مخصوص نشست کیس: سپریم کورٹ نے بینچ پر اعتراضات سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کردی

26ویں آئینی ترمیم پر حتمی فیصلے تک مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر سماعت روکنے کا اعتراض بھی مسترد کردیا


ویب ڈیسک May 22, 2025

مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے بینچ پر اعتراضات سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کردی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بنچ نے مخصو ص نشستوں سے متعلق نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی آئینی بنچ نے جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس عرفان سعادت خان کو آئینی بنچ کا حصہ بنانے، جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس عقیل عباسی کو بنچ میں واپس لانے یا اُنک و دعوت دینے پر ان کے انکار کے سبب جوڈیشل کمیشن اجلاس بلا کر نئے ججز آئینی بنچز کیلئے نامزد کرنے اور 26آئینی ترمیم پر حتمی فیصلے تک مخصو ص نشستوں سے متعلق نظر ثانی اپیلوں پر سماعت روکنے کی سنی اتحاد کونسل کی تینوں متفرق درخواستیں خارج کردیں۔

عدالت نے عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات دکھانے کی سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواست منظور کر لی ہے۔

مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے بینچ پر اعتراضات سے متعلق سنی اتحاد کونسل کے اعتراضات مسترد کردیے۔

26ویں آئینی ترمیم پر حتمی فیصلے تک مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر سماعت روکنے کا اعتراض بھی مسترد کردیا۔سپریم کورٹ کے 11 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی متفرق درخواست منظور کرلی۔

جسٹس امین الدین خان نے مختصر حکمنامہ سنایا، آئینی بینچ نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا، آئینی بینچ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کیلئے آئی ڈیپارٹمنٹ کو انتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔

اس سے قبل سماعت کے دوران 12 جولائی کے فیصلے کی متاثرہ خواتین کے و کیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا آئین کے آرٹیکل 191 اے اور پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے ہوتے ہوئے اس بینچ پر 1980 ہے رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آپ بتائیں سپریم کورٹ کے 1980 کے کونسے رولز نئی آئینی ترمیم سے مطابقت نہیں رکھتے۔

سینئر وکیل مخدوم علی خان نے کہا نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی حد تک 1980 کے رولز مطابق نہیں رکھتے، نئی آئینی ترمیم میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیار کا تقہج کیا گیا ہے،1980 کے رولز کے تحت نظرثانی پر سماعت پرانا بینچ کیا کرتا تھا، اب 26 ویں ترمیم کے بعد آئینی تشریح کے مقدمات کی نظرثانی آئینی بینچ کرے گا۔

اس بینچ میں ججز کی تعداد کے حوالے سے اعتراض کیا،میری نظر میں یہ 11 نہیں 13 رکنی بینچ ہے،اس 13 رکنی بینچ میں سے 7 ججز کی اکثریت نظرثانی پر فیصلہ کرے گی،اس کیس کی براہ راست نشریات کے حوالے سے درخواست دائر کی گئی، میری رائے میں یہ اس عدالت کا فیصلہ ہوگا کہ براہ راست نشریات ہونگی یا نہیں، اگر عدالت براہ راست نشریات کا فیصلہ کرے بھی تو کوئی اعتراض نہیں۔

دوسری درخواست تھی کہ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک اس کیس کو ملتوی کیا جائے،کونسا کیس کب لگنا ہے یہ طے کرنا اس عدالت کا اختیار ہے، کسی کی خواہش نہیں،عدالت کو کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا ،فرض کریں اگر عدالت یہ درخواست منظور کرکے کیس کی سماعت ملتوی کرتی ہے، تو پھر یہ آئینی بینچ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک دیگر کوئی درخواستیں بھی نہیں سن سکے گا، کل کو دیگر کیسز کی درخواست گزار بھی اسی خواہش کا اظہار کریں گے۔

