طرح اہتمام کیا تھا۔ کیا تب بانی تحریک انصاف نے بطور وزیر اعظم اس بریفنگ میں شرکت کی تھی۔ نہیں کی تھی۔
وہ بطور وزیر اعظم دوسرے کمرے میں ناراض بیٹھ گئے تھے۔ پاک فوج بریفنگ دیتی رہی، وہ الگ کمرے میں بیٹھے رہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ اگر آج بانی تحریک انصاف جیل سے باہر بھی ہوتے وہ تب بھی ایسی بریفنگ میں شرکت نہ کرتے۔ ملک میں سیاسی اتحاد ان کی سیاست میں نہیں ہے۔ وہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے میں یقین نہیں رکھتے۔
آج بھی ان کی سیاست یہی ہے کہ وہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ کوئی بھی بات کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ صرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ خط بھی صرف آرمی چیف کو لکھتے ہیں، وہ کبھی وزیر اعظم کو کوئی خط نہیں لکھتے۔ وہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو خط نہیں لکھتے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں یہ بہانہ فضول ہے کہ اگر وہ رہا ہو جائیں تو شریک ہونگے۔ تحریک انصاف تب بھی شریک نہیں ہوگی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کا جوابی موقف ہے کہ جب تحریک انصاف کے دور حکومت میںان کی قیادت جیل میںتھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تمام بڑی قیادت جیل میں تھی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت بھی جیل میں تھی۔ لیکن جب پاک بھارت کشیدگی ہوئی تو ان جماعتوں نے یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ پہلے ہماری قیادت کو رہا کیا جائے پھر ہم شریک ہونگے۔ ان جماعتوں نے اہم قومی معاملات کو سیاست سے الگ رکھا اور تعاون کرتے رہے۔ اس لیے ان کے مطابق جب ہم نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی تو ان کی بھی کوئی شرط کیسے مانی جا سکتی ہے۔
تحریک انصاف کی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے سے کیا ہوا ہے،کچھ بھی نہیں ہوا۔ تحریک انصاف خود ہی یہ ماحول بنائے جا رہی ہے کہ اہم قومی معاملات پر اس سے مشاورت کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اہم قومی معاملات پر مشاورت میں شریک نہیں ہونا چاہتی، اس لیے مستقبل میں اسے نہ بلایا جائے۔ وہ جمہوریت کو کمزور کر رہی ہے۔ جہاں حکومت اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کرتی ہے۔ جب اپوزیشن مشاورت کے لیے تیار ہی نہیں ہوگی تو مشاورت کے تمام دروازے بند ہو جائیں گے۔ یہ جمہوریت کا نقصان ہوگا۔ اس سے ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں کمزور ہوگی۔
ویسے تو آرمی چیف نے جب کے پی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس کیا تو تحریک انصاف نے اس کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ بلکہ بیرسٹر گوہر خصوصی ہیلی کاپٹر میں گئے۔ شاید اس میں حکومت شریک نہیں تھی۔ مسئلہ حکومت اور سیاسی جماعتوں سے ہے۔ فوج کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن تحریک انصاف کو سمجھنا چاہیے اس وقت اسٹبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ اس لیے وہ مائنس ہوتے جا رہے ہیں۔ انھیں سنبھل کر کھیلنا چاہیے ۔ جو وہ نہیں کھیل رہے۔ اس لیے اپنا ہی نقصان ہی کر رہے ہیں۔ بانی کا بھی نقصان کر رہے ہیں۔ بریفنگ کے بائیکاٹ سے حکومت کا نہیں تحریک انصاف اور بانی کا نقصان ہوا ہے۔ سمجھنے کی ضرورت ہے۔