وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے 10 جون کو قومی میزانیہ برائے مالی سال 2025-26 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ بجٹ تجاویز کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ جب کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فی صد اضافے کی تجویز ہے۔ بجٹ کا کل حجم 17 ہزار 573 ارب روپے ہے، حکومت کی آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے ہے اور بجٹ کا خسارہ 6,501 ارب روپے ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق حکومتی اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے جب کہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 8 ہزار 207 ارب روپے درکار ہوں گے۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کا تقریباً نصف بجٹ قرض کی ادائیگیوں کی نذر ہو جائے گا۔ اندرونی قرض پر 71.97 کھرب روپے جب کہ بیرونی قرض کی ادائیگی پر 10.09 کھرب روپے صرف کیے جائیں گے۔ اس اضافی بھاری مالی دباؤ کے باعث ہی صحت و تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کے فنڈ کم کیے گئے ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بجٹ 65 ارب روپے تھا جو امسال کم ہو کر39.5 ارب روپے رہ گیا۔
جو حصول تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت نے بجٹ میں 1500 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے ہیں جب کہ بھارت سے حالیہ جنگ اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث دفاعی بجٹ میں 21 فی صد اضافہ کرتے ہوئے 2,550 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو حالات کی نزاکت، سنگینی اور دشمن کی امکانی جارحیت کے پیش نظر از بس ضروری ہے کیوں کہ جنگ میں اپنی عبرت ناک شکست اور عالمی سطح پر رسوائی و بدنامی کے باعث مودی سرکار کے جنگی جنون میں برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنے دفاعی اخراجات کی رقم بڑھاتا جا رہا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کا دفاعی بجٹ مالی سال 2025-26 میں 6 لاکھ 81 ہزار 210 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 9.5 فی صد زیادہ ہے۔ بھارت کے دفاعی اخراجات میں گزشتہ پانچ سالوں میں94 فی صد اور دس سالوں میں 170 فی صد اضافہ ہوا ہے جس کا واحد مقصد جدید جنگی ٹیکنالوجی حاصل کرکے پاکستان کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط کرنا ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کا دفاعی بجٹ میں اضافہ ایک صائب فیصلہ ہے۔
قومی بجٹ کے حوالے سے ہر سال ملک کے 24 کروڑ عوام اپنے مسائل مشکلات، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے ضمن میں بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقے سے لے کر تاجر اور صنعتکار اور دیہاڑی دار عام مزدور بھی پرامید ہوئے ہیں کہ حکومت امسال انھیں مراعات اور سہولیات دینے کے لیے اقدامات اٹھائے گی۔ شو مئی قسمت دیکھیے کہ برسر اقتدار حکومت ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ بالخصوص تنخواہ دار طبقے اور عام آدمی کو کبھی کوئی قابل ذکر اور لائق تحسین ریلیف نہیں دیا جاتا۔ نتیجتاً کوئی حکومت عوام کی توقعات پر پوری نہیں اترتی۔ اس پہ مستزاد ہر حکومت اپنے پیش کردہ بجٹ کو متوازن اور عوام دوست کہتی رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ مخلوط حکومت نے بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی روایت کو زندہ رکھا۔ 2025-26 کا بجٹ بھی عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا اور وزیر اعظم شہباز شریف فرماتے ہیں کہ تمام اقتصادی اشاریے مثبت ہیں، پاکستان ٹیک آف کی پوزیشن میں آ گیا ہے۔ بھارت کو روایتی جنگ میں شکست دینے کے بعد معاشی میدان میں بھی ہرائیں گے۔ جب کہ اپوزیشن سے لے کر حکومت کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی بھی بجٹ اقدامات پر تنقید کر رہی ہے۔ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسے آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا۔ پیپلز پارٹی نے تنخواہوں میں 50 فی صد اضافے کی تجویز دی تھی لیکن 10 فی صد اضافہ کیا گیا جسے پی پی نے مسترد کر دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ لیکن اس کی آواز نہیں سنی جاتی۔
حکومت نے وزیروں، مشیروں، اراکین پارلیمنٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی تنخواہوں میں تو سیکڑوں گنا اضافہ کر دیا ہے جب کہ تنخواہ دار طبقہ اور عام مزدور جو مہنگائی کی چکی میں سب سے زیادہ پستا ہے اس کی تنخواہوں میں صرف 10 فی صد اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرا کے مترادف ہے۔
مزدور کی کم سے کم تنخواہ 37,000 روپے میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، اسی طرح ای او بی آئی کے بوڑھے پنشنرز کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کے دباؤ پر پٹرولیم مصنوعات پر 2.5 فی لیٹر کاربن لیوی، جو اگلے سال 5روپے ہو جائے گی، بجلی کے بلوں پر ڈیبٹ سروسنگ سرچارجز لگا کر گویا مہنگائی کو دعوت دی گئی ہے جو کروڑوں غریبوں پر تازیانہ سے کم نہیں۔ بجا کہ شہباز حکومت نے ملک کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے لیکن قرضوں سے نجات و آئی ایم ایف کے دباؤ سے نکلنے اور عالمی بینک کے مطابق 44 فی صد سے زائد کروڑوں غریبوں کو جو غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ریلیف فراہم کرنے کے لیے ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