جب سنی اتحاد کونسل کی ان متفرق درخواستوں پر مخدوم علی خان کے دلائل ختم ہونے کے بعد بینچ اٹھنے لگا تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اپنی نشست سے اٹھ کر فوری ڈائس پر پہنچے اور اونچی آواز میں کہنا شرو ع کردیا کیا 26ویں ترمیم کے بعد جواب الجواب کا حق ختم کر دیا گیا ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے انتہائی تحمل سے کہا آپ نے جو کہنا تھا کہہ دیا عدالت نے سن لیا اگر آپ کچھ اور کہنا چاہیں تو لکھ کر دے دیجئے گا جس پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے زور سے بولتے ہوئے اپنی بات کو دہرایا کہ 26ویں ترمیم کے بعد جواب الجواب کا حق ختم کر دیا گیا ہے۔

جسٹس امین الدین نے کہا جو بات ہم نے نہیں کہی وہ آپ ہم سے منسوب کیوں کر رہے ہیں، اس موقع پر سینئر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ قانون کی بات کی جائے تو ان کا حق دعوی ہی نہیں بنتا انہیں تو عدالت کو سننا ہی نہیں چاہیئے تھا، 13 رکنی پہلے بینچ نے بھی سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کو مسترد کیا ہے۔

اس پر فیصل صدیقی نے اپنے سینئر وکیل مخدوم علی خان کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا پھر آپ نے ہمیں اس میں فریق مقدمہ کیوں بنایا ہے۔

عدالتی آداب کے خلاف سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے اس روئیے پر جسٹس جمال مندوخیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان سینئر وکیل ہیں ان سے براہ راست بات نہ کریں عدالت سے مخاطب ہوں، اونچی آوازمیں بات نہ کریں۔

اس پر فیصل صدیقی نے کہا میں معذرت کرتا ہوں میں تو کہہ رہا ہوں کہ مجھے دس منٹ دے دیں جتنا وقت جواب الجواب میں خواجہ حارث نے سویلین کے کورٹ مارشل کے کیس میں لیا اتنا وقت نہیں لوں گا جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ ہم آپ کو سن لیتے ہیں کہیں کیا کہنا چاہتے ہیں اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ بعد میں یہ بہت بڑا تنازعہ بن جائے گا اور ایسا پہاڑ بن جائے گا جو سر نہیں ہو سکے گا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ پھر اختلافی فیصلہ دینے والے دو جج حتمی فیصلے پر دستخط نہیں کریں گے اور پھر آرڈر آف دی کورٹ نہ ہونے پر فیصلہ پر عمل نہیں ہوگا اگر ان دو ججوں کو شامل نہ کیا یا دو ججز کے لیے معاملہ جوڈیشل کمیشن کو نہ بھجوایا اس دوران وہاں موجود اٹارنی جنرل منصور اعوان زیر لب مسکرا دیے۔

فیصل صدیقی کے اس جواب پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر کل نئے دو جج شامل کریں اور وہ بھی اٹھ جائیں تو یہ سلسلہ ختم ہی نہیں ہوگا فیصل صدیقی کے ان جواب الجواب کے بعد سنی اتحاد کونسل کے

دوسرے وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ کہنا کہ عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ کی جائے یا نہیں یہ عدالت کی صوابدید ہے یہ بات درست نہیں کیونکہ اس کیس کی پہلی سماعت بھی لائیو اسٹریم ہوئی اور اگر اب نہ دکھائی گئی تو عوام میں شکوک پیدا ہونگے یہ بات درست ہے کہ پہلے 26ویں ترمیم کو سننے سے آئینی بینچ کے دوسرے مقدمات متاثر ہو نگے لیکن ہر کیس 26ویں ترمیم سے جڑا ہوا ہے اس لیے میرے رائے ہے کہ پہلے 26ویں ترمیم کیس کا فیصلہ کیا جائے۔

اس کے بعد بینچ آٹھ گیا اور کہا کہ مشاورت کر کے فیصلہ سنائیں گے عدالت تقریباً چالیس منٹ بعد واپس آئی مختصر فیصلہ سنا دیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کا رویہ نامناسب تھا جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ میں شرمندہ ہوں اور معذرت کرتا ہوں۔بعدازاں کیس کی سماعت پیر 26مئی ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں