امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اپنی انٹیلی جنس کمیونٹی کے مؤقف کو مسترد کر دیا ہے۔
نیوجرسی میں ایئر فورس ون سے اترنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق انٹیلی جینس کمیونٹی کی رپورٹ کو اس وقت مسترد کر دیا جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا وہ اپنی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس، ٹلسی گیبارڈ کی اس رائے سے متفق ہیں کہ ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
اس سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ میری انٹیلی جنس کمیونٹی غلط ہے۔ٹرمپ کے اس بیان نے امریکی پالیسی اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تضاد کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ اسرائیل اور ایران کے درمیان ممکنہ جنگ بندی معاہدے کی حمایت شاید کریں، مگر ساتھ ہی واضح کیا کہ اسرائیل جنگ کے لحاظ سے بہتر پوزیشن میں ہے اور میرے خیال میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کی پوزیشن کمزور ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے یورپ کی صلاحیتوں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورپ اس تنازعے (اسرائیل-ایران) میں مدد نہیں کر پائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت اسرائیل سے ایران پر بمباری روکنے کا مطالبہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ٹرمپ نے کہا اگر کوئی جیت رہا ہو تو یہ مطالبہ زیادہ مشکل ہوتا ہے، بہ نسبت اس کے کہ کوئی ہار رہا ہو۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ایران کی جوہری صلاحیت ختم کر سکے، ایران سے بات کریں گے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، میں مذاکرات سے پہلے سیز فائر چاہتا ہوں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو دو ہفتوں کا ٹائم دیا ہے اور دو ہفتے کا ٹائم کافی ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کی جنگ بند کرانے پر مجھے نوبیل پرائز ملنا چاہیے مگر نوبیل پرائز لبرلز کو ملتا ہے، یہ لوگ مجھے نہیں دیں گے۔
یہ پڑھیں: حکومتِ پاکستان کی امریکی صدر کو نوبل امن انعام 2026 کے لیے نامزد کرنے کی سفارش
دوسری جانب تہران نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ جب تک اسرائیل ایران پر فضائی حملے بند نہیں کرتا، اس وقت تک امریکا سے براہِ راست بات چیت ممکن نہیں ہے۔